میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹرمپ کی صدارت کا آغاز

ٹرمپ کی صدارت کا آغاز

منتظم
هفته, ۲۱ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

دنیا بھر میں غیر یقینی کا ماحول،تائیوان مسئلے پر تنازع بڑھنے کاخدشہ
ایچ اے نقوی
بالآخر ڈونلڈٹرمپ نے امریکا کے صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کاحلف اٹھا لیا اور اس طرح اب امریکا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیاہے، ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک غیر یقینی کی فضا پائی جاتی ہے ،اور دنیا کا کوئی بھی رہنما یہاں تک کہ امریکا کے قریبی اور دیرینہ اتحادی بھی یہ پیشگوئی کرنے سے قاصر ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی زیرصدارت امریکی خارجہ پالیسی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، امریکا کے کتنے دیرینہ اتحادی امریکی اتحادی کی حیثیت سے اپنی حیثیت برقرار رکھ سکیں گے اور کتنے اتحادیوں کانام حلیفوں کی صف سے نکل کر حریفوں میں آجائے گا۔
نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف برداری کی پروقار اور رنگارنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر امریکا کو متحد اور ایک عظیم ملک بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اپنے دور صدارت میں امریکا کو متوقع طورپر درپیش چیلنجوں کے ساتھ ہی ورثے میں ملنے والے بعض مسائل کا بھی ذکر کیا لیکن چین اور روس کے بارے میں اپنی مستقبل کی پالیسی کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی،جبکہ اس وقت پوری دنیا چین کے ساتھ امریکا کے مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہے ،اور خود چین کی قیادت بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی متوقع سرکش خارجہ پالیسی کی حرارت محسوس کر رہی ہے۔ یہ تشویش اور چینی قیادت میں پائی جانے والی بے چینی بلاوجہ نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل ہی بطور منتخب صدر، عالمی رہنماﺅں کو کی جانے والی ٹیلی فون کالز میں سے ایک تائیوان کے صدر کو بھی کی تھی۔ جبکہ گزشتہ تمام سابقہ امریکی حکومتیں، چاہے وہ ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس، 1979 سے ’ون چائنا‘ کی پالیسی پر قائم رہی ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کئی تلخیوں کے باوجود بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کافی مضبوط ہوئے ہیں۔
اس کے برعکس اب ڈونلڈٹرمپ کے تائیوان کی جانب پرتپاک رویوں اور اشاروں سے ایک بار پھر ’ٹو چائناز’ کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ بات بیجنگ کے لیے بھی شدید غصے کا باعث بنی ہے اور اس کے یقینی طور پر زبردست علاقائی اور عالمی اثرات مرتب ہوں گے۔ چین نے منتخب صدر پر آگ سے کھیلنے کا الزام عائد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بیجنگ کے پاس پھر اپنی طاقت دکھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچے گا۔
دوسری جانب ڈونلڈٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ چین انھیں بتائے کہ کیا کرنا ہے۔ ”مجھے نہیں معلوم کہ کیوں ہم ون چائنا پالیسی کے پابند رہیں۔“چین کے سرکاری میڈیا نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں خارجہ امور کی بابت ”انکساری سیکھنے کی ضرورت ہے۔“گزشتہ دنوں ٹرمپ نے فاکس نیوز سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر چین، امریکا کو تجارت سمیت دیگر امور میں رعایت نہیں دیتا تو وہ نہیں سمجھتے کہ ”ون چائنا پالیسی کو جاری رکھا جانا چاہیے۔“اس پر پیر کو ایک چینی اخبار گلوبل ٹائمز میں شائع ایک تبصرے میں نو منتخب امریکی صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ ٹرمپ کی طرف سے اس پالیسی کو اقتصادی مذاکرات کے لیے استعمال کرنے کی سوچ ”ناپختگی“ کو ظاہر کرتی ہے۔
”ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ جب تک ان کے پاس قوت ہے وہ ہر چیز کی قیمت لگا سکتے ہیں اور خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔ اگر امریکی آئین کی قیمت لگا دی جائے تو کیا امریکی عوام اپنے ملک کے آئین کو بیچیں گے اور سعودی عرب یا سنگاپور کا سیاسی نظام نافذ کر لیں گے؟“
تبصرے میں مزید کہا گیا کہ اگر ٹرمپ تائیوان کی آزادی یا اسلحے کی فروخت کی حمایت کرتے ہیں تو پھر چین ”بین الاقوامی امور میں واشنگٹن کے ساتھ شراکت داری کا جواز نہیں رکھتا“، اور پھر چین امریکا کے مخالفین کے لیے فوجی اور دیگر امداد کی پیشکش کر سکتا ہے۔
اپنے انٹرویو میںڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ تائیوان کی صدر سائی انگ ون کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک گفتگو کا دفاع کیا جو کہ 1979ءکے بعد سے کسی بھی امریکی صدر یا نو منتخب صدر کا تائیوانی رہنما سے پہلا رابطہ تھا۔ امریکا بھی تائیوان کو چین کا حصہ تسلیم کرتا آیا ہے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ چین انھیں بتائے کہ کیا کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کیوں ہم ون چائنا پالیسی کے پابند رہیں جب تک کہ ہم چین کے ساتھ تجارت سمیت دیگر چیزوں پر ڈیل نہیں کرتے۔ٹرمپ نے چین کی طرف سے اپنی کرنسی کی پالیسی، بحیرہ جنوبی چین میں عسکری تعمیرات اور شمالی کوریا پر جوہری تجربات کی بنا پر عائد پابندیوں میں رکاوٹ ڈالنے پر تنقید کی۔
ابھی ڈونلڈ ٹرمپ اور تائیوان کے صدر کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت پر ہی بحث جاری تھی کہ ایک او ر خبر نے جلتی پر مزید تیل ڈالنے کا کام کیاہے۔یہ خبر کسی اور نے نہیں بلکہ خود بھارتی میڈیا نے جاری کی ہے، بھارتی اخبار بزنس اسٹینڈرڈ نے انکشاف کیا ہے کہ بحیرہ عرب میں چینی آبدوزوں کی جاسوسی کے لیے بھارت اور امریکا ایک ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔پاکستان کے انگریزی روزنامے کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی اخباربزنس اسٹینڈرڈ لکھتا ہے کہ ایڈمرل ہیرس نے پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بھارتی اور امریکی نیوی افواج ساتھ مل کر بحیرہ ہند میں چینی بحریہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔آبدوزوں کا سراغ لگانے میں بھارتی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے واشنگٹن کی جانب سے بوئنگ پی 81 نامی ملٹی مشن میری ٹائم ایئرکرافٹ کی فروخت کو کلیئر کیا گیا۔یاد رہے کہ بوئنگ پی 81 آبدوز تلاش کرنے والا دنیا کا سب سے بہترین ایئرکرافٹ ہے۔بھارتی اخبار کے مطابق ایڈمرل کی جانب سے اعتراف کیا گیا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر اس کی سراغ رسانی کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے کام کررہے ہیں، ان کا کہنا تھا ’میں یہ نہیں کہنا چاہتا تھا کہ بہت زیادہ لیکن بحر ہند میں چینی میری ٹائم کی نقل و حرکت کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ کیا جارہا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے بحر ہند میں چینی آبدوز کی موجودگی کو ایک واضح مسئلہ قرار دیا۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ آبدوز کے خلاف کارروائیاں مالابار میں ہونے والی مشقوں کا حصہ ہیں جس میں ہر سال امریکا، بھارت اور جاپان حصہ لیتے ہیں۔نئی دہلی میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈمرل ہیرس کا کہنا تھا کہ ان مشقوں کی مدد سے آبدوزوں، کشتیوں اور ان جیسی دیگر چیزوں کو ٹریک کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔امریکی پیسیفک کمانڈ (یو ایس پی اے سی او ایم) کے سربراہ کے مطابق اس وقت کوئی چیز چین کو اپنا کیرئیر طیارہ بحر ہند میں داخل کرنے سے نہیں روک سکتی۔اخبار کے مطابق چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور جارحیت امریکا اور بھارتی نیوی کو ساتھ کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔اخبار کا مزید کہنا تھا کہ ہوائی میں اپنے ہیڈ کوارٹرز سے کام کرنے والے امریکی ملٹری فور اسٹار ایڈمرل چین کے واحد ایئرکرافٹ کیریئر لیاو¿ننگ کو صلاحیتوں کے لحاظ سے امریکی کیریئر سے کم قرار دیتے ہیں جبکہ ان کے خیال سے بھارتی نیوی چین کے کیرئیر ڈیک سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
اوباما جاتے جاتے بھی 200لاشیں چھوڑ گئے
عہدہ¿ صدارت چھوڑنے سے قبل سابق امریکی صدر اوباما نے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر دو بڑی کارروائیوں کا حکم دیا ۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری شروع ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے ایک بی 52 بمبار نے شام میں القاعدہ کے ایک تربیتی مرکز پر حملہ کر کے ایک سو سے زیادہ افراد کو ہلاک کر دیا۔ایک دفاعی عہدے دار نے مارے جانے والوں کو ’مرکزی‘ ارکان قرار دیا جو پچھلے سال وہاں اپنے قدم جمانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔اس سے قبل پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کک کے مطابق بی 2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں اور ڈرونز نے لیبیا میں دو فوجی کیمپوں پر حملہ کر کے 90 جنگجوو¿ں کو ہلاک کر دیا۔
اوباماکیئرپروگرام پہلا نشانہ،امریکیوں کا احتجاج جاری
ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھال چکے ہیں ،جس کے خلاف امریکی ریاستوں میں ان کے مخالفین کی جانب سے جاری احتجاج کا سلسلہ بھی شدت پکڑتا جارہا ہے۔احتجاج کرنے والوں کے تیور سخت ہیں جس کے نتیجے میں مظاہرین نے کسی آئین و ضابطے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے امریکی پرچم بھی نذر ِ آتش کیا۔سیاہ لباس میں ملبوس، چہرے پر ماسک چڑھائے اور ہاتھوں میں ٹرمپ کی مخالفت میں مختلف بینر اٹھائے ان مظاہرین نے مزاحمت پر پولیس اہلکاروں کی جانب خالی بوتلیں اور پتھر برسائے تو پولیس کی جانب سے انہیں آنسو گیس کی شیلنگ کے ذریعے روکنے کی کوشش کی گئی۔کئی مشتعل مظاہرین نے واشنگٹن میں بینک آف امریکا کی برانچ اور ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کے شیشے بھی توڑ ڈالے، مشتعل افراد نے کالے رنگ کی لیموزین سمیت متعدد گاڑیوں کو آگ لگادی جس میں ٹرمپ کی تصاویر اور بینرز پر درج ان کے نعروں کو بھی جھونک دیا گیا۔مظاہرین نے وائٹ ہاو¿س سے کچھ فاصلے پر کچرے کے ڈبوں کو اکھٹا کرکے آگ لگادی گئی۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کی حیثیت سے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے سابق صدر کی جانب سے ہیلتھ کیئر کے سلسلے میں کی جانے والی اصلاحات کو ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرکے نشانہ بنایا ہے۔
ان کے اعلان میں ایجنسیوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اوباما کیئر نامی صحت کے منصوبے پر آنے والے مالی بوجھ کو کم کریں۔
انھوں نے اپنی حلف تقریر کے دوران امریکا کی تاریک اور شکستہ تصویر پیش کی اور متروک کارخانوں، جرائم اور ناکام تعلیمی نظام جیسے مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے عہد کیا کہ ان کے دورِ صدارت میں تبدیلی لائی جائے گی۔انھوں نے کہا ہم نے کھربوں ڈالر بیرونِ ملک خرچ کر دیے اور امریکا بنیادی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہوتا رہا۔ ہم نے دوسرے ممالک کو امیر بنا دیا اور ہمارے اپنے ملک کی دولت، طاقت اور اعتماد ختم ہوتا چلا گیا۔اس موقع پر انہوں نے اسلام پسندوں کو بھی للکارا اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی سنگین دھمکی دی۔
ٹرمپ کی تقریر اور حلف برداری سے قبل کیے جانے والے اقدامات پر عالمی برادری کی گہری نظر ہے اور انکے انداز و اطوار اور اقدامات کو جارحانہ اور دنیا کے لیے تباہ کن سمجھا جا رہا ہے ۔انکی پالیسیاں دنیا کوکافی اتھل پتھل کی طرف لے جاتی محسوس ہورہی ہیں ۔خاص طور پر انکا اپنے سخت حریف ملک چین کے بارے میں انداز فکر دنیا میں سخت کشیدگی پیدا کرنے جا رہا ہے جسکے مطابق انہوں نے چین کے بارے میں ”ون چائنا پالیسی“ کو ٹھوکر پر رکھتے ہوئے تائیوان کی صدر سے تعلقات بڑھانے کا آغاز کیا ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں