میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شہر کی سرکاری اراضی کو ٹھکانے لگانے لینڈ گریبرز بے لگام

شہر کی سرکاری اراضی کو ٹھکانے لگانے لینڈ گریبرز بے لگام

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۵ مارچ ۲۰۲۱

شیئر کریں

شہر بھر میں لینڈ گریبرز بے لگام سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کے احکامات و فیصلوں کے برخلاف شہر بھر کی سرکاری اراضی کو ٹھکانے لگانے کا منافع بخش کاروبار دھڑلے سے جاری، کل کے کئی کنگلے آج کے بلڈرز و ڈیولپرز کا لیبل لگائے شرفاء کا تاج سجائے شہر بھر میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ملیر ویسٹ سینٹرل لینڈ گریبرز کا نشانہ اور خاص حدف ہے، لینڈ مافیا کی جارحانہ کارروائیوں کے پس منظر میں کھڑے قابل ذکر ادارے بورڈ آف ریونیو کی ’’سرکاری اراضی ادارہ ترقیات کراچی کی سرکاری اراضی‘‘ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی ادارے اور انکی کرپٹ و راشی بے لگام مافیا نے ان اداروں کی تاحال کئی سو ارب، کھربوں کی زمین اونے پونے ٹھکانے لگا دی اور اس میدان کار زار کے بڑے کھلاڑیوں اور جماعتوں میں قابل ذکر سندھ کی حکمراں جماعت اور اسکی سابق اتحادی و دیگر جماعتوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے اور تاحال سرکاری اراضی کی بندر بانٹ کا گورکھ دھندا دھڑلے سے جاری ہے۔ انتہائی حیرت انگیز اور تشویشناک بات یہ ہے کہ تاحال کسی بھی لینڈ گریبنگ کے ڈان اور اسکے پس پشت سیاسی بادشاہ و بازی گر کو کوئی معمولی نوعیت کی سزا تک نہیں دی جاسکی، جو اس دھندے کی پیچھے موجود طاقتور سسٹم مافیا کو بے نقاب کرتی ہے،ادارے بھر میں قبضہ مافیا اور لینڈ سے متعلقہ محکموں کی کالی بھیڑوں کے خلاف سخت عملی کارروائی کی اشد ضرورت ہے، جس میں فوری طور پر سخت ترین قانون سازی اور اس پر عملدرآمد وقت کی ضرورت ہے۔ ڈسٹرکٹ ملیر ڈسٹرکٹ ویسٹ اور ڈسٹرکٹ سینٹرل سے فوری طور پر قبضہ مافیا سرپرستوں اور انکے سہولت کاروں کے خلاف فوری طور سخت ترین کارروائی کا آغاز ہونا چاہیے اور کارروائی کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اسے شہر بھر میں پھیلانا چاہے۔ اس حوالے سے یاد رہے کہ جب تک بے رحم احتساب نہیں کیا جاتا،اس وقت تک سرکاری و ملکیتی زمینوں پر قبضے کے معامالات پر قابو پانا ممکن نہیں۔ واضح رہے کہ زمینوں کے معاملے پر ملک بھر میں کشت و خون سب کے علم میں ہے، زمینوں کا نظام مکمل شفاف اور کمپیوٹرائزڈ ہواور اس پر براجمان کئے جانے والے لوگ ایماندار ہوں اور انکا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، زمینوں پر قبضہ کاغذات میں ہیر پھیر ردوبدل کیساتھ ندی نالوں پر قائم تجاوازت کو مسمار ،توڑنا، گرانا مشکل ہے، کیونکہ کراچی کے 50/60 فیصد علاقے کے چھوٹے بڑے نالے کاغذوں،نقشوں میں تو موجود ہیں، مگر زمینی حقائق کے مطابق ان نالوں آج بنگلے عمارتیں تجاوزات قائم ہوچکیں ہیں جہاں کارروائیاں جاری ہیں وہاں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ تجاوزات مافیا اور انکے سیاسی سرپرستوں کو بھی کٹہرے میں لانا وقت کا تقاضا اور ضرورت بن گیا ہے۔ ادھر شہر بھر میں میں دی جانی والی لیزوں سے متعلق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے اپنے ریمارکس اور رولنگ میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کے ایم سی سمیت دیگر متعلقہ اداروں نے نالوں سمیت دیگر جگہوں پر لیز کیسے دی دی سمجھ سے باہر ہے، غیرقانونی کام کو لیز دینا بھی غیرقانونی عمل قرار دیا تھا، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے جاری سماعت کے دوران ادھر اگر کسی بھی ایماندار افسر ،افسران سے شفاف تحقیقات کرائی جائے تو ہوشرباء حقائق منظر عام پر آنے کیساتھ سب پر سب کچھ واضح یوجائیگا کہ ندی نالوں پر تعمیرات کیسے ہوئیں، کس نے لیزیں دیں، کس نے کتنا مال کمایااور شہریوں کو مشکلات میں دھکییلا، نالوں کی صفائی کے ساتھ کرپٹ مافیا اور نااہل انتظامیہ مال کمانے والوں کی قانونی گرفت اور صفائی بھی بے از حد ضروری ہے۔ کراچی بھر میں جس نے بھی سرکاری اراضی کو ٹھکانے لگایا وہ اور متعلقہ محکموں کو بھی تحقیقات کے عمل سے گزارنا ہوگا، محکموں اور افسران و اہلکاروں کی ملی بگھت اور قبضہ مافیا کیساتھ اشتراک سے جعلی فائلیں بنانے والوں اور زمین کے کھاتوں میں ردوبدل کرکے مال کمانے والوں اور ندی نالوں پر تعمیرات کرا کر رشوت لینے والوں اور جنھوں نے انیس شہر کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کیا، ان سب کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔ گزشتہ بارشوں میں جو تباہی ہوئی ہے اس کے واضح ثبوت تو یہ ہیں کے اس کے ذمہ دار سرکاری محکموں کے کرپٹ افسران ہیں،کیونکہ انکی ملی بگھت سے شہر میں ندی نالوں پر ناجائز تعمیرات ہوئیں، مذکورہ افسران نے اپنے حاصل شدہ ریاستی عہدے فرائض منصبی اور اختیارات کا یکسر غلط و ناجائز استعمال کرتے ہوئے اسے مال بناؤ پالیسی میں تبدیل کردیا تھا، جس کا خمیازہ پورے شہر اور شہریوں نے بھگتا۔قبضہ مافیا جعلی فائلیں بنانے والوں سرکاری زمینوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے مال کمانے والوں کی لسٹیں بناکر جب تک بے رحم احتساب نہیں کیا جاتا، اس وقت تک شہر قائد میں زمینوں کے کھاتوں میں ہیرپھیر لوگوں کی زمینوں پر قبضے کو روکنا کسی کے بس میں نہیں، اس کیلئے قانون کی بالادستی اور رٹ کا نفاذ کرنا ہوگا۔ مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر بلدیات سمیت تمام تحقیقاتی اداروں سے اٹھائے گئے حلف اور اپنے فرائض منصبی کے مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں