میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دہشت گردی کی جنگ اور ہمارا بیانیہ۔۔۔۔۔

دہشت گردی کی جنگ اور ہمارا بیانیہ۔۔۔۔۔

منتظم
اتوار, ۸ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

رضوان الرحمن رضی
امریکیوں نے پاکستانی معاشرے کے اندر موجود ایسے تمام عناصر کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا جنہوں نے افغانستان میں ان کی شکست میں کسی نہ کسی طور حصہ ڈالا تھا ،طاقت اور خدائی کا غرور اس فہرست کو پھیلاتے پھیلاتے وہاں تک لے گیا کہ اگر کسی پاکستانی نے ڈیورنڈ لائن کے اس طرف امریکیوں کی پٹائی پر قہقہہ لگایا یا تالی بھی بجائی تھی تو اس کو عبرت کا نشان بنا دینے کا اہتمام کیا گیا ، لیکن یہ سزا صرف پاکستانیوں کے لیے ہی مخصوص تھی ، امریکا اور یورپ میں افغانستان میں امریکی جنگ کے موضوع پر جتنی بھی کتابیں ان کے واقفانِ حال جرنیلوں،جاسوسی اداروں کے سربراہوںاور خارجہ امور کے افسر وں نے لکھی تھیں ، ان سب میں یہی اعتراف موجود تھا کہ امریکی یہ جنگ ہار چکے ہیں بس اعلان و اعتراف کرنا باقی تھا۔ لیکن چوں کہ غصہ بڑا عقل مند ہوتا ہے اور ہمیشہ کمزور پر ہی آتا ہے اس لیے سزا وارصرف اہلِ پاکستان ہی ٹھہرے اور امریکیوں کی طرف سے یہ بیان گھڑا گیا کہ ”چوں کہ افغانستان کی اس جنگ میں پاکستا ن نے ہماری پورے دل سے مدد نہیں کی اس لیے ہم یہ جنگ ہار گئے“۔اور یوں پاکستانی معاشرے میں جس نے بھی امریکی شکست کی بات کی اس کو عبرت کا نشان بنانے کاآغاز ہو گیا ۔
لیکن اس ساری نسل کشی کے عمل میں اصل مسئلہ مقامی ایجنٹ افراد یا اداروں پر اعتماد کے فقدان کاتھا اس لیے ایک طرف تو براہِ راست نگرانی کا نظام قائم کیا گیا لیکن ساتھ ہی متوازی نظام بھی قائم کردیاگیا ۔اس عرصے میں مقامی طور پر ایسے مطلوب افراد کی گرفتاری،،جعلی پولیس مقابلوں میں قتل اور تفتیش کے نام پر ان پر بدترین تشدد کی ہر کارروائی میں کوئی نہ کوئی ’بے نامی‘ گورا ضرور موجود ہوتا، بعض کارروائیوں میں تو اس نے منہ بھی ڈھانپا ہوتاتھا کہ پہچانا بھی نہ جائے۔بہت سے لوگوں نے جو درد کا یہ دریا گذار کر آئے ہیں وہ یہی بیاں کرتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کے اہل کار انہیں یہی کہتے کہ وہ تو یہ کچھ نہیں کرنا چاہتے ، بس اس منہ ڈھکے گورے کا دباو¿ ہے جس کا ان کو نام بھی پتہ نہیں ہوتا تھا۔ اس قبیح کام کو سرانجام دینے والے پولیس افسران کو امریکا لے جا کر بھی تربیت دی گئی اور جو نیک نام وہاں نہ بلائے جا سکے ان کی تربیت کے لیے پہلے امریکی اور بعد میں ترکی سے ”ماہرین “ کو پاکستان میں اتاردیا گیا۔یوں تا دمِ تحریر ، ملت فروشی اورذلت فروشی کا یہ کاروبار پورے کرو فر سے جاری ہے۔
اگر آپ کو یاد ہو تو ان ساری کارروائیوں کے نتیجے میں پورے ملک میں ایک اودھم سا مچ گیا تھا، ہزاروں لوگ نیشنل ایکشن پلان کے اعلان سے پہلے ہی اٹھاکر غائب کر دئیے گئے تھے جن میں سے اکثریت کا ابھی تک نہ تو سراغ ملا ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں ہمارے ’دنیا کے نمبر ون‘ اداروں کو کچھ پتہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیاتھا اور یوں لگ رہا تھا کہ ہمارے معاشرے کے جوڑ جوڑ ہل رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ میڈیا پر تسلسل کے ساتھ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ ہے“ اور ”ہمارے اس جنگ میں ایک لاکھ لوگ شہید ہوئے ہیں“ کے بیانیوںکو آگے بڑھایا جاتا رہا۔ ایک موقع پر تو لگتا تھا کہ ملک خاکم بدہن واقعی خانہ جنگی کے دہانے پرپہنچ گیا ہے۔
خیر جب ماڈل ٹاون کے ایک گھرمیں سے ایک سی آئی اے کے علاقائی یہودی رابطہ کار کو ، جو پنجاب پولیس کے سی ٹی ڈی کی حفاظت میں سرگرم عمل تھا، کو اغوا کرکے افغانستان پہنچایا گیا اور ریمنڈ ڈیوس نے بیچ چوراہے میں بھانڈہ پھوڑ دیا کہ امریکی کس طرح ہر گلی محلے میں کتوں کی طرح بو سونگھتے پھر رہے ہیں تو پھر امریکیوں کو اتنے ننگے طریقے سے کسی دوسرے ملک میں سرگرمِ عمل ہونے کی بات طشت ازبام ہوجانے سے مقامی ایجنٹوں کو اپنی فکر پڑ گئی کہ امریکیوں نے تویہ کارروائیاں کر کے جان ریمبو فلم کے ہیرو کی طرح یہاں سے ’اکیلے‘ واپس چلے جانا ہے اور معاشرے کے زخم خوردہ افراد کا تو سامنا ہم نے کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں پنجاب پولیس اور پاک فوج کی ان کارروائیوں سے منسلک بہت سے افسران کی امریکا اور کینیڈا امیگریشن کے معاملات نظر آئے۔
حال ہی میں پاکستانی میڈیا پر چھا جانے والی گلوکارہ اور ماڈل گرل مومنہ مستحسن ایسے خاندانوں کی ہی چشم و چراغ ہیں۔ موصوفہ کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے پاک فوج کے بریگیڈئر والد اس وقت امریکی شہری ہیں جس کی وجہ سے وہ بھی یہی حیثیت رکھتی ہیں، بھائی پاک فوج میں کپتان ہیں ، اور پاکستانی میڈیا میں ان کا استقبال دیکھیں ذرا۔ لیکن امریکی شہریت کے عمل سے واقف حال لوگوں کا خیال ہے کہ نارمل عمل کے ذریعے اگر کوئی یہ کوہ ہمالیہ سر کرنا چاہے تو اسے کم از کم آٹھ سے دس سال درکار ہوتے ہیں، اب دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو بریگیڈئر صاحب نے شہریت کی درخواست اس وقت ہی دے دی ہو جب وہ میجر ہوں یہ قرینِ قیاس نہیں لگتا اور دوسرا وہی عمل ہے جس کے تحت امریکی صحافی سیمور ہرش کے مطابق اسامہ بن لادن کی جاسوسی کرنے والے افسر کو دی گئی تھی۔
ادھر دوسری طرف پاکستان میں متعین کیے گئے اپنے امریکی ریمنڈ ڈیوسوں پر خاصا خرچا ہو رہا تھااور پارٹی پالیسی کے مطابق امریکیوں کی پالیسی کو اپنی سرکاری پالیسی بنانے والی سیاسی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ نے قومی سطح پر بدعنوانی اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیاہے کہ امیج سازی پر خرچہ بہت بڑھ گیا۔ اس لیے پالیسی میں تبدیلی یہ کی گئی ، اور پاکستانی حکام کی طرف سے اسے خوش آمدید کہلوایا گیا کہ آپ جنتا پیسہ ان ریمنڈ ڈیوسوں کو دیتے ہیں، اس سے آدھا ہمیں دے دیں تو یہ ”ڈرٹی جاب“ ہم کردیں گے۔ یہ چاروں صوبوں میں سی ٹی ڈی کے محکمے اور ان پر متعین افراد سے پتہ چلتا ہے کہ اس کھیل کو کھیلنے کے لیے کن کا انتخاب کیاگیا ہے۔
ظاہر ہے کہ کوئی نہ کوئی سرپھرا کہیں نہ کہیں یہ پوچھ بیٹھتا کہ اگر ”دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ ہے “ تو پھر اس کی ادائی امریکیوں سے کیوں لی جاتی ہے، اپنی جنگ ہے تو ہمیں خود اپنے خرچے پرلڑناچاہیے، لیکن اگر کوئی دوسرا ایسا ملک اس جنگ کی ادائی کرتا ہے جہاں پر لوگ اپنے والدین پر پانچ ڈالر خرچ کرنے کے بجائے انہیں اولڈ ہوم میں داخل کروا دیتے ہیں تو ان کی چھاتیوں میں ہمارے لیے کیوں دودھ اترا ہوا ہے؟اس کا توواضح مطلب یہی ہے کہ یہ جنگ ہم ’کرائے کے ٹٹو‘ کے طور پر لڑ رہے ہیں، اور اس کے پورے پیسے بھی نہیں پکڑ رہے اور اگر پیسے آ بھی رہے ہیں تو وہ کسی فرد کی جیب میں جا رہے ہیں جب کہ ریاست یا اس کے کسی ادارے کو تو کچھ نہیں مل رہا۔ اب دیکھنا یہ بچتا ہے کہ تعاون کا یہ سارا تکلف ادارہ جاتی ہے یا پھر ادارے کے کچھ لوگوں کے ایک منظم گروہ کی انفرادی واردات ہے۔ دوسری بات کچھ قرینِ قیاس بھی لگتی ہے لیکن اس کے بارے میں لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے کیوں کہ بات پھر ناقابلِ تردید حقائق کی طرف چلی جاتی ہے، جن کی کھوج لگانے والوں کو دن دیہاڑے ہی آخرت کی راہ دکھا دی جاتی ہے۔
امریکیوں کی قدم بوسی میں ہمارے قومی ادارے اس حد تک جا چکے ہیں ، کہ خطے میں امریکا کے تازہ اتحادی، بھارت کو گزشتہ اٹھائیس سال سے مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی مسلح تحریک کو کچلنے کے لیے جنگی جہاز اور وہ اسلحہ استعمال کر سکے جسے اندرون ملک اور جنگ کے علاوہ کبھی استعمال نہیں کیا جاتا ۔بھارت کو یہ حوصلہ ہوا ہے کہ وہ نہ صرف کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کردے بلکہ ہم سے اسی ”پروٹوکول “اور ”سہولتوں “کا مطالبہ کرے جو ہم امریکیوں کو فراہم کر رہے ہیں یعنی جب اس کا دل کرے وہ ہماری سرحدوں میں گھسے، جس کو چاہے گرفتار کرکے قتل کرے، اور اس کی ذمہ داری ہمارے ادارے دھڑلے سے قبول کریں، جن کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہو۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی طرف سے آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس پر پاک فوج کے ایک دفاعی تجزیہ نگار نما سابق فوجی افسر نے کچھ یوں فرمایا کہ ”بھارت کی طرف سے ہونے والا مبینہ حملہ سرجیکل سٹرائیک نہیں ہے، سرجیکل ا سٹرائیک تو وہ تھی جو امریکیوں نے ایبٹ آباد میں کی تھی“۔ ایسے اذہان کے بارے میں کیا کہا جائے یہ آپ سوچ لیں لیکن کیا یہ امر کی غمازی نہیں کرتے کہ کوئی نہ کوئی ’انڈراسٹینڈنگ‘ یا ’معاہدہ‘ موجود ہے جو مسلسل قوم سے چھپایا جا رہا ہے لیکن اس طرح کے ہونے والے اس معاہدے کے برعکس اس کی قیمت پاکستانی قوم کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
دوسری طرف سرکاری ادارہ نیکٹا ہے کہ وہ ہر سال ”ایک لاکھ لوگ شہید ہوگئے“ والے بیانئے میں سے ہوا نکالتا رہتا ہے جس پر ہمارے میڈیا پر بیٹھے لوگ مخصوص اذہان وزارتِ داخلہ اور نیکٹا کے خلاف خوب خوب زبان دراز کرتے، کیوں کہ اس بات سے انہیں ”راتب“ پر براہِ راست زد پڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ان تمام بیانیوں کو پھیلانے کے لیے پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو گھٹیا اور ننگے طریقے سے اشتہارات کی صورت میں شروع سے ہی رشوت دی گئی ، بعض منصوبوں کی تو لاگت اتنی نہیں تھی جتنی مالیت کے امریکیوں نے اس کے اشتہارات چلا ڈالے، کہ گزشتہ ستر سال میں امریکا نے پاکستانیوں کے لیے کیا کچھ کر ڈالا ہے؟ اس اشتہاری مہم کا اثر اُلٹا ہوا اور حیرت انگیز طور پرآج بھی ہمارے ملک میں کوئی بھی خرابی ہو تو اہلِ وطن عوام بڑے آرام سے فرما دیتے ہیں کہ ”یہ جو کچھ ہو رہا ہے امریکا کروا رہا ہے“۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ میڈیا پراسی اشتہاری نوازش کے بدلے میں پاک بھارت تجارت کی بھارتی شرائط پربحالی اور توہینِ رسالت کے قوانین کے خلاف پاکستانی میڈیا نے بھرپور مہم چلائی اور مشرف حکومت کو یہ دونوں کام کرنے کے لیے مناسب حالات فراہم کئے ، لیکن پھر ان اشتہارات کی بندر بانٹ پر میڈیا کی بلیاں آپس میں لڑ پڑیںاور یوں یہ بندر بانٹ جاری نہ رہ سکی۔
ملک کی تمام صوبائی پولیس شعبوں میں کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے شعبے بنائے گئے جو امریکیوں کی ہدایت کے تحت وہاں لے کر جاتے ہیں، جہاں امریکیوں کے مطابق ان کے مخالفین چھپے ہوتے ہیں۔امریکا کی نشاندہی پر لوگوں کو گرفتار کیا جاتاہے، ضروری ہوتو ان کو کچھ تفتیش کے لیے لمبی مدت کے لیے کسی محفوظ جگہ پر’غائب ‘کردیا جاتا ہے اور جب ضرورت پڑے ، تو گلی میں مرغی کا گوشت بیچنے والے قصائی کی طرح، اس طرح کے دڑبوں میں ہاتھ بڑھا کر جو ہاتھ میں آئے، اس کو پکڑ کر جعلی پولیس مقابلے میں ”چھری پھیر “ کر ذبح کردیا جاتا ہے، اگر ان میں سے لوگ دستیاب نہ ہوں تو پھر کشمیر میں جہاد کا جذبہ رکھنے والے ’کشمیر ٹرینڈ بوائز‘ (کے ٹی بیز)اور افغانستان کے جہاد میں کبھی بھی حصہ لینے والے (اے ٹی بیز) کی ایک بہت بڑی تعداد تو دستیاب ہے جو معاشرے میں اب ایک پرامن زندگی گزار رہی ہے۔ اور ان کو ہماری فوجی اور سیاسی قوتوں نے شیڈیول چار میں شامل کر لیا ہوا ہے، ان کو پکڑ کر جعلی پولیس مقابلوں میں پار کردیا جاتا ہے(یہی وجہ ہے کہ خواہش اور کوشش کے باوجود کشمیر میں جہاد کے لیے اداروں کو حافظ سعید کے متاثرین کے علاوہ کوئی اور احمق دستیاب نہیں ہوپارہا)۔ لیکن مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ”یہ لوگ بغاوت کیوں نہیں کرتے“؟ان عناصر کو مبارک ہو کہ ان کی محنت رنگ لے آئی ہے گزشتہ ایک ہفتے میں رحیم یار خان، ساہیوال اور کراچی میں سی ٹی ڈی کے تھانوں پر ہلکی پھلکی کارروائیاں ہو چکی ہیں، یہ اس معاملے کی ابتدا ہے۔
مجھے عافیہ صدیقی کو سزا لکھنے والے امریکی جج کے وہ الفاظ نہیں بھولتے جو اس نے فیصلے میں لکھے تھے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ ”اگرچہ استغاثہ ملزمہ کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت کرنے میں سرے سے ناکام رہا لیکن ملزمہ عافیہ صدیقی کے نظریات اور خیالات، جن کا اظہار ان کے خلاف لکھی گئی چارج شیٹ میں کیا گیا ہے (یعنی ملزمہ نے مقدمے کی سماعت کے دوران اس کا اظہار بھی نہیں کیا بلکہ یہ تفتیش کار کا خیال تھا) ایسے ہیں جس سے امریکی ہی نہیں پوری دنیا کے امن کو خطرہ’ ہو‘ سکتا ہے“،اور لگتا یہی ہے کہ یہ الفاظ کسی توجیہ کے بغیر نہیں تھے۔ دراصل یہ امریکا کی عمومی پالیسی کا اظہار تھے۔
میرے دائیں طرف بیٹھنے والے پنجاب یونیورسٹی کے استاد جناب ڈاکٹر غالب عطا جو لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائیسز (لمز) سے پی ایچ ڈی تھے ، اور بائیں طرف بیٹھنے والے ڈاکٹر سلیم بشیر جو ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹر تھے ، انہوں نے تو کبھی طورخم بھی پار نہیں کیا تھا۔ ان کا واحد جرم تو یہی تھا کہ وہ ہردردِ دل رکھنے والے مسلمان کی طرح اس ملک میں اسلام کی سربلندی کے خواہش مند تھے ،لیکن ان کو غائب کیے ہوئے سال بھر سے زائد عرصہ ہو چکا ہے او ران کی زندگی کی خبراور سلامتی کے سوالات کے حوالے سے کسی جگہ کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ۔ الٹا ان کے خاندان کے افراد کو دھمکانے کے لیے پولیس کے افسر ، شراب کے نشے میں دھت ہو کر رات کو دو بجے ’تفتیش ‘ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ رات کے اس پہر میں ان کی بیویوں اور جوان بچیوں سے ’اکیلے‘ میں تفتیش کرنے کا اصرار کرتے ہیں۔ اس طرح کی تفتیش کے دوران ان پولیس افسران کی خرمستیوں کی تفصیلات جو اس طرح کی عفت مآب بیٹیوں نے ہم تک پہنچائی ہے، وہ سوچ کر بھی خون کھول اٹھتا ہے ۔ اس لیے لکھنے کا یارا نہیں۔ لیکن ذلیل کرنا اور کسے کہتے ہیں؟
ایسے میں ہماری سیاسی حکومت نے باوردی اداروں کی ان کارروائیوں سے خود کو الگ کرنے کے لیے ”فوجی عدالتوں “ کا قانون پاس کر کے بڑی چالاکی سے خود کو اس سارے کھیل
اس کی ممکنہ ذمہ داری سے الگ کرلیا تھا۔ یعنی اگر تمہارا کوئی ’اورینجمنٹ‘ ہے تو اس کی ذمہ داری بھی تم ہی قبول کرو، ہم اس کہ ذمہ داری سے ماورا ہیں۔ تاہم کیوں کہ پہلے زرداری اور پھر نواز شریف کو اقتدار ملا ہی اس شرط پر تھا کہ وہ خطے میں امریکی بیان نے اور منصوبوں کو آگے بڑھائیں گے ، اس لیے سیاست دان بڑے باریک طریقے سے امریکی مفادات کو آگے بڑھا رہے ہیں لیکن اس کی ذمہ داری سے خود کو بچا بھی رہے ہیں۔ دوسری طرف سیاستدانوں نے بڑے غیر محسوس طریقے سے امریکا بھارت اور ایران کے ساتھ ساتھ اب روس کو بھی قومی معاملات کا اسٹیک ہولڈر بنا لیا ہے اور یوں اب معاملات صرف واشنگٹن کے ”کُن“ کے مرہونِ منت نہیں رہے۔
کمال کی بات تو یہ ہے پاکستان کے اندر تخریب کاری ، دہشت گردی اور بھارت کے ایجنٹ ہونے کے الزام میں گرفتار ہونے والے تمام لوگوں کو روایتی (اور بقول ان کے کرپٹ اور سست نظام کے تحت) اڑھائی سوسے زائد لوگوں کو جلا کر مار دینے اور گیارہ مئی کے دن میڈیا کی آنکھوں کے سامنے کراچی کی سڑکوں پر قتلِ عام کرنے ، اور بھارت کے ایجنٹ ہونے اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والوں کو توفوجی عدالتوں نے ہاتھ تک نہیں لگایا لیکن ان قبیح الزامات سے کہیں کم نوعیت کے ملزموں کو صفائی کا موقع اور وکیل تک رسائی دئیے بغیر پھانسی گھاٹوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے امریکی اور بھارتی ایجنٹوں کو نہیں بلکہ امریکی جارحیت اور پالیسیوں کے خلاف سوچنے والوں کو عبرت کا نشان بنانا مقصود ہوتا ہے، امن قائم کرنا نہیں۔
گزشتہ سے پیوستہ سال کی بات ہے کہ ہم نے اپنے ریڈیو پروگرام میں جب ایک خبرپھوڑی کہ لاہور میں بیدیاں روڈ پر پولیس ٹریننگ اسکول کی اگلی طرف ایک ایسی عمارت تعمیر کی جارہی ہے جس میں پچاس ہزار سے زائد لوگوں کو قیدِ تنہائی میںرکھنے کی سہولت دستیاب ہو گی ، اور حیرت انگیز طور پر اس کے آس پاس ہی امریکی بھی لاہور کے قونصل خانے کے لیے وسیع و عریض جگہ لینے کے خواہش مند ہیں۔ اس خبر کے پھوڑنے کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ’دنیا کے سب بڑے خفیہ ادارے‘ کے مقامی حکام نے ہم سے اس خبر کا منبع جاننے کے لیے رابطہ کیا اور ایسی کسی بھی سرگرمی کی سختی سے تردید کی۔ لیکن اس عظیم الشان عمارت کی تعمیری سرگرمی میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ کن کی خواہش پر کن لوگوں کو ’غائب‘ کرنے کے لیے بنائی جارہی ہیں، اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔
گزشتہ سال کے آخری ہفتے میں ماسکو میں روس، چین اور پاکستان کے دفتر ہائے خارجہ کے اعلیٰ افسران کا ایک اجلاس ہوا جس میں کسی نہ کسی حدتک افغان طالبان کی نمائندگی بھی تھی، جس کو ظاہر کرنا ضروری خیال نہیں کیا گیا۔ اس اجلاس کے بارے میں جو باتیں سامنے آئی ہیں یہ اپنی جگہ لیکن اس وقت ہمارے دوسرے اداروں کے لیے کیا یہ ضروری نہیں ہوگیا کہ وہ اپنی موجودہ پالیسیوں پر نظر ثانی کریں، اور ظلم و بربریت کی وہ داستانیں جو انہوں نے فاٹا اور کے پی کے میں بندوقوں کے ذریعے بوئی ہیں، وہ امریکی تھنک ٹینک کے مطابق ’پتلا پاکستان‘ بنانے کی بنیاد بننے کے لیے کافی ہیں۔ اسے ہماری کم از کم ایک نسل تو بھگتتی رہے گی ۔اب تو امریکیوں نے وردی بردار اور سویلن اداروں کے تما م قسم کی گرانٹس اور فنڈز بھی روک لیے ہیں۔ تو پھر بھی محض اعتبار ور خوشنودی جیتنے کے لیے یہ تمام دلدر کیوں؟
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں