میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا

ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا

منتظم
جمعرات, ۱۹ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہونگے اس وقت بارک اوباما وائٹ ہاوس میںاپنی آخری رات گزار رہے ہونگے۔ اور وائٹ ہاوس کی انتظامیہ نئے آنے والے صدر ڈونلڈٹرمپ کے استقبال کی تیاریاں کر رہی ہوگی۔وائٹ ہاوس جو دنیا بھر کے اقتدار کا مرکز اور محور سمجھا جاتا ہے اس کے مکین کا زیادہ سے زیادہ عرصہ¿َ قیام آٹھ سال پر محیط ہوتا ہے ۔20 جنوری 2009 کو وائٹ ہاوس میں اقامت اختیار کرنے والے بارک اوباما 8 سال بعد 20 جنوری 2017 کی صبح اس طلسم خانہ سے روانہ ہو جائینگے اور امریکیوں کے احتجاج اور اس نعرے کے باوجود کہ ” ڈونلڈ ٹرمپ ہمارا صدر نہیں” ،ڈونلڈٹرمپ اس عمارت کے نئے مکین ہونگے اب یہ ڈونلڈ ٹرمپ پر ہے کہ وہ انتخابی ہیجانی کیفیت سے باہر آ کر اور حقیقت کی دنیا میں قدم رکھ کر اقدامات کرتے ہیں یا اپنے جذباتی انتخابی نعروں کو حقیقت کا رنگ دے کر دنیامیں امریکا کے خلاف موجود نفرت کو مزید بڑھاتے ہیں ۔
1888 سے تاحال امریکا کی ترقی کا راز وہاں کا ایک نظام ہے جس میں کسی بھی صورت میں انتخابی عمل متاثر نہیں ہوتا ہر لیپ کے سال (وہ سال جس میں فروری کا مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے)نومبر کے دوسرے منگل کو انتخابی دنگل سجتا ہے اور اس دنگل کا فاتح کم وبیش دو ماہ کے تربیتی عرصہ کے بعد اس محل کا مکین بن جاتا ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں صدر اوروائٹ ہاوس کے 42 ویں مکین ۔ڈونلڈٹرمپ کا انتخاب ،انتخابی عمل مکمل ہونے کے فوری بعد ہی متنازع ہو گیا تھا اور تاریخ میں پہلی بار امریکی عوام انتخابی نتائج کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے اور عوام کا یہ رد عمل کچھ ایسا غیر متوقع نہیں تھا کہ انتخابات سے قبل ہونے والے تمام سروے اور رائے عامہ کے جائزے ہیلری کلنٹن کو فاتح قرار دے رہے تھے اور اس ریس میں درمیانی فاصلہ بھی بہت تھا جس کا ثبوت ہیلری کلنٹن کو ملنے والے پاپولر ووٹ ہیں جس میںہیلری کلنٹن کی سبقت 25 لاکھ ووٹ سے زائد ہے لیکن مسئلہ فیثا غورث کی طرح الجھے ہوئے امریکی نظامِ انتخاب نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب قرار دے دیا ۔عوام اس وقت باہر نکلے جب ابھی ہیلری نے انتخابی نتائج پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان تنائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا ۔ہیلری نے انتخابات کے تین چار دن بعد نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہارکیا لیکن قانونی چارہ جوئی سے گریز کیا کہ بحیثیت سینئر وکیل وہ امریکی عدالتی نظام کو جانتی ہے کہ پاپولر ووٹ کتنے بھی زیادہ ہوں الیکٹرول کالج ووٹ اصل اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ عوام نہیں الیکٹرول کالج ووٹ کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔
دنیا کے ہرملک کی طرح امریکی نظام انتخاب بھی خامیوں سے مبرا نہیں جس کا ثبوت گزشتہ انتخابات کے نتائج ہیں،جہاں چند بڑی ریاستوں کی اجارہ داری قائم ہے اور چھوٹی ریاستیں عمومی طور پر محروم ہی رہتی ہے ۔اب اس نظام کو جو زیادہ بہتر سمجھ کر انتخابی مہم چلاتا اور گوری آبادی کی اکثریتی ریاستوں کے عوامی مزاج کو جانتے ہوئے جذبات کو ابھارتا ہے وہی کامیاب رہتا ہے۔2000 میں جارج بش جونیئر بھی اسی حکمت عملی کے مطابق کامیابی سمیٹنے میں کامیاب رہے تھے۔ جارج بش جونیئر کے مخالف الگور نے قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیا تھا اور امریکی سپریم کورٹ نے تسلیم بھی کیا تھا کہ الگور کے پاپولر ووٹ جارج بش جونیئر سے زائد ہیں لیکن کامیاب اور صدارت کے حق دار جارج بش جونیئر ہی ہیں ۔
انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں موجود تلخی اور سیاہ فام اور غیر ملکی تارکین وطن سے نفرت کے اظہار میں کمی کی ہے اور بھارتی نژاد خاتون کو اپنا معاون خصوصی بنا کر تارکین وطن کو قبول کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن یہ اظہار ابھی قابل قبول نہیں کہ یہ امریکی بالا دستی کو برقرار رکھنے اور اس میں مزید توسیع کرنے میں بھارتی تعاون کی ضرورت کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے ۔
8 نومبر کو ہونے والے انتخابات کے بعد تیسری دنیا کی طرح تقریباً پورے امریکا میں انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جو کم وبیش ایک مہینے جاری رہا اور اس کا زور اس وقت ٹوٹا جب ڈونلڈ ٹرمپ کی حریف ہیلری کلنٹن نے تمام تر تحفظات کے باوجود ” بہترین امریکی مفاد میں ” انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا اور ہیلری کلنٹن بھی تیسری دنیا کے سیاستدانوں کی طرح بہت دور کی کوڑی لائیں کہ ان کی شکست میں روس کے خفیہ اداروں کا ہاتھ ہے ۔اب اگر کوئی بھی سوال کرے کہ کیا شکست خوردہ اور بحالی کے لیے کوشاں روس کے خفیہ ادارے اسقدر مضبوط اور منظم ہیں کہ امریکا میں موجود 5 لاکھ سے زائد الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں اوراپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکیںلیکن یہ الزام بلاجواز نہیں ہے، اس الزام کے پیچھے پورا ایک مقصد پوشیدہ ہے اور وہ مقصد ہے چین، روس، پاکستان اور ترکی کے درمیان جاری معاملات کو سبوتاژ کرناہے۔چین ،پاکستان ، روس اور ترکی کا یہ ممکنہ اتحاد مستقبل میں اس خطے میں امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور امریکا اپنے مفادات کے لیے اس خطے میں بھارت کو تھانے دار کا کردار دینا چاہتا ہے جس کے لیے امریکا میں موجود بھارتیوں کو نوازنا بھی ضروری ہے۔
گزشتہ دنوں ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ اس کے مستقبل کے عزائم کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے جس میں اس نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی قرارداد پر اظہار تشویش کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلی دی تھی کہ اس کے اقتدار کا دور آنے دو، ایسی قراردادوں کو ویٹو کرنا کوئی مسئلہ نہ ہو گا ۔یوں ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں جاری بدامنی کو مزید طول دینے کا عندیہ دے دیا ہے ۔
مشرق وسطیٰ میں جاری خاک وخون کا کھیل در اصل بڑی طاقتوں کے مفادات کا کھیل ہے جس میں اس علاقے کے معدنی وسائل سے علاقے کے لوگوں کو محروم رکھ کر اپنے مفادات کا حصول شرط ہے۔ اسی طرح اس خطے میں جاری بد امنی روس کو ترکی کے ذریعے یورپ سے ملانے کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کا بھی مقصد کارفرما ہے اگر چین، روس، پاکستان اور ترکی کا یہ ممکنہ اتحاد اپنے منطقی نتائج تک پہنچ جاتا ہے اور بعدازاں اس میں افغانستان اور ایران بھی شامل ہو جاتے ہیں تودنیا کا منظر نامہ بدل جائے گا۔ امریکا طویل منصوبہ بندی اور خون ریزی کے بعدجو یک قطبی دنیا تشکیل دینے میں کامیاب ہوا ہے جس کے نتیجہ میں اب وہ پوری دنیا پر پوشیدہ نہیں بلکہ کھلی حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے تو اس کا یہ خواب اس اتحاد کے نتیجہ میں چکنا چور ہو سکتا ہے۔ امریکا اپنے اس خواب کو بچانے کے لیے اسرائیل کو استعمال کر رہا ہے کہ اس طرح اس خطے میں بدامنی کا راج رہے اور ترکی ملت اسلامیہ کی نشاة ثانیہ کے جس منصوبے پر عمل کر رہا ہے اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر کے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا جائے۔ اگرچہ مسلمان اس وقت باہم ہی دست گریباں ہیں لیکن ترکی کے طیب اردگان جس انداز میں امت کے اتحاد کی کاوش کر رہے ہیں اس کو کھوٹا کرنے کے لیے اس علاقہ میں کثیر الجہتی منصوبہ بندی کے تحت ایک طرف اسرائیل کی پشت پناہی میں اضافہ ہوا ہے دوسری طرف کردوں کو آمادہ بغاوت کیا جارہا ہے اور انہیں مسلح کر کے ترکی، عراق اور ایران کے مابین ایک نیا فقہی تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کردوں کی اکثریت فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتی ہے جبکہ عراق اور ترکی کی عوامی اکثریت فقہ شافعی اور حنبلی سے تعلق رکھتی ہے ۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کا دور بھی خون ریزہی نظر آتا ہے کہ صدر اور پارٹی کے بدل جانے سے امریکی پالیسیاں نہیں بدلتیں۔ تیسری دنیا میں پالیسی ساز بدنام ہو جاتے ہیں اور منظر عام پر بھی لائے جاتے ہیں لیکن امریکا میں انتخابی نتائج پراثرانداز ہونے سے لیکر پالیسی سازی میں ملوث عناصر پردہ راز ہی میں رہتے ہیں ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں