قوت گویائی کی بحالی میں کامیابی
شیئر کریں
(مہمان کالم)
پام بیلک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ 2003ء میں اْس وقت اپنی قوتِ گویائی سے محروم ہو گیا تھا جب صرف 20 سال کی عمر میں ایک خوفناک حادثے کے بعد اس پر فالج کا شدید حملہ ہوا تھا مگر ریسرچرز نے ایک سائنسی سنگ میل عبو رکرتے ہوئے اس کے دماغ کے قوتِ گویائی والے حصے میں ایک ڈیوائس نصب کر دی ہے جس کے نتیجے میں وہ قابلِ فہم الفاظ اور جملوں کی ادائیگی کر سکتا ہے۔ اس کا نک نیم پانچو ہے، وہ جب بولنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے دماغ میں نصب الیکٹروڈز ایک کمپیوٹر کو سگنلز جاری کرتے ہیں جو انہیں اسکرین پر ڈسپلے کر دیتا ہے۔ ریسرچرز نے بتایا کہ اس کا پہلا قابل شناخت جملہ یہ تھا کہ ’’میری فیملی باہر ہے‘‘۔
یہ کارنامہ‘ جو اسی ہفتے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوا ہے‘ فالج کے مریضوں کے علاوہ ان تمام مریضوں کی بھی مدد کرے گا جو کسی وجہ سے اپنی قوتِ گویائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے پروفیسر آف نیورولوجی میلانی فریڈاوکن کا کہنا ہے ’’یہ اتنی بڑی کامیابی ہے جس کے بارے میں ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا‘‘۔
پانچو‘ جس کی عمر اب 38 سال ہے‘ آج سے تین سال پہلے نیورو سائنس ریسرچرز کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوا تھا۔ ریسرچرز کو یقین نہیں تھا کہ اس کے دماغ کا گویائی والا میکانزم ابھی تک فعال ہے یا نہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر آف نیورو سرجری ڈاکٹر ایڈورڈ چینگ‘ جنہوں نے اس ریسرچ کی نگرانی کی تھی‘ کہتے ہیں ’’دماغ کا یہ حصہ غیر فعال بھی ہو سکتا تھا اور ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ کبھی اسے بولنے کے قابل بنانے کے لیے واقعی دوبارہ بیدار ہو سکتا ہے‘‘۔
ٹیم نے 128 الیکٹروڈز والی ایک مستطیل شیٹ اس کے دماغ میں نصب کر دی تھی جسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ یہ قوتِ گویائی سے متعلق سینسری اور موٹر پروسیسز کے ان سگنلز کی پہچان کر سکتی ہے جو ہمارے منہ، ہونٹوں، زبان اور جبڑوں سے منسلک ہوتے ہیں۔81 ہفتوں میں 50 سیشن ہوئے جن کے دوران انہوں نے پانچو کے سر کے ساتھ لگی ہوئی کیبل کی مدد سے اس شیٹ کو کمپیوٹر کے ساتھ جوڑ دیا اور پانچو کو 50 الفاظ پر مشتمل ایک فہرست دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان میں سے کوئی لفظ بولنے کی کوشش کرے جن میں ہنگری، میوزک اور کمپیوٹر جیسے الفاظ بھی شامل تھے۔ جب اس نے ایسا کیا تو الیکٹروڈز نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے ایسے سگنلز جاری کیے جنہوں نے مطلوبہ الفاظ کی شناخت کرنے کی کوشش کی۔ ایک پوسٹ ڈاکٹرل انجینئر ڈیوڈ موزز‘ جنہوں نے دو گریجویٹ سٹوڈنٹس کے ساتھ مل کر یہ سسٹم بنایا ہے‘ کا کہنا ہے ’’ہمارا سسٹم ہمارے دماغ کی اس سرگرمی کو جو عام طور پر ہمارے ووکل ٹریکٹ یعنی مخر کی نالی کو کنٹرول کرتی ہے‘ براہ راست الفاظ اور جملوں میں ترجمہ کر دیتا ہے‘‘۔ یہ تینوں ہی اس اسٹڈی کے اہم مصنفین ہیں۔
پانچو (جس کی شناخت خفیہ رکھنے کے لیے اسے صرف پانچو کے نک نیم سے متعارف کرایا گیا ہے) نے یہ 50 الفاظ 50 مختلف جملوں میں کہنے کی کوشش کی، جیسا کہ ’’میری نرس اس وقت باہر ہے، براہ کرم میرا چشمہ لا دیجیے‘‘ اس نے اس طرح کے سوالات کے جواب بھی دیے ’’آج آپ کیسے ہیں؟‘‘ تو ا سکرین پر اس کاجواب نمودار ہوا کہ ’’میں بالکل ٹھیک ہوں‘‘۔ پانچو پر 9000 مرتبہ کوشش کی گئی اور ان میں سے نصف میں اس نے سنگل لفظ بولنے کی کوشش کی اور سسٹم نے اسے بالکل صحیح سمجھ بھی لیا۔ اسکرین پر لکھے ہوئے جملے بولنے میں اس کی کارکردگی زیادہ بہتر تھی۔ آٹو کْریکٹ لینگویج پریڈکشن سسٹم کی مدد سے جب ان نتائج کی چھان پھٹک کی گئی تو کمپیوٹر نے ان جملوں میں سے تین چوتھائی انفرادی الفاظ کو شناخت کر لیا اور ان تمام جملوں کو آدھے وقت میں درست انداز میں ڈی کوڈ بھی کر لیا۔ ڈاکٹر فریڈ اوکن‘ جن کی اپنی ریسرچ سر پر پہنی ٹوپی میں الیکٹروڈز لگا کر سگنلز کی شناخت سے متعلق ہے مگر اسے دماغ میں نصب نہیں کیا گیا‘ کا کہنا ہے ’’اہم کامیابی یہ ہے کہ ہم دماغ کے گویائی کے موٹر ایریا میں برقی سگنلز کو عام زبان میں منتقل کرنے کو عملی طور پر ثابت کر نے میں کامیاب ہو گئے ہیں‘‘۔
ایک حالیہ سیشن میں‘ جس کا نیویارک ٹائمز نے بھی مشاہدہ کیا ہے‘ پانچو‘ جس نے اپنے سر پر سیاہ ہیٹ پہن رکھا تھا‘ مسکرا کر اپنے سر کو تھوڑی سی حرکت بھی دی تھی۔ اس ا سٹڈی میں اس نے ایک جملہ بھی بولا تھا کہ ’’نہیں! مجھے پیاس نہیں لگی ہے‘‘۔ اس آرٹیکل کے لیے پانچو نے ہمیں کئی انٹرویوز دیے، اس نے سر کے ذریعے کنٹرول کیے گئے مائوس کی مدد سے ہمارے ساتھ بات چیت کی، وہ اسی طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ دماغ میں لگی اس ڈیوائس کی مدد سے اپنے بولے ہوئے الفاظ کی پہچان میرے لیے ایک انقلاب آفرین تجربہ ہے۔ پانچو نے شمالی کیلیفورنیا کے نرسنگ ہوم سے‘ جہاں وہ رہائش پذیر ہے‘ ایک وڈیو چیٹ میں ٹائپ کر کے بتایا ’’میں نہیں جانتا مگر میں کچھ اچھی بات دیکھنا چاہتا ہوں کیونکہ ڈاکٹرز نے مجھے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ میرے بہتر ہونے کا زیرو چانس ہے‘‘۔ ایک ای میل کے ذریعے اس نے بتایا ’’ابھی تک میں کسی کے ساتھ بات نہیں کر سکتا، نارمل گفتگو نہیں کر سکتا، اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتا، ان حالات میں زندہ رہنا بہت مشکل اور تکلیف دہ ہے‘‘۔
الیکٹروڈز کی مدد سے ریسرچ کے دوران اس نے لکھا ’’یہ بالکل ایسے ہی لگ رہا ہے کہ میں دوسری بار بولنا سیکھ رہا ہوں‘‘۔ ا س نے بتایا کہ وہ کیلیفورنیا کے انگور کے کھیتوں میں کام کرنے والا ایک صحت مند فیلڈ ورکر تھا کہ گرمیوں کی ایک اتوار کو فٹ بال میچ دیکھنے کے بعد اس کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ اس حادثے میں اس کے معدے پر شدید چوٹ لگی۔ معدے کی سرجری کے بعد اسے ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ وہ چل پھر سکتا تھا، بات چیت کر سکتا تھا، اس کا دماغ صحیح کام کر سکتا تھا۔ وہ صحت یابی کی راہ پر کامیابی سے گامزن تھا۔ اس نے لکھا ’’پھراگلی صبح میں گر رہا تھا اور میں اپنے آپ کو سنبھالنے کے قابل نہیں تھا‘‘۔ ا س نے مزید لکھا کہ ڈاکٹرز نے بتایا کہ فالج کے شدید حملے میں میرے دماغ کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ سرجری ہونے کے بعد دماغ میں خون کا ایک لوتھڑا آ جانے کی وجہ سے ہوا ہے
ایک ہفتے بعد جب مجھے کومے سے ہوش آیا تو میں نے خود کو ہسپتال کے ایک تنگ و تاریک کمرے میں پڑا پایا۔ ’’میں نے حرکت کرنے کی کوشش کی مگر میں اپنی انگلی تک کو بھی نہ ہلا سکا۔ میں نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر میرے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا؛ چنانچہ میں نے رونا شروع کر دیا مگر اس دوران بھی میرے منہ سے کوئی ا?واز نہ نکلی۔ میں صرف اشاروں سے ہی سمجھا سکا۔ میرے دل میں آیا کاش میں کومے میں ہی رہتا‘‘۔
میساچوسیٹس جنرل ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر لی ہاچبرگ‘ جنہوں نے اس ریسرچ میں تو حصہ نہیں لیا مگر اس کی ایڈیٹوریل ٹیم کا حصہ تھے‘ کا کہنا ہے ’’یہ نئی اپروچ اس جدت کا حصہ تھی جس کا مقصد ان ہزاروں لوگوں کی مدد کرنا ہے جو بولنے سے قاصر ہیں مگر ان کے دماغ میں بولنے میں مدد دینے والے نیورل ریشے موجود ہوتے ہیں‘‘۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کے دماغ پر چوٹ لگی تھی یا جن کے دماغ جزوی فالج کا شکار تھے۔ اس صورت میں مریض کے پٹھے بولنے میں مدد نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر ہاچبرگ‘ جو برین گیٹ نامی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ہیں جس میں چھوٹے چھوٹے الیکٹروڈز دماغ میں لگائے جاتے ہیں جو انفرادی سگنلز کو پڑھ سکتے ہیں‘ نے حال ہی میں ایک فالج زدہ مریض کے ہینڈ رائٹنگ کی حرکات کو ڈی کوڈ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’اب یہ محض چند سال کی بات ہے جب ایک ایسے مفید سسٹم کو کلینکس میں استعمال کیا جا سکے گا جو قوتِ گویائی کی بحالی کا باعث بنے گا‘‘۔
کئی سال تک پانچو بھی ایک پوائنٹر کی مدد سے سپیلنگ کرکے کمپیوٹر پر الفاظ لکھتا رہا۔ یہ پوائنٹر ایک بیس بال کی ٹوپی کی مدد سے سر کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ یہ ایک مشکل طریقہ کار تھا جس میں وہ ایک منٹ میں پانچ درست الفاظ لکھ لیتا تھا ’’مجھے اپنا سر آگے کی طر ف جھکا کر کی بورڈ پر ایک ایک حرف لکھنا پڑتا تھا‘‘۔ گزشتہ سال ریسرچرز نے اسے ایک ڈیوائس دی جو ایک ہیڈ کنٹرولڈ مائوس تھا مگر یہ دماغ میں لگے الیکٹروڈز جتنا تیز نہیں ہے۔ ان الیکٹروڈز کی مدد سے پانچو ایک منٹ میں 15 سے 18 الفاظ فی منٹ لکھ لیتا ہے۔ اس سٹڈی میں اس سے زیادہ ا سپیڈ ممکن نہیں تھی کیونکہ کمپیوٹر کو اشاروں میں مدد کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر چینگ کے مطابق اس سے بھی تیز رفتار ڈی کوڈنگ ہو سکتی ہے مگر یہ امر واضح نہیں ہے کہ یہ عام گفتگو جتنی سپیڈ یعنی 150 الفاظ فی منٹ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ا سپیڈ ہی بنیادی وجہ ہے جس کی بنا پر اس پروجیکٹ کا فوکس بولنے پر ہے اورلکھنے یا ٹائپ کرنے کے لیے ہاتھ کے اشاروں کے بجائے یہ براہ راست دماغ کے اس حصے کو متحرک کرتا ہے جہاں الفاظ جنم لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’’لوگوں کے اظہار خیال کے لیے یہ سب سے قدرتی طریقہ ہے‘‘۔
پانچو نے اپنی ای میل میں لکھا ’’کئی دفعہ میں اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں کر سکتا تو بہت زیادہ ہنستا ہوں اور میں اس کا زیادہ تجربہ نہیں کرتا‘‘۔ الگورتھم کئی مرتبہ ایک جیسی آوازوں والے الفاط کو شناخت کرتے وقت کنفیوز کر دیتا تھا مثلاً going کو bring اورdo کو you کا سگنل دے دیتا۔F کی آواز والے الفاظ جیسے faith, family, feel کوF کے بجائے V کی آواز دے دیتا تھا۔ طویل جملوں کو لینگویج پریڈکشن سسٹم سے زیادہ مدد کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس مدد کے بغیر How do you like my music? کو یہ سسٹم ڈی کوڈ کرتے وقت How do you like bad bring? بنا دیتا تھا۔ اسی طرح Hello! how are you? کو Hungry how am you سے ڈی کوڈ کرتا تھا۔
ڈاکٹر چینگ کہتے ہیں کہ کووڈ کے مہینوں میں جو سیشن ہوئے ان کے دوران دو طرح سے بہتری آئی کیونکہ ایک تو الگورتھم پانچو کی کوششوں
سے کافی کچھ سیکھ گیا اور دوسرا یہ کہ بہت سی ایسی باتیں بھی تھیں جو یقینا پانچو کے دماغ میں تبدیل ہو رہی تھیں اور اس کے دماغ میں روشنی پھیلنے سے ہمیں وہ سگنل نظر آرہے تھے جو ہمیں ان الفاظ کو سمجھنے کے لیے درکار تھے۔ فالج کا حملہ ہونے سے پہلے پانچو اپنے آبائی ملک میکسیکو میں صرف 6th گریڈ تک سکول گیا تھا۔ اس کے بعد اپنی پختہ عزمی کی بدولت اس نے ایک ہائی ا سکول ڈپلومہ لیا تھا اورکالج کی کلاسز بھی لی تھیں۔ ویب ڈویلپرکا سرٹیفکیٹ حاصل کیا تھا اور پھر فرنچ بھی سیکھ رہا تھا۔ ایک ای میل میں ا س نے لکھا ’’شاید کار کے تباہ شدہ ڈھانچے نے مجھے ایک بہتر اور ہوشیار انسان بنا دیا‘‘۔
اپنی کلائی کی محدود سی حرکت سے پانچو ایک الیکٹرک ویل چیئر بھی چلا لیتا ہے۔ کسی بھی سٹور پر جا کر وہ ادھر ادھر منڈلاتا رہتا ہے حتیٰ کہ کیشیئر سمجھ جاتا ہے کہ وہ کیا خریدنا چاہتا ہے جیسے کہ کافی کا ایک کپ وغیرہ۔ وہ کافی کا کپ میری ویل چیئر میں رکھ دیتے ہیں اور میں اسے لے کر گھر آ جاتا ہوں، اس طرح وہ کافی پینے میں میری مدد کرتے ہیں۔ میرے اردگرد رہنے والے لوگ ہمیشہ حیران ہوتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کافی خریدتے کیسے ہیں؟ آپ انہیں کیسے بتاتے ہیں کہ آپ کیا لینا چاہتے ہیں؟
وہ دوسرے ریسرچرز کے ساتھ مل کر الیکٹروڈز کی مدد سے ایک روبوٹک بازو استعمال کرنا بھی سیکھ رہا ہے۔ اس کا ہفتے میں دو مرتبہ ا سپیچ تھراپی کا سیشن مشکل اور تھکا دینے والا ہو سکتا ہے مگر وہ ہر روز وقت پر بیدار ہونے اور بستر سے نکلنے کا منتظر رہتا ہے کہ اس کے یو سی ایس ایف کے لوگ آنے والے ہیں۔ اس کی سپیچ اسٹڈی پوری دہائی کی ریسرچ کی معراج ہے جس میں ڈاکٹر چینگ اور ان کی ٹیم نے دماغی سرگرمی کے لیے تما م Vowel and Consonant آوازوں کا خاکہ تیار کیا ہے اور اسے صحت مند افراد کے دماغوں میں نصب کیا ہے تاکہ وہ کمپیوٹرائزڈ آواز پیدا کر سکیں۔
ریسرچرز کہتے ہیں کہ پانچو کے دماغ کو الیکٹروڈز اسٹڈی نہیں کرتے بلکہ وہ جو بھی لفظ بولنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے متعلقہ سگنلز کو ڈی کوڈ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فریڈ اوکن کہتے ہیں ’’وہ لفظ کو سوچ رہا ہوتا ہے یہ کوئی اڑتا ہوا خیال نہیں ہوتا جسے کمپیوٹر پکڑ لیتا ہے‘‘۔ ڈاکٹرچینگ کہتے ہیں ’’مستقبل میں شاید ہم یہ جاننے میں کامیاب ہو جائیں کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں‘‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس ٹیکنالوجی سے متعلق بہت سے اخلاقی سوالات بھی پید ا ہو جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’’مگر ہم قوتِ گویائی کو بحال کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔
ڈاکٹر موزز کا کہنا ہے ’’پانچو حقیقی معنوں میں اس کا بانی ہے‘‘۔ ان کی ٹیم ایسے حساس امپلانٹس بنانا چاہتی ہے جو وائرلیس ہوں تاکہ کسی قسم کا انفیکشن پھیلنے کا اندیشہ نہ رہے۔ پانچو کہتا ہے ’’میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کے قابل ہو جائوں مگر اب میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ سب کچھ میں صرف اپنے لیے ہی نہیں کر رہا ہوں‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔