بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت کے 28سال
شیئر کریں
(مہمان کالم)
معصوم مرادآبادی
جی ہاں، 6 دسمبر کے دن اب سے 28 سال پہلے اجودھیا میں بابری مسجد کی ظالمانہ شہادت کا سانحہ پیش آیا تھا۔ وہی بابری مسجد جسے 1528میں ایک غیر متنازعہ اراضی پر تعمیر کیا گیا اور جسے 22 دسمبر 1949 تک مسلمانوں نے اپنے سجدوں سے منور کیا تھا۔جی ہاں وہی بابری مسجد 6دسمبر 1992کو دن کے اجالے میں شہید کردی گئی۔ جس وقت نام نہاد کارسیوکوں نے مسجد کو شہید کیا تو وہاں نظم ونسق کی پوری مشینری موجود تھی اور صوبے کے وزیراعلیٰ نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے مسجد کے تحفظ کی ذمہ داری بھی لی تھی۔ مگر تمام قانونی تحفظات کے باوجود مسجد کے گنبدوں پر چڑھنے والے کارسیوکوں کو روکا نہیں گیا اور انھوں نے پانچ سوسالہ قدیم تاریخی عبادت گاہ کو زمیں بوس کردیا۔ جن لوگوں نے بابری مسجد کی شہادت کا پس منظر تیار کیا تھا اور جو نام نہاد کارسیوکوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے موقع واردات پر موجود تھے ، ان کے خلاف ملک کی سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی نے مجرمانہ سازش کا مقدمہ قائم کیا اور ان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ، مگر افسوس 28 سال کی طویل اور تھکادینے والی عدالتی کارروائی کے بعد ان تمام کلیدی ملزموں کو ’’ باعزت ‘‘ بری کردیا گیا۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج نے ان تمام ثبوتوں کو ناکافی قرار دے دیا جو گزشتہ 28سال سے چیخ چیخ کر ان ملزمان کے سیاہ کار ہونے کا اعلان کررہے تھے۔سی بی آئی نے اس معاملے میں اپنے سیاسی آقائوں کی خوشنودی کے لیے ہر وہ کام کیا جو ان ملزمان کو بچانے کی راہ ہموار کرتا ہو۔ سی بی آئی کی بدنیتی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ دوماہ سے زیادہ کاعرصہ گزرنے کے باوجود اس نے ابھی تک رائے بریلی کی عدالت کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں کیاہے اور وہ لوگ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں جنھوں نے اس معاملے میں اعلیٰ عدالتوں کا دروزہ کھٹکھٹانے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے۔
بابری مسجد کا معاملہ دراصل بھارت میں ظلم اور نا انصافی کی ایک ایسی دلخراش داستان ہے جس کی نظیر آپ کو آزاد ہندوستان میں نہیں ملے گی۔1949 میں جس وقت بابری مسجد کے اندر زور زبردستی مورتیاں رکھی گئیں تو اس وقت ملک کی تقسیم کا زخم تازہ تھا اور مسلمان بلا وجہ کے احساس جرم کا شکار تھے۔ ان کے حوصلے ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ اپنے منتشر وجود کو سمیٹنے کی کوششیں کررہے تھے۔ حالانکہ ملک کے سیکولر جمہوری دستورکی قسمیں کھانے والے قومی لیڈروں نے انھیں یقین دلایا تھا کہ اس ملک میں ان کے جمہوری اور دستوری حقوق کا بھرپور تحفظ کیا جائے گا لہٰذا وہ ہر قسم کے احساس کمتری کو دل سے نکال دیں۔ لیکن جب آزادی کے محض دوسال بعد سیکولر جمہوری ہندوستان کو ایودھیا میں سیکولرازم کی پہلی آزمائش سے گزرنا پڑا تو یہی قائدین اپنے قول قرار پر کھرے نہیں اترے۔ انھوں نے دستور اور قانون کی پاسداری کی بجائے عددی قوت کے آگے سرجھکایا۔اگر ان کی نیت صاف ہوتی تو اسی وقت مسجد کا تقدس بحال کردیا گیا ہوتا اور اس مسئلہ کو ناسور بننے کے لیے نہیں چھوڑا گیا ہوتا۔جن لوگوں نے اس انتہائی خطرناک تنازعہ کو پنپنے کا موقع دیا تھا وہ بعد کے دنوں میں بھی اسے کھاد پانی فراہم کرکے اپنی سیکولر منافقت کا ثبوت دیتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دوکشتیوں کی سواری نے انھیں منجدھارمیں ڈبودیا اور آج وہ اپنے سیاسی وجود کو بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
گزشتہ سال نومبر میں بابری مسجد کی اراضی رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوفریق کو سونپے جانے کا فیصلہ ہی کیا کم تھا کہ گزشتہ30ستمبر کو سی بی آئی عدالت کے خصوصی جج نے بابری مسجد انہدام سازش کیس کے تمام32ملزمان کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا کہ ان کے خلاف کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں ہے۔ حالانکہ یہ لوگ بابری مسجد کی شہادت کے جرم میں گردن تک ڈوبے ہوئے تھے اور ان کے خلاف ثبوتوں کا اتنا بڑا انبار تھا کہ شاید ہی کسی معاملے میں اتنے ثبوت کبھی اکٹھا ہوسکیں۔سی بی آئی جج ایس کے یادو نے جانچ ایجنسی کی طرف سے پیش کیے گئے کسی بھی ثبوت کو ماننے سے انکا ر کیا۔ انھوں نے اپنے فیصلے میں یہاں تک کہا کہ وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل ، عمارت کو بچانا چاہتے تھے کیونکہ اس کے اندر رام کی مورتی موجود تھی۔ جن 32 ملزمان کو بابری مسجد شہادت کیس میں کلین چٹ دی گئی ان میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی ، کلیان سنگھ، اوما بھارتی ، ونے کٹیار، سادھوی رتھمبرا اور رام مندر ٹرسٹ کے موجودہ سیکریٹری چمپت رائے شامل تھے۔ ان تمام32ملزمان نے خود کو عدالت میں قطعی بے قصور بتایا اور کسی نے بھی اقبال جرم نہیں کیا۔ سبھی نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو ایک سیاسی سازش کا حصہ بتایا اور اس کے لیے اس وقت کی کانگریس سرکار کو مورد الزام ٹھہرایا۔ملزمان کے دلائل کوبسروچشم قبول کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ سی بی آئی 32 ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عدالت میں جو ویڈیو ریکارڈنگ پیش کی گئی، اس سے چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔ جج نے نشاندہی کی کہ سرکاری وکیل ملزمان کے خلاف کافی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ سی بی آئی نے جو آڈیو، ویڈیو ثبوت دیا، اس کا مستند ہونا ثابت نہیں ہوا۔ ملزمان نے موقع پر جو تقاریر کی تھیں ان کا جو آڈیو عدالت کے سامنے لایا گیا، اس میں آواز واضح نہیں۔ تاہم عدالت نے مسجد کے گنبدوں پر چڑھنے والوں کو سماج دشمن عناصر سے ضرور تشبیہ دی۔ عدالت میں موجود 26ملزمان نے کہا کہ ان کا ماننا رہاہے کہ بابری مسجد ڈھانے کی سازش اس وقت کی کانگریس حکومت نے کی تھی۔سی بی ا?ئی عدالت کے خصوصی جج نے اپنے فیصلے کو مبنی برانصاف قرار دینے کے باوجود اپنے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ تک گہار کیوں لگائی؟۔یہ سوال اب بھی جواب کا منتظر ہے۔
بابری مسجد انہدام سازش کیس کی تحقیقات کرنے والے جسٹس منموہن سنگھ لبراہن نے سی بی آئی عدالت کے فیصلے میں سازش کی تھیوری تسلیم نہ کرنے پر روزنامہ ’ انڈین ایکسپریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں نے اپنی تحقیقات میں پایا تھا کہ یہ ایک سازش تھی اور مجھے اب بھی اس پر یقین ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے سامنے پیش کیے گئے تمام شواہد سے یہ واضح تھا کہ بابری مسجد انہدام کا منصوبہ باریکی سے بنایا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اوما بھارتی نے صاف طور پر اس کی ذمہ داری لی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ کوئی ان دیکھی طاقت نہیں تھی، جس نے مسجد کو منہدم کردیا۔ یہ کام انسانوں نے کیا تھا۔ لبراہن کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کارسیوکوں کا ہجوم اچانک یا رضاکارانہ نہیں بلکہ منصوبہ بند تھا۔ جسٹس لبراہن نے کہا کہ میرے نتائج صحیح تھے، ایماندارانہ تھے اور خوف یا کسی اور طرح کے تعصب سے پاک تھے۔ یہ ایک ایسی رپورٹ ہے جو آنے والی نسل کو ایمانداری سے بتائے گی کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ یہ تاریخ کا حصہ ہوگی۔‘‘
لبراہن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ’’ اس کارروائی میں تمام قوانین کو سیاسی اختیار حاصل کرنے کے لیے ہدایت دی گئی تھی اور اس طرح سیاسی طور پر مطلوبہ نتائج حاصل کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت کی کلیان سنگھ سرکار نے جان بوجھ کر تحریک کے ہیرواور کارسیوکوں کو ایڈمنسٹریشن چلانے اور ایودھیا و فیض آباد پر حکومت کرنے کی اجازت دی تھی۔ کلیان سنگھ نے انہدام مکمل ہونے تک بار بار فورسز کی خدمات حاصل کرنے سے انکار کیا۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا توتب انھیں واقعات اور ان کے نتائج کا پورا علم تھااور کسی بھی ٹھوس کارروائی کے لیے ان کی خواہش نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ کمیشن نے کہا کہ یہ ایک ایسا معاملہ نہیں تھا، جہاں سرکار ہجوم کے غصے کے خلاف بے بس تھی بلکہ اس کے برعکس یہ ایک قابل رحم اور شرمناک معاملہ تھا، جہاں وزیراعلیٰ اور ان کی سرکار، ان کی پارٹی اور پریوار کے اندر اور باہربیٹھے ان کے معاونین نے سرگرم ہوکر اس تھوڑی بہت سمجھداری اور عقل وفہم کو ختم کردیا ، جس سے متنازعہ عمارت کے انہدام یا مستقبل کے فسادات کو روکا جاسکتا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ متنازعہ عمارت کو گنبد کے اوپر سے منہدم کرنا ممکن نہیں تھا۔ کارسیوکوں سے گربھ گرہ میں نہ جانے اور گنبد کو اندر سے نقصان نہ پہنچانے کے لیے کوئی اپیل نہیں کی گئی تھی۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ چمپت رائے نے اعلان کیا تھا کہ 6دسمبر1992کو گوریلاطریقہ اپنا یا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔