میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
موت ہی اٹل حقیقت ہے

موت ہی اٹل حقیقت ہے

ویب ڈیسک
جمعه, ۷ مئی ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

امن سیٹھی

شمشان گھاٹ میں سیمنٹ سے بنے مقررہ چبوترے پر 36 لاشوں کو ترتیب سے رکھا ہوا تھا اور صبح دس بجے ان سب کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ اس کے بعد باقی تمام لاشوں کو کیچڑ سے اَٹے پارکنگ لاٹ میں لے جایا گیا اور ان سب کو بھی اجتماعی آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ بدھ کے روز غازی پور کے مشرق میں واقع شمشان گھاٹ میں مرنے والوں کے تابوت لانے والی ایمبو لینسز کی تعداد دو گنا ہو گئی تھی۔ پارکنگ لاٹ میں لاشیں رکھنے کے لیے کوئی مخصوص جگہ نہیں تھی؛ چنانچہ حفاظتی لباس پہنے ہسپتال ملازمین ہی لاشیں اٹھا اٹھا کر لے جا رہے تھے اور ان جگہوں پر رکھ رہے تھے جہاں پہلے دن جلائی جانے والی لاشوں کے نشان تھے۔ پارکنگ لاٹ کا ہندو پیشوا رام کرن مشرا تھا جو ماسک پہنے بغیر بے خوفی سے لاشوں کے درمیان گھوم رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’اگر میں بیمار ہو کر مر گیا تو سیدھا سورگ میں جائوں گا‘‘ پھر ہندو مت کی مذہبی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بولا ’’صرف موت ہی اٹل حقیقت ہے‘‘۔
یہاں یہ بات مشہور ہے کہ بھارتی حکومت آپ کی یاد کو اچھے طریقے سے منائے گی۔ دو مہینے پہلے بھارت کی حکمران جماعت کہہ رہی تھی کہ ’’بھارت نے اپنے قابل، وڑنری اور دانشمند وزیراعظم شری نریندر مودی کی قیادت میں کووڈ کو شکست دے دی ہے‘‘۔ جنوری میں ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا تھا کہ بھارت نے کورونا کی موثر طریقے سے روک تھام کرکے انسانیت کو بڑی تباہی سے بچا لیا ہے مگر آج کورونا کی دوسری مہلک لہر نے پورے بھارت کو تباہی سے دوچار کر رکھا ہے جہاں روزانہ لگ بھگ چار لاکھ نئے کورونا متاثرین سامنے آ رہے ہیں اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اکیس ہزار تین سو بھارتی شہری کووڈ کی نذر ہو چکے ہیں۔ نریندر مودی اور ان کی جماعت کووڈ سے متاثر ہونے والوں اور مرنے والوں کی تعداد کو گھٹا کر پیش کر رہی ہے تاکہ اس ا?فت کی شدت کو کم ہی دکھایا جائے۔
حکومت کے حامی وکیل تشر مہتا نے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’اب پورے بھارت میں کسی شہری کو آکسیجن کی قلت کا سامنا نہیں ہے‘‘۔ جبکہ اب تک آکسیجن اور ہسپتالوں میں بیڈز کی قلت کی وجہ سے بڑی تعداد میں بھارتی شہری موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ مرنے والوں میں ایک سابق سفیر بھی تھے‘ جو ایک نجی کلینک کے باہر طبی امداد کے انتظار میں اپنی کار میں ہی دم توڑ گئے تھے۔ بھارت کی سب سے گنجان آباد ریاست اتر پردیش کے وزیراعلیٰ نے اپنے حکام کو یہ ہدایت جاری کر رکھی ہے جو شخص بھی سوشل میڈیا پرگیس کی قلت کا پروپیگنڈا کرے اس کی ساری جائیداد ضبط کر لی جائے۔ اطلاعات کے مطابق شمالی بھارت کے شہر امیٹھی کی پولیس نے ایک شہری پر فوجداری دفعات کے تحت مقدمہ در ج کیا ہے جس نے اپنے بیمار دادا کے لیے ٹویٹر پر آکسیجن کے ایک سلنڈر کی اپیل کی تھی۔ بھارت نے ٹویٹر، فیس بک اور انسٹا گرام سے کہا ہے کہ وہ ایسی تمام پوسٹس کو ریموو کر دیں جن میں کووڈ کو ہینڈل کرنے کی آڑ میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
میرے تمام جاننے والوں میں سے ہر کسی نے اس وائرس کی وجہ سے اپنا کوئی پیارا کھویا ہے۔ کئی ایک تو ایسے بھی ہیں جو اپنی پور ی پوری فیملی سے محروم ہو گئے ہیں مگر جب آپ خود ایک لاک ڈائون کا شکار ہوں تو مرنے والے مردہ نہیں لگتے بلکہ یوں لگتا ہے کہ وہ نظروں سے دور ہو گئے ہیں۔
جب میرے والد نے مجھے بتایا کہ ان کے ایک چچا کووڈ کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں اور یہ کہ ان کی باقی فیملی بھی کووڈ کی وجہ سے بیمار ہے اور میرے والدکے ایک کزن اس وقت ا?ئی سی یو میں ہیں تو میرا جسم ٹھنڈا پڑنا شروع ہو گیا۔ اس رات ڈنر پر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’شاید میں ا?ج ڈرائیو کے لیے گھر سے باہر جائوں‘ مگرجب اگلی صبح اپنی کار میں بیٹھا اور بہت سے شمشان گھاٹوں کے قریب سے گزرا تو مجھے یوں لگا کہ شاید میں یہی کچھ محسوس کر نے کے لیے گھر سے نکلا ہوں۔ غازی پور کا شمشان گھاٹ اتنا چھوٹا ہے اور وہاں اتنی لاشیں پڑی ہیں کہ تمام چتائوں کو ایک لمحے میں نذرِ ا?تش کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ تمام لاشوں کو دن کے اوقات میں الگ الگ چتا پر رکھا جاتا ہے مگر شام کے بعد ایک ہی دفعہ تما م چتائوں کو ا?گ لگا دی جاتی ہے۔ جن جگہوں پر بجلی یا گیس کی مدد سے آگ لگائی جاتی ہے وہاں صبح سے را ت گئے تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
پنڈت مشرا نے مجھے بتایا کہ گزشتہ دس روز سے شمشان گھاٹ کا عملہ روزانہ چالیس سے پچاس لاشوں کو ٹھکانے لگا رہا ہے جبکہ شمشان گھا ٹ میں دو ٹینس کورٹس سے زیادہ جگہ دستیاب نہیں ہے۔ آگ کی حدت نے ان آموں کے پتے بھی جھلسا دیے ہیں جن کا رخ چتائوں کی طرف تھا۔ شمشان گھاٹ ایسی جگہ ہے جہاں صرف مرد ہی موجود ہوتے ہیں۔ بہت سے ہندو یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ والدین کی چتا کو صرف بیٹا ہی آگ لگا سکتا ہے۔ غازی پو رکے کئی نوجوانوں نے اپنا غم بھلا کر خود کو کئی گروپوں میں تقسیم کر لیا ہے اور بہت سے کام اور ذمہ داریاں اپنے سر پر لے لی ہیں۔ ایک گروپ قطار بنا لیتا ہے تاکہ اپنے پیاروں کی لاشیں رجسٹر کرنے میں ہاتھ بٹا سکے۔ ایک گروپ شیڈ کی طر ف بھاگتا ہے تاکہ لکڑیاں ختم ہونے سے پہلے پہلے چتا کو جلانے کے لیے اپنے حصے کی لکڑیاں لے سکے۔ تیسرا گروپ لا ش لے کر بھاگتا ہے تاکہ شمشان گھا ٹ میں آگ لگانے کے لیے پہلے سے جگہ ریزرو کرا سکیں۔ کووڈ کی اس لہر کے دوران ادویات، آکسیجن، وینٹی لیٹرز اور ہسپتال بیڈز کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے۔ جو حکومت کی ضروری سپلائیز کو بحال کرنے میں مکمل ناکامی ہے۔
جب مس پرکاش نے شمشان گھاٹ میں قطار در قطار چتائوں کو دیکھا تو بولیں ’’یہ تو ان فلموں کی طرح کا منظر ہے جن میں دنیا پر حملہ ہو جاتا ہے اور چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوں۔ آپ سپر ہیرو کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ آئے اور سب کو بچائے مگر کووڈ کے معاملے میں کوئی سپر ہیرو نہیں ہے‘‘۔ سپر ہیرو کے بجائے اس طرح کے معاملات میں مسٹر مہتا جیسے لوگ ہوتے ہیں جو ایک سرکاری وکیل ہیں اور انہوں نے دہلی انتظامیہ کی اس شکایت کہ مودی حکومت شہرکو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں فراہم کر رہی‘ کے جواب میں عدالت میں کہا ’’کوشش کر کے دیکھ لیتے ہیں‘ بچوں کی طرح رونا تو نہ ڈالیں‘‘۔
ایک نجی ہسپتال کے مردہ خانے کے اسسٹنٹ بکی نے مجھے ایک اور ہی طرح کے جنازے کے بارے میں بتایا تھا ’’وٹس ایپ جنازہ‘‘ اس نے اپنا پورا نام نہیں بتایا کیونکہ اسے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب بھی کووڈ کا مریض آئی سی یو میں اپنے آخری سانس لیتا ہے تو مسٹر بکی اس کی لاش گھسیٹ کر مردہ خانے لے جاتا ہے۔ اسے وہاں لے جا کر ایک خاص شیٹ میں لپیٹتا ہے پھر اسے ایک پلاسٹک شیٹ میں ڈالتا ہے آخر میں اس پر سفید شیٹ چڑھاتا ہے اور اس کے اوپر مارکر سے لکھتا ہے کہ اس کی موت کووڈ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ وہ احتیاط کے طور پر ہر چیز کو سفید سرجیکل ٹیپ سے محفوظ کرتا ہے۔ بکی نے مجھے بتایا ’’جیسے ہی کسی لاش کے لواحقین ا?تے ہیں تو ہم تیزی سے اس کا منہ ننگا کرتے ہیں تاکہ وہ چہرہ دیکھ کر اس کی شناخت کر سکیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ فیملی ممبر باہر ہی کھڑا رہتا ہے یا کووڈ آئسولیشن میں رہتا ہے۔ ہم وٹس ایپ پر اسے وڈیو کال کرتے ہیں اور اسے لاش کا چہرہ دکھا دیتے ہیں‘‘۔ پھر بکی کی ٹیم تابوت کو ایک ایمبولینس میں ڈال کر شمشان گھا ٹ تک چھوڑنے جاتی ہے۔بکی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ میری ملاقات سرائے کالے خان کے شمشان گھا ٹ پر ہوئی تھی۔ جب ہم باتیں کر رہے تھے تو مزدور شمشان گھاٹ کی دیوار کے پاس ہی سیمنٹ اور اینٹوں سے مزید پلیٹ فارم بنا رہے تھے۔ بکی نے بتایا ’’ہم ایک وقت میں صرف دس لاشیں ہی شمشان گھاٹ کے اندر لے جا سکتے ہیں۔ یہ لوگ مزید پچاس لاشوں کے لیے جگہ بنا رہے ہیں‘‘۔ میں نے اپنے سامنے پڑی تیس لاشیں گنی تھیں۔ بکی نے بتایا کہ ابھی بیس لاشیں پیچھے پڑی ہیں۔ بکی کے ایک اٹینڈنٹ نے بتایا کہ پچھلے کئی دنوں سے وہ خواب میں مرنے والوں کے چہرے دیکھ رہا ہے۔ ’’میں ان کے چہرے سے مخصوص کپڑا اتارکر ان کا چہرہ دیکھتا ہوں۔ میں ان کے نام تو بھول جاتا ہوں مگر ان کے چہرے پہچان لیتا ہوں‘‘۔
ایک مہینہ پہلے مجھے نچلے فلور پر ایک اپارٹمنٹ میں بلایا گیا تھا، میرا ہمسایہ جو ایئر فور س کا ایک ریٹائرڈ افسر ہے‘ گھر پر بیمار پڑا تھا۔ اسے سخت بخار تھا۔ اس کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا تھا مگر اب وہ بے ہوش تھا۔ ہم نے ایک آکسیجن سلنڈر کی مدد سے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ اس کے بڑے بھائی نے اس کا فون کیمرہ سلنڈر کی طرف کیا وہ وٹس ایپ پر کسی کو سلنڈر دکھا رہا تھا تا کہ وہ اسے بتادے کہ سلنڈر کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ اس کی بیوی سخت صدمے میں تھی‘ اس نے شوہر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا: کچھ تو بولیں۔ پہلے آہستہ آہستہ اور پھر ایک دم ان کا آکسیجن لیول نیچے گر گیا۔ جلد ہی ایمبولینس آ گئی۔ ہسپتال پہنچتے ہی انہیں مردہ اور کورونا پازیٹو قرار دے دیا گیا۔ اس کے بچے‘ جو بیرونِ ملک تھے فوراً پہنچ گئے تھے مگر دو ہفتے تک اپنی والدہ سے نہ مل سکے کیونکہ وہ بھی کورونا پازیٹو تھی۔ میں نے زوم پر ان کی دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ ایک ہفتے بعد میں نے اپنا کووڈ ٹیسٹ کرانے کی کوشش کی مگر نہ کرا سکا کیونکہ تمام لیبارٹریز پہلے ہی سیمپلز سے بھری پڑی تھیں۔ میں ایک ہفتے کے لیے آئسولیٹ ہو گیا پھر ایک ہفتہ مزید مگر کوئی علامت ظاہر نہ ہوئی۔ میرے ڈاکٹر نے قرنطینہ جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور علامات ظاہر ہونے کے لیے انتظار کرنے کا کہا۔ میں جب بھی اس ہمسائے کے دروازے کے پاس سے گزرتا ہوں تو اس کا چہرہ میری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔
میں تین بجے غازی پور پہنچ گیا مگر زیادہ تر چتائوں کو آگ لگائی جا چکی تھی۔لکڑیا ں جمع تھیں سوگواروں نے لکڑیوں کے بنے ایک سٹریچر پر لاش کو رکھا۔ پھر پرندوں کی طرح جگہ جگہ سے گھاس پھوس اکٹھی کی اور چتا کے اوپر ڈالتے رہے۔ اس سارے عمل میں بیس منٹ لگے۔ مس پرکاش فون پر رشتے داروں سے بات کر رہی تھیں کہ شاید کوئی مدد کے لیے آ جائے۔ ان کا ایک قریبی عزیز راستے میں تھا۔ مس پرکاش نے بتایا کہ وہ پچھلے بیس سال سے ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں اس لیے انہیں بھی ابو کی موت کا اتنا ہی صدمہ ہے جتنا ہمیں ہے۔ قریبی عزیز کے آتے ہی کام میں تیزی آ گئی۔اب چتا تیار تھی۔ شام کے پانچ بجنے والے تھے اور پارکنگ لاٹ ایک گنجان آبادگائوں لگ رہی تھی۔ پنڈت مشرا چتائوں میں سے گزرتے ہوئے آ رہے تھے اور مرنے والوں کے لیے دعائیہ کلمات کا ورد بھی کر رہے تھے۔ قریب بیٹھی ایک عورت زور زور سے رونے لگی اور پھر لکڑی کے ایک تابوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ’’میرے ماں باپ بھی باہر انتظارکر رہے ہیں۔ یہ میرا شوہر ہے۔ یہ میرا شوہر ہے‘‘۔ پہلے ایک چتا کو آگ لگائی گئی‘ پھر دوسری کو‘
پھر تیسری کو۔ آہستہ آہستہ دعائیہ کلمات کی آوازیں مدھم پڑتی گئیں اور آگ کے شعلے بلند ہوتے گئے۔ مجھے اپنے وہ عزیز واقارب اور دوست یاد آ رہے تھے جو گزشتہ سال ہم سے جدا ہو گئے تھے اور ہم آخری رسومات میں شرکت نہیں کر سکے تھے۔ مس پرکاش اپنے والد کی چتا کے پاس کھڑی تھیں، شاید وہ کسی وٹس ایپ گروپ کے ساتھ فون پر بات کر رہی تھیں۔ قریب کھڑے ایک شخص نے لکڑیوں کے ایک ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ’’یہ میر ی ماں ہے۔ اسے کورونا نہیں تھا مگر افسوس کہ اسے بھی ان لوگوں کے درمیان ہی جلانا پڑ رہا ہے‘‘۔ اس نے شکایت کی کہ اگر آپ برا نہ منائیں تو میڈیا ایسے دکھا رہا ہے جیسے ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہوں۔ اس کا مقصد صرف حکومت کو بدنام کرنا ہے‘‘۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہم اس پارکنگ لاٹ میں نہیں ہیں جہاں پچاس لاشیں رکھی ہوئی ہیں؟ اس نے کہا ’’ہاں! مگر میڈیا کو یہ کہنا چاہئے کہ پورے دن میں ایک ہی مرتبہ یہاں پچاس لاشوں کو جلایا جاتا ہے تاکہ عوام تک درست تاثر جائے‘‘۔ اسی دوران پنڈت مشرا بتاتا ہے ’’سب یاد رکھیں کہ کل صبح اٹھ بجے راکھ لینے کے لیے آنا ہے کیونکہ ہم نے کل کی لاشوں کے لیے جگہ خالی کرنی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں