محکمہ تعلیم سندھ میں مختلف امور کی انجام دہی کیلئے ریٹ مقرر
شیئر کریں
محکمہ تعلیم پرائمری سندھ میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، ڈائریکٹوریٹ میں خاتون ڈائریکٹر نے ریٹائرمنٹ اور ٹائم اسکیل ٹرانسفر پوسٹنگ، بائیومیٹرک جیسے عام معاملات کے ریٹ مقرر کردیئے۔ وزارت تعلیم سندھ میں وزیر تعلیم سندھ کے دفاتر میں درخواست گزار روزانہ کی بنیاد پر پریشانی کے باعث دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ 36 ہزار نئی نوکریوں میں ایس ایل ٹی کی پوسٹ کے 15لاکھ، پی ایس ٹی کے 12 لاکھ اور کلرک سمیت دیگر ملازمین کی بھرتیوں کیلئے لاکھوں کی ڈیمانڈ سے درخواست گزاروں میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے ۔ محکمہ تعلیم میں عملے کی کرپشن کی نشاندہی کے باوجود سیکریٹری تعلیم اور ڈائریکٹر پرائمری اسکول آنکھیں بند کرے بیٹھے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر 10 روز قبل ریٹائرڈ ہوئے تاہم آج تک انکی سیٹ پر کسی کو تعینات نہیں کیا جاسکا۔ ذرائع کے مطابق DEO ایسٹ کی تعیناتی کیلئے ڈھائی کروڑ روپے کی ڈیمانڈ کی گئی ہے، جس کے لئے کوئی آفیسر ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ محکمہ تعلیم نے اساتذہ کی تعداد طلبا کی تعداد سے 10 گنا بڑھ گئی کراچی ریجن میں تاحال کرونا وائرس کے بعد دوبارہ کھلنے والے اسکولوں میں باقاعدہ تعلیمی سلسلہ جاری نہ ہوسکا۔ اساتذہ کی بڑی تعداد میں غیر حاضر اساتذہ حاضری رجسٹر میں حاضر دکھاتے ہیں۔ گلشن ٹاؤن میں ایسے TEO کو تعینات کیا گیا جوکہ کروڑوں روپے کی لینڈ مافیا کی کرپشن میں ملوث ہے۔ وزیر تعلیم سندھ کے 3تلوار کے آفس میں جانے والے درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ وزیر تعلیم نے گیٹ پر داخل ہوتے ہی دو خطرناک بلڈوگ (شکاری کتے)جو آفس میں گھسنے والوں کا چیخ و پکار سے استقبال کرتے ہیں جس کی وجہ سے درخواست گزار اور محکمہ تعلیم میں ملازمتوں کے امیدوار خوفزدہ ہوکر بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سندھ میں تعلیمی نئے نظام کی لئے نئی بھرتیوں کا سلسلہ کہاں شروع ہوگا اس سلسلے میں کراچی شہر کے لاکھوں امیدوار پریشانیوں کا شکار ہیں۔ کراچی کے تعلیمی اداروں میں بائیومیٹرک نظام میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی نشاندہی کی گئی۔ ذرائع کے مطابق بائیومیٹرک میں ایڈمنسٹریٹرز اور اساتذہ سے براہ راست رشوت وصولی کے باعث اساتذہ کی بائیومیٹرک آج بھی محکمہ تعلیم کیلئے سوالیہ نشان ہے۔ سیکریٹری تعلیم کے بار بار احکامات کے باوجود بائیومیٹرک کا نظام اپنی مرضی اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے اور اساتذہ اپنی مرضی سے ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ ڈائریکٹر اسکول پرائمری کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے ہر فائل کے دستخط کرنے کے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں اور ڈائریکٹوریٹ کے اندر اپنے ایجنٹ تعینات کردیئے جو تھری پیس سوٹ میں آنے والوں کو باقاعدہ بیلیف کرکے ان سے بھاری رقمیں وصول کرتے ہیں اور ڈائریکٹر اسکول صرف ان فائلوں پر دستخط کرتی ہے جن کے بارے میں اس بات کی مکمل یقین دہانی ہوجاتی ہے کہ ان سے رقم وصول کرلی گئی ہے۔ ڈائریکٹر اسکول کے PA اپنی مرضی کے تحت خواتین کو گھنٹوں اپنے آفس میں بٹھاکر ان سے ان کے مسائل حل کرنے کی بھاری رشوت وصول کرتی ہے۔ محکمہ تعلیم میں اساتذہ اور دیگر عملے کی ریٹائرمنٹ اور بائیومیٹرک ٹائم اسکیل کیلئے TEO سے لیکر ڈائریکٹر تک ریٹ مقرر ہے۔ جبکہ صرف میٹرک کے سرٹیفکیٹ کی ویری فکیشن کیلئے محکمہ تعلیم کی ایک خاتون آفیسر نے بتایا کہ ڈائریکٹر کے حکم پر فی میٹرک سرٹیفکیٹ کی ہائیر ایجوکیشن اتھارٹی سے ویری فکیشن کیلئے 15000 ہزار روپے مقرر کیئے ہیں ایسی صورت میں ریٹائرڈ ملازمین دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ملازمین کا کہنا ہے کہ ہمارے واجبات کی ادائیگی محکمہ تعلیم کے احکامات کے تحت 10 سے 15دن میں ہوجانی چاہیے مگر صورتحال یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے کاغذات کی تیاری اور ریٹائرمنٹ آرڈر تک ایک لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے جو عملہ ایک لاکھ روپے کی ادائیگی کردیتا ہے ان کی فائلیں AG سندھ کو روانہ کردی جاتی ہیں اور جو ایک لاکھ روپے کی ادائیگی نہیں کرپاتے وہ سالہا سال دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کی خاتون ڈائریکٹر نے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد تاحال کسی اسکول کا معائنہ کرنا گوارہ نہیں سمجھا جس کے باعث اسکولوں کی حالت زار اساتذہ کی من مانیاں اور تعلیمی اداروں میں بچوں کی رجسٹریشن کیلئے امتحانی شیڈول کیلئے اور سرٹیفکیٹ کے اجرا کیلئے سینکڑوں روپے کی طلبا و طالبات کی والدین سے ڈیمانڈ کی جارہی ہے۔ محکمہ تعلیم میں مسجد اسکول میں بڑے پیمانے پر SMC فنڈ میں خورد برد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں سیکریٹری تعلیم سندھ میں تحقیقات کیلئے متعدد بار احکامات جاری کیئے تاہم ڈائریکٹر کی سطح پر ان تمام معاملات کو رد کی ٹوکری کی نظر کردیا گیا۔ محکمہ تعلیم میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور اقربہ پروری نچلے سطح پر عملے کی رشوت کی وصولی اعلی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ محکمہ کے ہاتھوں گرفتار ایک ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تعلیم میں وزارات تعلیم اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے منظور نظر کی ہدایت پر ایک بار پھر محکمہ تعلیم پرائمری میں تعینات کردیا گیا۔ جن کے بارے میں اینٹی کرپشن اور نیب نے باقاعدگیوں اور کرپشن کی باقاعدہ تحقیقات کے بعد گرفتاری عمل میں لائی تاہم معلوم ہوا ہے کہ موصوف کا پورا محکمہ تعلیم پر نیٹ ورک قائم ہے محکمہ تعلیم میں ہر نئی تعیناتی یا بھرتی کیلئے موصوف سیکریٹری وزیر تعلیم تک اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی جانب سے طلبا و طالبات پر تشدد کے واقعات کی نشاندہی کے باوجود تاحال اعلی حکام نے متعدد اسکولوں میں والدین کی درخواستوں پر کارروائی سے گریزاں ہیں۔