کرکٹ کا جنازہ ہے۔۔۔۔۔۔۔آخری قسط
شیئر کریں
ہم نے اس سابق فرسٹ کلاس کرکٹر سے گفتگو جاری رکھتے ہوئے پوچھاکہ کرکٹ میں درآنے والی ان سب بدعنوانیوں اور خرابیوں کی وجہ کیا ہے؟ تو فرمانے لگے کہ زوال تو زندگی کے ہر شعبے میں آیا ہے، اس ناطے کرکٹ بھی زوال پذیر تھی لیکن زوال کا یہ عمل قدرے سست تھا، لیکن جب سے امن و امان کی صورتِ حال کو بہانہ بنا کر پاکستان کے اندر کرکٹ پر پابندی لگائی گئی اور ہمارے ہاں ہاکی ، والی بال اور سکواش کے میدانوں کو ویران کرنے کے بعد کرکٹ کے میدانوں کو ویران کرنے کے کام کا آغاز کیاگیا ،تو تب سے تو گویا اندھی ہی پڑ گئی ہے اور زوال کا عمل بہت سرعت انگیز ہو گیا ہے۔ حالاں کہ اگر دیکھا جائے تو بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملک میں امن و امان کی صورتِ حال موجودہ حالات سے زیادہ خراب تھی ، اب تو اس میں بہتری آئی ہے ، لیکن پھر بھی کوئی غیر ملکی کرکٹ ٹیم ہمارے ملک کا دورہ کرنے کو تیار نہیں، اور اگر کوئی اس امر کا عندیہ دے بھی دے تو بھارت کرکٹ بورڈ کے حکام جو اس وقت تقریباً آئی سی سی کے تمام معاملات چلا رہے ہیں، وہ اُس کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور وہ ملک فوراً اپنی پیش کش سے دست بردار ہوجاتا ہے۔
ہمارے ملک میں کرکٹ ختم کروانے کی اس پوری سازش میں اُس وقت کی وفاق (اور پنجاب میں گورنر کے ذریعے ) حکمران پیپلز پارٹی سمیت ، ریاست کے سب ہی اداروں نے مجرمانہ کردار ادا کیا، اورجس مہارت کے ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنی لیڈر کا قتل پسِ خاک دھکیلا تھا، اُسی مہارت سے انہوں نے کرکٹ کا بھی جنازہ نکال ڈالا۔
بات جاری رکھتے ہوئے بولے ویسے اس وقت ہمارے کرکٹ بورڈ پر قابض افسر شاہی اور سابق کرکٹرز پر مشتمل مافیا بھی نہیں چاہتا کہ ملک میں کرکٹ بحال ہو۔ اب تو وہ بورڈ کے پلے سے لاکھوں روپے تنخواہیں لیتے ہیں اور کام بھی کچھ نہیں۔ جب کہ اگر کرکٹ بحا ل ہو جائے اور مہمان ٹیمیں ادھر آنا شروع ہوں گی تو پھر کام کرنا پڑے گا اور پنجابی محاورے کے مطابق
’کام جوان کی موت‘ ۔
اس لیے پوری کوشش ہوتی ہے ہمارے ہاں آنے والی ٹیم کو ملک سے باہر ہی رکھا جائے ، جس میں وہ مکمل طور پر کامیاب ہیں۔ بورڈ کا چھوٹے سے چھوٹا کلرک بھی ٹیم کے ہمراہ دورے پر باہر جاتا ہے تو اس کو ڈالروں کی شکل میں دیہاڑی ملتی ہے، بڑے حکام کی تو بات ہی نہ کریں ناں، کہ یہ شہزادے کیا اندھیر نگری مچاتے ہیں؟ ان کی تو پانچو ں گھی میں اور سرکڑاہی میں ہوتاہے۔ جیسے ہی کوئی ٹیم پاکستان آ کر کھیلنے کا عندیہ دیتی ہے تو ہمارے بورڈ کے اندر سے لوگ ان کو فون کر کے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں ۔ اگر کسی دوسرے ملک کے کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ بھلے راضی ہو بھی جائے تواس کے کھلاڑی یہاں کھیلنے کے لیے آنے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی سر پھرا پھر بھی راضی ہو جائے تو قبائلی علاقوں سے ایک خودکش پچاس لاکھ میں مل جاتا ہے۔ بس پھر کیا ہے، ملک کے حالات اگر بہتر ہوں بھی تو وہ ایک مرتبہ پھر کرکٹ کےلیے ناسازگار ہو جاتے ہیں۔
اس پر بولنے والے صحافیوں کو راتب ڈال دیا جاتا ہے۔ خواہ آپ کسی بھی چھوٹے بڑے اخبار کے صحافی ہیں یا ٹی وی کے نمائندے، سال میں ایک آدھ غیر ملکی دورہ ضرور آپ کو مل جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے صحافی کرکٹ کی بحالی کے لیے نہیں بلکہ اس پورے مفادات کے کیک میں سے اپنے حصے کے اضافے کے لیے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔
ہمارے ملک سے کرکٹ کو ختم کروانے میں بھارت نے بڑی منصوبہ بندی سے اس لیے بھی کام کیا کیوں کہ ُاس وقت وہ دنیا کی دوسری بڑی کرکٹ دیکھنے والی آبادی کا مرکز ہونے کی بنا پر پاکستان اس کے لیے ”کرکٹ کی منڈی“ میں ایک اہم حریف ہو سکتا تھا اور خاص طور پر جب ہمارے لوگوں کے پاس بنگلا دیش کے مقابلے میں زیادہ قوتِ خرید والااور نسبتاً ایک بڑامتوسط طبقہ بھی موجود تھا۔ یہ سب کسی بھی ایڈورٹائزر کے لیے ایک کشش ہو سکتی تھی، لہٰذا پہلے بھارت نے ہمارے ہاں کرکٹ بند کروائی اور ہمیں اس حالت تک لے آیا کہ ہم اپنی لیگ کو بھی مقامی میدانوں میں منعقد نہیں کر سکتے۔
اس کے مقابلے میں بھارت اپنے کرکٹ سامعین وناظرین کی تعداد اور معیشت کے سائز کی بنا پرآئی سی سی اور اس کے رکن دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈز کے سامنے باقاعدہ بدمعاشی کرتا ہے اور ان سے اپنی ہر جائز یا ناجائز بات منواتا ہے۔ اس کے سامنے ممکنہ مزاحمت کر سکنے والے آسٹریلین کرکٹرز کو اس نے پہلے ہی ‘انڈین پریمئر لیگ‘ میں قابو کر لیا ہے۔ اگر پاکستان کے کرکٹ کے میدان آباد ہوتے تو اسپانسرز اور فنانسرز کے لیے ہمارے میدان اتنے نہیں تو اس سے پچاس فی صد اہمیت کے حامل تو ہوتے ؟
عرض کیا تو پھر بھارت نے کوشش کر کے بنگلا دیش کو کیوں آگے کیاہے؟کہنے لگے بنگلا دیش کرکٹ بورڈ تو بھارت کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہے۔ وہ تو ان کی اجازت کے بغیر سانس تک نہیں لیتے۔ اس طرح بھارت نے پاکستان کو ایشیا کی کرکٹ میں تنہا کر کے ہی ہمیں سارک میں تنہا کرنے کی نیٹ پریکٹس کی تھی، جس کو ہم پہچان ہی نہیں پائے اور ٹک ٹک دیدم دیکھتے رہے۔
ویسے بھی بھارتیوں نے کرکٹ پاکستان کے اندربھی اپنے بے شمار ’ہمدرد‘ پیدا کیے ہوئے ہیں۔ کیا آپ نے نوٹ کیا تھا کہ جب بگ تھری کا ڈول ڈالا گیا تھا تو نجم سیٹھی اور رمیض راجہ کس طرح پاکستانی میڈیا پر بیٹھ کربھارتی کرکٹ بورڈ کی حمایت میں گرجتے پائے جاتے تھے اور بھارت کے خلاف ووٹ کی بات کرنے والوں پرطنزیہ طور پرجہادی اور پتہ نہیں کیا کیا ہونے کے طعنے دیتے پائے جا رہے تھے۔لیکن بھارت کی اس حمایت کے عوض پاکستان کو کیاملا ؟ بھارت کے ساتھ دو طرفہ سیریز کا محض وعدہ؟ وہ بھی اس قدر زیادہ؟ یعنی جب بھارت حسبِ سابق اور حسبِ روایت ان وعدوں سے مُکرے تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم، دنیائے کرکٹ کی سب سے فارغ ٹیم ثابت ہو، جس کے پاس کھیلنے کے لیے کوئی سیریز یا میچ ہی نہ ہو۔ گزشتہ دو سالوں میں پاکستان نے کسی ملک میں جا کر سہ ملکی یا چار ملکی کوئی سیریز کھیلی ہے؟
اب جب کہ ایک دفعہ پھر نام نہاد دو طرفہ کرکٹ سیریز کھیلنے کے وعدوں سے بھارت ایک دفعہ مُکر گیا ہے تو بھارت کے ان تمام ہمدردین منہ سے ایک لفظ نہیں پھوٹ رہے، اور نہ ہی ان سے کوئی پوچھ پارہا ہے کہ آپ نے جس بناءپر بھارتی موقف کی حمایت کرنے کی بات کی تھی اب ذرا اس حوالے سے اپنے ممدوح کے بارے کچھ کہہ دیں۔ اور نہیں تو کم از کم اس کی ’مجبوریوں‘ کی کوئی جھوٹی سچی فہرست ہی گنوادیں تاکہ کچھ تو حقِ نمک کی وجہ بھی ہمیں معلوم ہو سکے۔
ان کے بھارتی ٹیلی ویژنوں کے ساتھ کمنٹریوں کے معاہدے پکے ہو گئے ہیں ۔
یہ صاحب تو تقریر کر کے چلے گئے لیکن ہم یہ سوچتے رہے کہ یہ محاورہ کہ ”جس قوم کے میدان ویران ہو جائیں ، اس کے ہسپتال آباد ہو جاتے ہیں“ تو پرانے دور کی بات ہے۔ ہمارے جیسے نوجوان آبادی والے ملک میں تو اس کی ساخت کچھ یوں ہو گی کہ”جس قوم کے کھیلوں کے میدان ویران ہوجائیں، اس کے تھانے آباد ہو جاتے ہیں“۔ ہمارے ہاں دنیا میں نوجوانوں کی شرح آبادی سب سے زیادہ ہے اور ملک میں کسی ایک کھیل کا میدان بھی آباد نہیں۔ کچھ سابق فوجی جرنیل اور کرنل حضرات کھیلوں کی چوہدراہٹ پر لڑ رہے ہیں اور گزشتہ آٹھ سال سے ملک میں تمام کھیل ایک ایک کر کے ختم ہو گئے ہیں، اور ان کے کھلاڑی یا تو پولیس مقابلوں کی بھینٹ چڑھ گئے یا پھر ہمارے دوست کی طرح بیرونِ ملک سدھار گئے۔
٭٭