جیسی نیت ویسی مراد
شیئر کریں
رنگ صحرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راناخالدقمر
جیسی نیت ویسی مراد یہ کہاوت نہیں زندگی کافلسفہ ہے جس کی بنیاد اسلام کے اس سنہری اصول پر رکھی گئی "اعمال کا دارومدار نیتوں پرہوتاہے ” یعنی آپ جونیت کرتے ہیں اللہ پاک صلہ بھی ویساہی دیتاہے۔ یہ فطری بات ہے کہ آپ نے جوبیج بوناہے وہی فصل کاٹنی ہے۔یہ تونہیں ہوسکتا کہ آپ گندم بوئیں اورباجرہ کاٹیں۔ایسا ہی ماجرہ حکومت پاکستان کے ساتھ ہے جوہماری ”ریاست”کے بوئے ہوئے بیج کا”ثمر” ہے ،بہت پرانی بات نہیں کہ ہمیں یاد نہ ہو یہی کوئی دس سال قبل 2011 ء میں ایک طاقت ور ادارے کے سربراہ کی ”زیرنگرانی” مینارپاکستان کے سائے تلے یہ ”بیج” بویاگیا۔ زمین ہموارکرنے سے آبیاری کرنے تک چھدرائی سے کھاد ا سپرے تک سب کچھ ریاست نے اپنی جیب سے ”خرچ” کیا۔ غرض یہ کہ ریاست کے تمام وسائل اس فصل کوپکانے پرجھونک دیئے گئے۔ 2013 ء کے الیکشن میں جب ریاست نے محسوس کیا کہ فصل ان کی منشاء کے مطابق تیار نہیں ہوئی تو2014 ء میں وہ ”حجاب”بھی بالائے طاق رکھ دیاگیا جو2013 ء کے الیکشن میں مطلوبہ نتائج کے حصول میں رکاوٹ سمجھاگیاتھا۔
اسلام آباد کے ڈی چوک میں 126 دن تک ”دھمال”ڈالی گئی لیکن قوم ہمیشہ کی طرح ”ستو” پی کرسوئی رہی۔ آخر کار پانامہ نامی "ٹرمپ” کارڈ کھیلاگیا 2018 ء کے الیکشن میں وہ ”خواب”شرمندہ تعبیر ہواجو 2011 ء میں دیکھاگیاتھا. خواب کی تعبیر پانے والوں کے ذہن میں شائد یہ بات بھی تھی کہ عمران خان بہت معروف اور مشہور کھلاڑی ہے جو "چندے” سے شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے شاندار ادارے کھڑے کر سکتا وہ حکومت میں ہوگا تو نجانے کیا کچھ کر دے گا۔ پاکستان کے ذمہ اربوں ڈالر تو خان کے "جھولی” پھیلانے کی مار ثابت ہوں گے "ریاست” کی اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جہانگیرخان ترین کامشہور معروف جہا ز دن رات ایک کرکے وہ”ثمر”اکٹھا کرتارہااوریوں ریاست نے وقت کی بھٹی میں سونے کو”کندن”بنانے کافخریہ اعلان کردیا۔
پاکستان تحریک انصاف نامی ایک جماعت عمران خان کی سربراہی میں 2018 ء کے الیکشن کے بعد وطن عزیز پاکستان کی سیاہ وسفیدکی مالک ”قرار”دی گئی۔ عمران خان کے بقول انہوں نے 22 سال جدوجہدکے بعد نیا پاکستان بنانے کاآغاز کردیا۔ انہوں نے جس نیاپاکستان کی بنیاد پرانااور ”بوسیدہ”پاکستان کے ملبے کے ڈھیر پررکھی اس کی اینٹیں چیخ چیخ کر گواہی دے رہی تھی کہ جب ہمیں گرایا گیاتب ملکی ترقی کی شرح 5.9 فیصد اورملکی خزانے میں محفوظ ذخائر17 ارب ڈالر سے زائدتھا۔ ملک میں چین کی مدد سے ایک سی پیک نامی ترقیاتی منصوبہ شروع ہوچکاتھا جس پر45 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کارخ پاکستان کی طرف ہوچکاتھا۔ تبدیلی سرکارنے آتے ہی سی پیک نامی اس سرمایہ کاری کوبریک لگادی اور یوں سمندرسے گہری ہمالیہ سے اونچی اورشہدسے میٹھی دوستی میں ”کڑواہٹ”ملادی گئی۔ نوازشریف نامی وزیر اعظم کومودی کایاراور تقریبا ”غدار”قراردیکر اسے بیٹی سمیت جیل میں ڈال دیاگیا۔ اس کی پارٹی کوبابارحمتے برانڈ ”انصاف”سے سینیٹ میں ٹکٹوں سے محروم کردیاگیا۔اس پارٹی کے سینٹر”ڈھیٹ”نکلے جنہوں نے موقع ملنے کے باوجود فائدہ نہ اٹھایا اورپارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیاکہ ریاست نے اپنے تمام وسائل ن لیگ اوراپوزیشن کودبانے اورنئی نویلی محبت کوابھارنے میں جھونک دیئے۔ اداروں کوآئین وقانون کی پرواہ کیے بغیرمطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے اہداف دے دیئے گئے۔
نیب۔ ایف آئی اے سمیت تمام معلوم و "نامعلوم” اداروں کو”ثواب” کی نیت سے یہ کام کرنے کے لیے فری ہینڈ دیاگیا۔ آج جب ہم اس حکومت کی تین سالہ کارکردگی پرنظردوڑاتے ہیں توسوائے ہاتھ پھیلانے کے اس کے "نامہ اعمال” میں ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اللہ کاحکم ہے کہ اوپروالاہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہترہے۔ یہ حکم ربی ابھی دوتین دن قبل پوراہواجب وزیراعظم پاکستان عمران خان۔خاتون اول اور دیگررفقاء کے ہمراہ سعودی عرب کے دورہ پرگئے۔ تین روزہ دورے میں دو چیزیں نمایاں طورپردکھائی دیں۔ سب سے پہلے وہ تصاویر اور ویڈیوز جو عمران خان اوران کے وفد کی خانہ کعبہ اور روضہ رسول پرحاضری کے موقع پر جاری کی گئیں جبکہ دوسری وہ تصویر ہے جس میں وفاقی وزیر مرادسعید ایک عرب ہم منصب کے ساتھ اس بورڈ کے سائے تلے بیٹھے ہیں جس پرنمایاں طورپر لکھا ہے کہ زکوۃ و فطرانہ پراجیکٹ برائے پاکستان۔
جی ہاں ابھی تک اس ہیوی ویٹ دورے کے یہی دونتائج برآمدہوئے ہیں۔ فطرانہ پراجیکٹ پرسعودی عرب او رحکومت پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے نتیجہ میں 19 ہزار سے زائدچاول کی بوریاں پاکستان کے ”حصے ”میں آئی ہیں یادرہے کہ یہ ان افریقی ممالک کے ”حصے” میں سے کاٹ کرہمیں دی گئی ہیں جوقحط زدہ ہیں۔ ہمارے وزراء مشیران واپس آچکے ہیں وہ اس دورہ کی ”کامیابی ” پر وہ ”دھمال” شروع کرچکے ہونگے جس کی بنیاد 2014 میں ڈی چوک میں رکھی گئی تھی۔ وزیراعظم اوران کی کابینہ کا”دھمال” ڈالنے کاحق ہے۔ اس لیے وہ موج کریں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ”ریاست” نے جو بیج بویاتھا وہ کاٹنے کاوقت آگیاہے انہوں نے جیسی نیت کی تھی ویسی مراد مل رہی ہے۔ خان ان کے "اعتماد” پورا اتر رہے ہیں۔ اصولاً تو اسٹیبلشمنٹ کو اس پر خوش ہونا چاہئے تھا اس نے جو سوچا وہ پورا ہوگیا لیکن ہمیشہ کے "بے قرار” اسٹیبلشمنٹ مطمئن ہونے کی بجائے اس نے جس پرانے پاکستان کے ملبے کے ڈھیرپر نیاپاکستان کی بنیاد رکھی تھی۔ اب ان ”اینٹوں” کو”مقدس” سمجھ کران کو ایک جانب اکٹھا کرنے کاکام شروع کردیاہے۔ لگتاہے کہ جودس سالہ منصوبہ شروع کیاتھا وہ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ثابت ہواہے یا شائد ہماری "ریاست” خوابوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں آ چکی ہے کہ خان اب "نقدی” کی جگہ فطرانے کے چاول ہی اکٹھے کر سکتا ہے اس لیے اب پرانے پاکستان کی آصف علی زرداری اورشہبازشریف نامی ”قیمتی” اینٹوں کونمایاں جگہ چننے کاوقت آگیاہے کہ ان کے ”ماننے ” والے ان کے سائے میں اکٹھے ہوں اورایک بارپھر”تعمیرنو” کاآغاز کیاجائے لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ ہے جوہربارآڑے آجاتاہے وہ نوازشریف نامی بھاری پتھرہے جسے ”ریاست” کسی بھی طرح اس عمارت میں سجانے کوتیارنہیں وہ شہبازشریف نامی ”اینٹ” کوتومقدس قراردے کرقوم کویہ باور کرانے کے لیے تیارہے کہ اس مقدس اینٹ کی وجہ سے نئی عمارت کوگرنے کاخطرہ نہیں ہوگا اس لیے دھڑادھڑ اس کے سائے میں آجائیں اسی طرح کی زرداری نامی ”اینٹ”بھی اس عمارت کے خاص حصہ میں لازمی طورپرلگائی جائے گی اب مسئلہ یہ ہے کہ جوبیج 2011 میں بویاتھا اس کوفوری طورپرتلف کرنابھی مشکل دکھائی دیتاہے۔ اس لیے ”ریاست” کامخمصہ ہے کہ ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہاوہ دوقدم آگے بڑھاتی ہے توچارقدم پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ ریاست کے اس مخمصے کا خمیازہ وطن عزیز اوراس میں بسنے والے بائیس کروڑ عوام کو بھگتنا پڑرہاہے۔ ”ریاست”کویہ فیصلہ کرناہوگا کہ وہ اس بلکتی سسکتی عوام کوکب تک بھیک اوربھوک کے سپردکرے گی جوحکومت قحط زدگان کے حصے میں سے اپناحصہ وصول کرکے دھمالیں ڈالنے میں مصروف ہے اس سے بہتری کی امیدرکھنا بے وقوفی کے سواء کچھ نہیں۔ ”ریاست” کویہ بات تسلیم کرکے آئندہ کے لیے توبہ تائب ہوجاناچاہیے کانٹوں کی فصل پھول نہیں کھلاتی اور بدنیتی کے ملبے پرتعمیر ہونے والی عمارت مقدس قرارنہیں پاتی۔ اس لیے ریاست پاکستان کوبچانے اور اداروں کی عزت بحال کرنے کے لیے آپ کونیت ٹھیک کرناہوگی کیونکہ اب تو آپ بھی جان چکے "جیسی نیت ویسی مراد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔