میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دنیا کی بڑھتی آبادی ....عالمی نظام خوراک کی کارکردگی غیر تسلی بخش،”اسمارٹ پالیسی “ ناگزیر

دنیا کی بڑھتی آبادی ....عالمی نظام خوراک کی کارکردگی غیر تسلی بخش،”اسمارٹ پالیسی “ ناگزیر

منتظم
منگل, ۱۷ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

2 ارب سے زیادہ افراد ’مائیکرو نیوٹریشن‘ کی کمی کا شکار ہیں،یہ کمی عالمی ترقی کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے
2011کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد خواتین اور بچوں کو ناکافی خوراک کا سامنا ہے
ابن عماد بن عزیز
عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) نے خبردارکیا ہے کہ 2030 تک انسانوں کی بلا تفریق ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیا کے موجودہ خوراک کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ڈیوس میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کی’عالمی خوراک کے مستقبل کی تشکیل‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ مستقبل میں عالمی خوراک کے تحفظ اور وسائل کی پیداوار کو درپیش خطرات کا منظرنامہ پیش کر رہی ہے۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ آبادی میں اضافے سے خوراک کی مانگ میں تبدیلی آئے گی، 2030 تک دنیا کی آبادی بڑھ کر8 ارب 50 کروڑ تک پہنچنے کی امید ہے، جب کہ اسی دورانیے میں متوسط طبقے کی تعداد ایک ارب 80 کروڑ سے 4 ارب 90 کروڑسے بڑھ جانے کی امید ہے۔رپورٹ میں تجزیہ کرتے ہوئے تجویز دی گئی ہے کہ خوراک کا نظام صحت مند اور پائیداراشیاءکی فراہمی کرنے کے قابل نہیں ہے اوریہ نظام مستقبل میں موجودہ صورتحال سے بھی کم خوراک کی تیاری کرے گا،اس لیے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز(ایس ڈی جی ایس) کے اہداف حاصل کرنے کے لیے خوراک کے نظام میں سسٹیمیٹکل تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی، زراعت، خوراک اور مشروب کی پیداوار کرنے والی کمپنیوں کو خوراک کی تیاری کے لیے جدید طرز کے تحت خوراک کی تیاری کرنی پڑے گی۔رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ تمام حکومتوں کو خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ’اسمارٹ پالیسی‘ اختیارکرنا ہوں گی۔حکومتوں کو خوراک کے حقیقی تخمینوں کو مد نظر رکھ کرخوراک، زراعت، صحت مند غذا کی ماحولیاتی پالیسیوں کو اپناتے ہوئے جامع ٹیکنالوجی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں دلیل دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دنیا کی امیر ترین ایک فی صد آبادی کے پاس باقی تمام آبادی سے بھی زائد دولت ہے، جب کہ اقتصادی عدم مساوات میں اضافہ سماجی ہم آہنگی کی کم رفتارکا سبب ہے۔رپورٹ کے مطابق 2 ارب سے زیادہ افراد ’مائیکرو نیوٹریشن‘ کی کمی کا شکار ہیں اور یہ کمی بیماریوں میں اضافے اور ترقی کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے، دوسری جانب 2 ارب لوگ موٹاپے کا شکار تھے۔رپورٹ کےمطابق خوراک کا شعبہ دنیا کا 70 فیصد پانی کھینچ رہا ہے جب کہ زراعت، جنگلات اور زمینیں خارج ہونے والے گرین ہاﺅس کا چوتھا حصہ کھینچ لیتی ہیں، خوراک کے شعبے کی جانب سے گزشتہ 50 سال میں پانی کھینچنے میں 3 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ 2030 تک اس میں مزید 40 فیصد اضافہ ہونے کا امکان ہے۔رپورٹ میں زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دنیا کے دن بہ دن غیرمستحکم ہونے سے خوراک کے نظام میں لچک پیدا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ حکومتوں، کاروباری کمپنیوں اور دیگراداروں پر انحصار کرنا پڑے گا۔
جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے تو وزیراعظم نواز شریف نے انتخابات سے قبل بھی معاشی بہتری کو اپنی اولین ترجیح قراردینے کا عویٰ کیا تھا۔ انہوں نے ٹیکس نظام، معاشی استحکام ، دہشتگردی کی روک تھام اور امن وامان کو بھی ترجیحات میں شامل رکھا تھا۔ جبکہ اسی طرح کے دیگر اہم چیلنجز بھی ہیں جن میں غربت ایک اہم مسئلہ ہے جس کا ملکی معیشت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت نے شدید اور ہلاکت خیز بھوک کو جنم دیا ہے۔ گزشتہ برس ورلڈ بینک نے پاکستان میں بچوں میں خوراک کی شدید کمی سے خبردار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں بچوں اور خواتین میں اہم وٹامن کی کمی کی شرح دنیا میں بلند ترین ہے۔ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) نے پاکستان میں غذائی کمی کو عوامی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔خوراک اور غذا کی کمی بچوں اور خواتین کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کو بری طرح متاثر کرتی ہے اور انہیں مختلف انفیکشن لاحق ہونے کے خطرات کو بڑھاتی ہے۔ یہ خطرہ پوشیدہ ہے، خاموش اور میڈیا کی نظروں سے ماورا ہے۔کیونکہ ان کے متاثرہ افراد غریب اور مفلوک الحال انسان ہوتے ہیں۔ ان کی آواز آگے تک نہیں پہنچ سکتی اور وہ اوجھل ہی رہتے ہیں۔ دوسری جانب حالیہ آفات، سیلاب اور دیگر حادثات سے لاتعداد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ پھر دہشتگردی نے صورتحال مزید خراب کردی اور اس کا نتیجہ شدید غذائی عدم تحفظ کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔پورے پاکستان میں ساٹھ فیصد گھر یا خاندان ایسے ہیں جو غربت، وسائل یا کسی اور وجہ سے کھانے پینے کی معیاری اشیا تک رسائی نہیں رکھتے اور یوں مناسب خوراک سے محروم ہیں۔ ایسے گھرانوں یا افراد کو غذائی عدم تحفظ کا شکار یا food insecure کہا جاتا ہے۔ یعنی ساٹھ فیصد پاکستانیوں کو مناسب خوراک کی فراہمی نہیں ہوپاتی۔گزشتہ روز نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( نسٹ) میں ہونے والی پاپولیشن ایسوسی ایشن آف پاکستان ( پی اے پی) کی ایک ریسرچ کانفرنس میں یہ سروے اور اس کی تفصیلات پیش کی گئیں۔سروے میں بتایا گیا کہ پاکستان میں بچوں میں اسٹنٹنگ ( عمر کے لحاظ سے چھوٹا قد) اور ویسٹنگ ( قد کے لحاظ سے کم وزن) اور خوراک کے دیگر چھوٹے چھوٹے اجزا ( مائیکرونیوٹرینٹ) کی شرح بہت کم ہے۔سروے میں 2001 اور 2011 میں خوراک اور غذائیت کی شرح کا موازنہ بھی کیا گیا۔سروے کے مطابق پاکستان میں 2011 میں 43.7 فیصد بچے عمر کےساتھ چھوٹے قد کے شکار ہیں جبکہ 2001 میں یہ تعداد41.6 فیصد پر تھی۔اس کے علاوہ ملک میں (پانچ سال سے کم عمر) بچوں کی 35 فیصد تعداد کا تعلق غذائیت کی کمی سے ہے جبکہ اگر یہ شرح صرف 15 فیصد سے اوپر ہوجائے تو اسے عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے تحت قومی ہنگامی حالت یا ایمرجنسی کہا جاتا ہے۔اس موقع پر پی اے پی کی صدر شہناز وزیر علی نے کہا پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی فوڈ سیکیورٹی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ 1998 کے بعد سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ معلومات اور تحقیق تو موجود ہے لیکن پالیسی بنانے اور منصوبوں کے لیے ان سے مدد نہیں لی جاتی۔انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار کی بجائے لوگوں پر توجہ ہونی چاہئے تاکہ سماجی اقدار، انسانی حقوق اور مرد وزن کی برابری جیسے اہم امور کو مدِ نظر رکھا جاسکے۔اس کے علاوہ ضروری ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں فیملی پلاننگ پر بھرپور اور منظم توجہ دیں۔وفاقی پذیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات، احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کے غیر تسلی بخش ترقیاتی اشاریے ( انڈیکیٹرز) پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ترقی کی دھیمی رفتار کو درست کرنا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کے مستقبل پر ایک آواز سے بات کرنا ہوگی۔
پی اے پی یقین رکھتی ہے کہ حکومت مجموعی قومی آمدنی ( جی ڈی پی) کا کم ازکم 6 فیصد حصہ صحت کے لیے مختص کرے۔ پاکستان میں 2011 میں کئے گئے نیشنل نیوٹریشن سروے نے ملک میں غربت کی صورتحال پر خطرے کی گھنٹیاں بجائی ہیں۔ اس بھرپور سروے میں ملک کے چاروں صوبوں میں 30,000 گھروں کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں صرف پنجاب کی صورتحال تھوڑی بہتر تھی اور بلوچستان ، سندھ اور صوبہ خیبر پختونخوا شدید غذائی قلت کے حامل صوبوں میں شامل تھے۔مجموعی طور پر ملک کی 60 فیصد خواتین اور بچوں کو ناکافی خوراک کا سامنا ہے۔ امید سے ہونے کی حالت میں اور بچوں کودودھ پلانے والی خواتین کو خاص خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی خوراک میں فولاد، پروٹین، آئیوڈین، وٹامن اے، اور دیگراشیا ضروری ہوتی ہے۔ خصوصاً مدتِ حمل میں خوراک میں اہم اجزا کی کمی سے پیدا ہونے والے بچے میں نقائص ہوسکتے ہیں اس کی جسمانی اور ذہنی نشونما پر فرق پڑ سکتا ہے۔نومولود اوربچوں میں خوراک اور غذائیت کی اہمیت کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ( پمز) کے پروفیسر محمود جمال نے کہا کہ پاکستان میں صحت کے بہت سے مسائل کا براہِ راست تعلق والدہ اور نومولود بچے کی خوراک سے ہوتا ہے۔ غربت کے مارے لوگوں میں خوراک کی کمی، صحت کی ناکافی سہولیات اور نامناست خاندانی منصوبہ بندی سے پاکستان اقوامِ متحدہ کے تحت وضع کردہ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز ( ایم ڈی جی) کو حاصل نہیں کرپائے گا۔اگر خوراک کی کمی مسلسل رہے تو مسوڑھے سوج جاتے ہیں اور دانت گرنے لگتے ہیں، اعضا متاثر ہوتے ہیں اور دل کے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ خصوصاً ابتدائی عمر میں خوراک کی کمی سے دماغی بڑھوتری نہیں ہوپاتی اور بچے کا آئی کیو بھی کم ہوسکتا ہے۔ پھر اس کے اثرات پوری زندگی رہتے ہیں اور بلوغت تک کا عرصہ متاثر رہتا ہے۔کھانے کی کمی سے اور دماغی امراض کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔پاکستان کی آبادی میں خوراک کی کمی کے خاتمے کے لیے کچھ کم خرچ اور بہتر طریقے بھی موجود ہیں۔ پاکستان خیرات دینے میں بہت سخی ہیں۔ ملک بھر میں ایک بڑی آبادی کو روزانہ مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچن گارڈننگ، ماں کو دودھ پلانے کی ترغیب اور دیگر غذائیت سے بھرپور خوراک کے آپشن اپنی جگہ موجود ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیا اپنا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹے ہی سہی لیکن اقدامات ا±ٹھائے جائیں تاکہ رفتہ رفتہ غذائیت کی کمی پر قابو پایا جاسکے۔
مائیکرونیوٹریشن کے نقصانات
اگر خوراک کی کمی مسلسل رہے تو مسوڑھے سوج جاتے ہیں اور دانت گرنے لگتے ہیں، اعضا متاثر ہوتے ہیں اور دل کے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ خصوصاً ابتدائی عمر میں خوراک کی کمی سے دماغی بڑھوتری نہیں ہوپاتی اور بچے کا آئی کیو بھی کم ہوسکتا ہے۔ پھر اس کے اثرات پوری زندگی رہتے ہیں اور بلوغت تک کا عرصہ متاثر رہتا ہے۔
ایک فیصدافراد کی دولت پوری دنیا کی آبادی سے زیادہ
حکومتوں کو خوراک کے حقیقی تخمینوں کو مد نظر رکھ کرخوراک، زراعت، صحت مند غذا کی ماحولیاتی پالیسیوں کو اپناتے ہوئے جامع ٹیکنالوجی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے، دنیا کی امیر ترین ایک فی صد آبادی کے پاس باقی تمام آبادی سے بھی زائد دولت ہے، اقتصادی عدم مساوات میں اضافہ سماجی ہم آہنگی کی کم رفتارکا سبب ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں