ہمارا انصاف کا نظام طاقتور کو نہیں پکڑ سکتا،عمران خان
شیئر کریں
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا انصاف کا نظام طاقتور کو نہیں پکڑ سکتا،یہاں پر ایک مائنڈ سیٹ ہے کہ یہ صرف ایک چھوٹے سے طبقے کا پاکستان ہے ،ایلیٹ طبقے نے ملک کو ہر طرح اپنے قابو میں لیا ہوا ہے ،حکومتوں میں آنے کے بعد اربوں ، کھربوں پتی ہونے والے احتساب کے لئے تیا رنہیں کہ ہم قانون سے اوپر ہیں،پاکستان میں طاقتور کے لئے قانون نہیں ، پی ڈی ایم کے نام پر یونین بنی ہوئی ہے کہ ہمیں این آر او دیدو باقی عام لوگوں کو جیل میں ڈالنا ہے تو بیشک ڈال دو ،ہماری آج یہ جنگ ہے کہ طاقور کو قانون کے نیچے لانا ہے اور کمزور کو اوپر اٹھانے کے لئے ریاست مدینہ کی طرز پر ذمہ داری لینی ہے ،بد قسمتی سے یہاں جو لیڈرز شپ تھی ان کی چھٹیاں باہر گزرتی تھیں ، ان کے لندن میں پیلس اور دبئی میں محلات ہیں،پاکستان میںصرف سیاحت ایسا شعبہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنی برآمدات سے زیادہ پیسہ کما سکتے ہیںلیکن اس پر کبھی کسی نے توجہ نہیں دی ،زراعت پر پچاس سال کسی نے توجہ نہیں دی ، ہم پہلے معیشت کو استحکام دے رہے تھے، اب زراعت پر توجہ ہے ، میں خود اس میں لیڈ کر رہا ہوں، زراعت میں انقلاب آئے گا،کچی آبادیوںکے لئے ترکی اور ملائیشیاء کی طرز پر منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے رائیونڈ میںپنجاب پیری اربن کم لاگت ہائوسنگ اسکیم کے منصوبے کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس منصوبے کے تحت10 سے زیادہ سائٹس انتخاب کیا گیا ہے اورلاہور کے علاوہ باقی مقامات پر ورچوئل افتتاحی تقریبات منعقد کی گئیں۔وزیر اعظم عمران خان نے تقریب کے آغاز میں کہا کہ میں اپنی قوم کو تاکید کروں گا کہ ہر صورت ماسک پہنیں ،بھار ت میں ہسپتالوں کا جو حال ہے ، وہاںآکسیجن نہیں مل رہی لوگ کورونا کی وجہ سے سڑکوں پر مر رہے ہیں ،پہلے دو مراحل آئے لیکن دوسرے ممالک کی نسبت اللہ نے ہمارے اوپر بڑا کرام کیا ، اب ہم تیسرے خطرناک مرحلے میں ہے ،اگر حکومت کورونا سے نمٹنے کے لئے اپنی استعداد کو دو گنا نہ کرتی تو آج ہمارے بھی وہی حالات ہونے تھے جو بھارت میں نظر آرہے ہیں،اگلے دو ہفتے بہت اہم ہیں ،ہم نے کورونا کیسز کو نیچے لے کر آنا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہاں پر ایک مائنڈ سیٹ ہے کہ یہ صرف ایک چھوٹے سے طبقے کا پاکستان ہے ،یہ صرف ایلیٹ کا پاکستا ن ہے جس نے ملک کو ہر طرح اپنے قابو میں لیا ہوا ہے اس پر قبضہ کیا ہوا ہے ،تعلیم کا نظام ہے تو انگلش میڈیم ہے ،اچھی نوکریاں انگلش میڈیم کے لئے ہیں،اردو میڈیم کو کیسی تعلیم مل رہی ہے، دینی مدرسے میں پچیس لاکھ بچوں کو کیسی تعلیم مل رہی ہے ؟۔اگر میرا بچہ انگلش میڈیم میں پڑھتا ہے اور اسے اچھی نوکری مل جاتی ہے تو پھر مجھے کیا فکر ہے کہ باقی ملک میں کیا ہو رہا ہے ۔ جیلوں میں صرف غریب لوگ نظر آتے ہیں ، ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ہمارا انصاف کا نظام طاقتور ڈاکو کو نہیں پکڑ سکتا ، غریب جیلوں میں جاتے ہیں تو ان کے پاس مہنگے وکیل کرنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے اس لئے وہ جیلوں میں ہوے ہیں۔سرکاری ہسپتال میں بہترین علاج ہوتا تھا میں ، میری بہنوں او رمیری میو ہسپتال میں پید ائش ہوئی ، لیکن آہستہ آہستہ یہ ہوا کہ امیروں کے لئے پرائیویٹ ہسپتال بن گئے ،غریب سرکار ہسپتالوں میںجاتے تھے ، جو بہت زیاد امیر ہیں وہ باہر علاج سے کراتے ہیں،یہ ایک سوچ بن گئی ہے جس میں یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ غریب آدمی کیسے زندگی گزارے گا۔ اسی میں ہائوسنگ بھی آ گئی ، ہم نے لاہور کو آہستہ آہستہ کچی آبادیاں بنتے ہوئے دیکھا ، حالانکہ یہ وہ لاہور تھا جس کے عام نلکے کا پانی میٹھا ہوتا تھا اور سب پیتے تھے ،یہاں آلودگی نہیں ہوتی تھی ،آہستہ آہستہ یہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے پھیلتا گیا ، امیروں کے لئے ڈیفنس ، بحریہ اور اس جیسی اچھی لوکیشنز کے علاقے بن گئے ، کسی نے سوچا ہی نہیں کہ عام آدمی جو تنخواہ دار ہے وہ گھر کہاں سے بنائے گا ۔آج آدھا کراچی کچ آبادیاں ہیں وہاںنہ سیوریج کا نظام ہے نہ بجلی اور گس کے قانونی کنکشنز ہیںاور لوگ کنکشنز کے حصول کے لئے رشوت دیتے ہیں ۔لوگ گندگی میں رہتے ہیں بچوں کو بیماریاں لگ رہی ہیں۔کسی نے سوچا ہی نہیں جب یہ روزی کمانے کے لئے شہروں میں آئیں گے تو کہاں رہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ قبضہ گروپ آتے گئے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ عدالتوں میں زمینوں کے کیس پچاس ، پچاس سال حل نہیں ہوتے ، ٹرائیکا بن گیا جس میں سجج ،پولیس اور قبضہ گروپ مل گئے ۔ یہ لوگ کمزور لوگوں یا حکومت کی زمینوں پر قبضے کرتے رہے۔