کرپٹوکرنسی فراڈ،پاکستانیوں کے 18ارب ڈوب گئے
شیئر کریں
آن لائن ایپلی کیشنز کے ذریعے پاکستانیوں سے اربوں روپے کے فراڈ کا انکشاف ہو اہے، رقم کرپٹو کرنسی کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی گئی،وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے کرپٹو کرنسی میں 18 ارب سے زائد کے فراڈ کے حوالے سے عالمی کرپٹو ایکسچینج کو نوٹس جاری کر دیاہے ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرمایہ کار کرپٹو میں پیسا لگا رہے ہیں۔ پاکستانی بھی اس جدید صنعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں لیکن راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں فراڈ بھی عام ہے۔ ایسا ہی کچھ ہوا جب پاکستانیوں کا اربوںروپیہ ڈوب گیا۔پاکستانیوں سے اربوں روپے کا فراڈ آن لائن ایپلیکشنز کے ذریعے کیا گیا، آن لائن ایپلیکیشنز کرپٹو کرنسی کی عالمی ایکسچینج بائینانس سے جڑی تھیں۔ایف آئی اے سائبر کرائم نے بائینانس کے پاکستان میں جنرل منیجر کو نوٹس جاری کر دیاہے۔ایف آئی اے کے مطابق بھاری منافع کے لالچ میں ایم سی ایکس،ایچ ایف سی،ایچ ٹی فوکس،ایف ایکس کوپی،اوکی منی، بی بی زیروزیروون، اے وی جی 86 سی، بی ایکس 66، یو جی، ٹاسک ٹاک اور 91 ایف بی ایپلی کیشنز نے لوگوں سے پیسے بٹورے اور پھر ایپلی کیشنز بند کر دیں۔بائننس ایکسچینج پر موجود 26 اکائونٹس بھی اس دھندے میں ملوث تھے جنہوں نے اپنے والٹس میں پیسے منگوائے۔ ایف آئی اے نے کمپنی کے پاکستان میں موجود منیجر سے ان اکائونٹس کی تفصیلات مانگ لی ہیں جبکہ ان کے پیسے بھی بلاک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ایف آئی اے نے فراڈ اپیلی کیشنز سے منسلک پاکستانی بینک اکائونٹس بلاک کر دیئے ہیں جبکہ ان ایپلی کیشنز کی سوشل میڈیا پر تشہیر کرنے والوں کو بھی قانونی نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔اس ضمن میں ایف آئی اے کے ہیڈ آف سائبر کرائم عمران ریاض نے بتایاکہ پاکستان میں 11 موبائل فون ایپلیکشنز بائینانس سے رجسٹرڈ تھیں جن کے ذریعے فراڈ ہوا، 11 موبائل فون ایپلیکیشنز دسمبر میں اچانک بند ہو گئیں، جن پر ہزاروں پاکستانی رجسٹرڈ تھے، ان ہزاروں پاکستانیوں نے ان ایپلی کیشنز پر اربوں روپے لگا رکھے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ایپلی کیشنز کے ذریعے ابتدا میں ورچوئل کرنسیز میں کاروبار کی سہولت دی جاتی تھی، بٹ کوائن، ایتھرام، ڈوج کوائن وغیرہ میں سرمایہ کاری بائینانس کے ذریعے ظاہر کی جاتی تھی، ایپلی کیشنز کے ٹیلیگرام اکاونٹ پر ماہرین کرپٹو کرنسی پر جوا بھی کھلاتے تھے، ایک ایپلی کیشن پر 5 سے 30 ہزار کسٹمر اور سرمایہ کاری 100 سے 80 ہزار ڈالر تھی، ایپلی کیشنز کے ذریعے عوام کو مزید افراد کو لانے پر بھاری منافع کا لالچ دیا جاتا تھا۔عمران ریاض نے بتایا کہ ایف آئی اے کو بائینانس کے 26 مشتبہ بلاک چین والٹ ملے جن پر رقوم ٹرانسفر ہوئیں، بائینانس سے ان بلاک چین والٹس کی تفصیلات مانگی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے نے امریکا اور کے مین آئی لینڈ میں بائینانس کے ہیڈکوارٹر بھی نوٹس بھیجے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ ایف آئی اے پاکستان سے بائنانس کے ذریعے ہونے والی ٹرانزیکشن کی چھان بین کر رہی ہے، بائنانس ٹیرر فائنانسنگ اور منی لانڈرنگ کے لیے آسان راستہ ہے، امید ہے کہ بائنانس ان مالی جرائم کی تحقیقات میں پاکستان سے تعاون کرے گا۔واضح رہے کہ پاکستان میں کرپٹو کے غیر واضح قوانین کی وجہ سے لوگوں کو لوٹنا آسان ہے کیونکہ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہی نہیں کون سی ایپ جعلی ہے یا نہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر ایپس کی تشہیر کے واضح قوانین بھی نہیں ہے۔ اس لئے پاکستانیوں کو مشورہ ہے کہ وہ اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد ہی سرمایہ کاری کا فیصلہ کریں۔