کے الیکٹرک نے ایمپریس مارکیٹ کی بجلی کی بحالی کیلئے 28لاکھ مانگ لیے
شیئر کریں
(رپورٹ: شعیب مختار) نقشہ تبدیل ہو گیا تاجروں کی قسمت نہ بدلی ایمپریس مارکیٹ کی بجلی کی بحالی دو سال گزرنے کے بعد بھی نہ ہو سکی کے الیکٹرک کی جانب سے مارکیٹ کی بجلی کی بحالی کے لیے 28لاکھ کا تقاضہ کر دیا گیا، تاریخی عمارت لاورث ہو گئی بڑھتی مہنگائی اور کورونا وائرس سے پریشان تاجر گزشتہ2 برس سے جنریٹر کے استعمال پر مجبور۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 2018میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے 1899 میں قائم ہونے والی برطانوی راج کے زمانہ کی تعمیر شدہ ایمپریس مارکیٹ میں ناجائز تجاوزات کیخلاف آپریشن کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں غیر قانونی طور پر قائم 1ہزار سے زائد دکانوں کو مسمار کیا گیا تھا اس دورانیے میں کے الیکٹرک کی جانب سے مارکیٹ کی بجلی کے تمام تر کنکشن منقطع کر دیے گئے تھے۔ اس ضمن میں 22نومبر 2019کو مارکیٹ کے ذمہ داران کو بجلی کی بحالی کے لیے کے الیکٹرک انتظامیہ نے25 لاکھ79 ہزار263 روپے کاچالان تھمایا تھاجس کے ایک سال گزرنے کے بعد چالان کی رقم میں مزید دو لاکھ کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور مارکیٹ کی بجلی کی بحالی سے متعلق28لاکھ روپے طلب کیے جا رہے ہیں۔ایمپریس مارکیٹ حالیہ دنوں مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبی دکھائی دیتی ہے جہاں صبح و شام جنریٹر کے استعمال کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، جو کسی بھی نا خوشگوار رواقعے کا باعث بن سکتے ہیں۔ مارکیٹ میں ناجائز تجاوزات کیخلاف ہونے والے آپریشن میں اپنی دکانوں سے محروم ہونے والے 800 متاثرین بھی سابق میئرکراچی وسیم اختر کی جانب سے متبادل جگہ کے لیٹر ملنے کے باوجود بھی کسی بھی قسم کی کوئی جگہ نہ ملنے پر حالیہ دنوں سراپا احتجاج ہیں جن کے مطالبات سننے سے حکومتی نمائندے مسلسل قاصر ہیں۔ اس سلسلے میں مارکیٹ کے صدر حاجی لیاقت کا روزنامہ جرأت سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے آپریشن کے بعد 300دکانیں موجود ہیں جن میں سے 150دکانیں قصابوں کی ہیں جنہیں بجلی مہیا کرنے کی ذمہ داری شہری حکومت کی ہے، جبکہ ماکیٹ کی 150دکانوں کے 57بجلی کے میٹر پہلے ہی موجود ہیں جو آپریشن کے بعد سے غیر فعال ہیں۔