خانہ جنگی کی طرف بڑھتا افغانستان
شیئر کریں
(مہمان کالم)
ڈیوڈ زکینو
چار عشروں پر محیط شدید خونریزی کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے حالیہ امکان سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ تشدد کا یہ دور ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گا مگر یہ سنگِ میل ابھی بہت دور ہے۔ بات چیت کا تازہ ترین سلسلہ‘ جو ستمبر میں شروع ہوا تھا‘ معمولی نوعیت کے ایشوز پر افسر شاہی کی رکاوٹوں اور مہینوں سے جاری طویل بحث و تمحیص کی نذر ہو گیا ہے۔
اگرچہ ان مذاکرا ت کے نتیجے میں اصولوں اور پروسیجرز پر ایک معاہدہ ہو گیا تھا جو اگلے امن مذاکرات کے لیے رہنمائی فراہم کرے گا مگر اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ ایک طرف دونوں فریق دوحہ میں ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور دوسری جانب افغان شہروں میں خونریزی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ نئے مذاکرات پانچ جنوری کو ہونا طے ہیں مگر یہ واضح نہیں ہے کہ آئندہ مذاکرات کن موضوعات پر ہوں گے۔ اگرچہ فریقین کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ کے مذاکرات کے حوالے سے اپنی ترجیحات کی فہرست قبل از وقت نہیں دیں گے؛ تاہم تجزیہ کاروں، سکیورٹی ایکسپرٹس، ریسرچرز اور حکومتی عہدیداروں کے نزدیک ان کی ترجیحات اور راستے میں حائل رکاوٹیں درج ذیل ہوں گی۔ اول یہ کہ ان کے آخری اور حتمی مقاصد کیا ہیں؟ مذاکرات کا حتمی مقصد ایک حکومت کی تشکیل کے لیے ٹھوس سیاسی روڈ میپ وضع کرنا ہے۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ معصوم سٹنک زئی نے بتایا ہے کہ جنگ بندی میرے وفد کی اولین ترجیح ہو گی۔ افغان طالبان‘ جنہوں نے سکیورٹی فورسز پر حملوں کو حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے‘ چاہتے ہیں کہ کسی قسم کی جنگ بندی سے پہلے اسلامی قوانین پر مبنی ایک حکومت قائم کرنے کا معاملہ طے کیا جائے مگر ان بنیادی ایشوز کو طے کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ فریقین ابھی تک جنگ بندی اور اسلامی حکومت جیسی بنیادی اصلاحات کے مفہوم کے تعین میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے ابھی تک یہ وضاحت کرنے سے انکار کیا ہے کہ اسلامی حکومت سے ان کی کیا مراد ہے اور حکومت کے اسلامی جمہوریہ کے قیام پر اصرار بھی ابھی تک تشریح طلب ہے۔ افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن عبدالحفیظ منصور کہتے ہیں کہ وہ ایک اسلامی حکومت چاہتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس قسم کی اسلامی حکومت کیونکہ ہر اسلامی ملک کا اس حوالے سے اپنا الگ الگ تصور ہے۔
جنگ بندی کی کئی اقسام ہوتی ہیں؛ مستقل، قومی سطح کی، جزوی یا مشروط جنگ بندی؛ تاہم فروری میں امریکا اور افغان طالبان کے مابین ہونے والے معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کا مکمل انخلا ہو گا مگر ا س کے کوئی خدوخال ابھی تک واضح طور پر طے نہیں ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ تو افغانستان سے فوج نکالنے میں عجلت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے مگر صدر بائیڈن کے آنے سے اب فوری طور پر امریکی فوج کا مکمل انخلا ممکن نہیں ہو سکے گا۔
مذاکرات کی اگلی رکاوٹ طالبان کا یہ مطالبہ ہے کہ تمام طالبان جنگی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ حکومت کی طرف سے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی سے ستمبر میں ہونے والے مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی تھی مگر صدر اشرف غنی نے مزید قیدی رہا کرنے سے انکارکر دیا ہے۔ دونوں فریقوں نے دوحہ مذاکرات میں ایک دوسرے پر دبائو ڈالنے کے لیے تشدد کا غیر ضروری استعمال کیا مگر حکومت کے مقابلے میں طالبان کے حملے زیادہ جارحانہ شدت کے حامل ہیں۔ ایک آزاد تجزیہ کار‘ ابراہیم باحث کہتے ہیں کہ طالبان دوطرفہ حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں؛ تشدد اور مذاکرات۔ ان کا مقصد حکومت پر قبضہ اور ایک مخصوص طرز کی حکومت کا قیام ہے۔ وہ اسے مذاکرات کے ذریعے حاصل کریں یا جنگ کے ذیعے‘ وہ دونوں کے لیے تیار ہیں۔
دوم یہ کہ امریکا کیا کردار ادا کر رہا ہے؟ اگرچہ طالبان نے فروری سے امریکی افواج پر براہِ راست حملے کم کر دیے ہیں مگر طالبان نے مقامی سکیورٹی فورسز کا محاصرہ کر کے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں توسیع کر لی ہے۔ جن علاقوں میں افغان فوجی طالبان کے شدید حملوں کی زد میں تھے‘ امریکا نے وہاں ان پر فضائی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ اس موسم خزاں میں صوبہ ہلمند اور قندھار میں پھنسے افغان فوجیوں کو امریکی ایئر فورس کے فضائی حملوں کی مدد سے ہی نکالا گیا جس سے افغان فوج اور فضائیہ کی کمزوریاں کھل کر سامنے آگئیں۔ اسی باعث وہ مسلسل طالبان حملوں کی زد میں ہیں۔ اعلیٰ امریکی حکام کے مطابق‘ افغان فورسز کے گرتے ہوئے مورال نے افغانستان میں امریکا کے زیرِ قیادت مشن کے سربراہ جنرل آسٹن ملرکو خاصی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
دوسری جانب افغانستا ن میں متعین امریکی فوج کی کل تعداد‘ جو فروری میں بارہ ہزار فوجیوں پرمشتمل تھی‘ معاہدے کے مطابق جنوری کے وسط تک کم ہوکر صر ف ڈھائی ہزار تک رہ جائے گی اور اگر دوحہ معاہدے پر پورا عمل ہوا تو مئی کے آخر تک ساری امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی۔ اسی بنا پر افغان حکام بے یقینی کا شکار ہیں کہ امریکی فوج کے جانے کے بعد ان کی فورسز اپنا زمینی قبضہ کس طرح برقرار رکھ سکیں گی؟
مذاکرات کے اس دور کی کامیابی اور اہمیت کا اندازہ امریکی حکومت کو نومبر میں اس وقت ہوا تھا جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دوحہ کا دورہ کیا تھا اور مذاکرات کاروں سے ملاقاتیں کی تھیں اور پھر دسمبر کے وسط میںچیئرمین جائنٹ چیفس جنرل مارک اے ملی نے بھی دوحہ کا دورہ کیا تھا۔ امریکی وزارتِ دفاع نے پنٹاگون سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنرل ملی نے افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں جاری تشدد اور خونریزی میں فوری طور پر کمی کریں۔ امریکی حکام نے تشدد کی یہ اصطلاح متعدد بار استعمال کی ہے جس کی کچھ بھی تشریح کی جا سکتی ہے۔ امریکی حکام کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح میدانِ جنگ میں ایک تواز ن قائم کیا جائے۔
تجزیہ کار ابراہیم باحث کا کہنا ہے کہ بعض امریکی ارکان کانگرس کی تجویز کے مطابق‘ اگر نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن جونیئر مئی 2021ء تک افغانستان میں متعین باقی ماندہ امریکی فوجیوں اور انسدادِ دہشت گردی فورسز کو معاہدے کے مطابق نکالنے سے انکار کر دیتے ہیں تو طالبان نے پوری طرح یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ بھی 29 فروری 2020ء کو دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کو منسوخ کر دیں گے۔ کئی تجزیہ کار تو اس سے بھی زیادہ سنگین نتائج برا?مد ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ افغان حکومت کے ایک سابق مشیر طارق فرہادی کہتے ہیں ’’ایک بات پوری طرح واضح ہے کہ اگر معاہدے پر عمل نہ ہو سکا تو ہم ایک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔