جہاں کورونا وائرس نہیں ہے
شیئر کریں
(مہمان کالم)
اسٹیفنی نولین
آج صبح میرے بچے ا سکول چلے گئے۔ ان کا سکول اینٹوں سے بنی پرانی بلڈنگ ہے جس میں داخل ہونے کے لیے وہ ایک خستہ گیٹ پر قطار بنا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد میں ورزش کرنے کے لیے جم چلی گئی جہاں میں پسینے سے شرابور ایک گروپ کلاس میں شامل ہو گئی۔ چند روز پہلے میں اور میرے پارٹنر نے مل کر ایک ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس میں ہمارے آٹھ دوست شامل ہوئے۔ ہم سب ایک ڈائننگ ٹیبل کے گرد جمع تھے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا۔ میں جہاں رہتی ہوں‘ ہم وہاں بلا خوف و خطر اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہاں زندگی آج بھی ویسے ہی ہے جیسے ایک سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ یہ وائرس فری جادوئی دنیا ایمپائر ا سٹیٹ بلڈنگ سے محض ایک دن کی مسافت پر واقع ہے جسے نووا سکوٹیا کہتے ہیں۔ یہ بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع کینیڈا کے ان چار صوبوں میں سے ایک ہے جنہیں ’’مفلس صوبے‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ معاشی طور پر غریب صوبے ہیں جن کا انحصار زیادہ تر مغرب کے متمول صوبوں سے ہونے والے کیش ٹرانسفر پر ہوتا ہے۔ کووڈ 19 کے زمانے میں ’’مفلس‘‘ کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ ہمارے ہاں کورونا وائرس کا لاک ڈائون مارچ میں شروع ہوا تھا۔ صوبائی سرحدیں مکمل طور پر بند کر دی گئی تھیں۔ نووا سکوٹیا میں تو پبلک ہائیکنگ کے وہ ٹریک بھی بند کر دیے گئے تھے جہاں مقامی لوگ آزادانہ طور پر دور دور تک پیدل چلنے کے عادی ہو چکے تھے مگر لاک ڈائون پر سختی سے عمل ہوا اور اس کے مثبت نتائج بھی دیکھنے کو ملے۔ جب نئے کیسز کی تعداد سنگل ڈیجٹ میں آئی تو سب نے سکھ کا سانس لیا۔ مئی کے مہینے میں ان پابندیوں میں کسی حد تک نرمی کی گئی اور جون میں یہ بالکل ہی ختم کر دی گئیں۔ جولائی کے شروع میں بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع ان صوبوں میں سفری پابندیاں اٹھا لی گئیں مگر جو بھی کسی دوسرے علاقے سے آتا تھا اس پر قرنطینہ کے رولز کی پابندی لازم تھی؛ تاہم جنوب میں امریکا کے ساتھ واقع سرحد مکمل طور پر بند رہی۔
جنوبی سرحد سے ملنے والی کورونا کی تباہ کاریوں کی خوفناک خبروں سے ایک انجانا خوف آج کل ہر وقت ذہنوں پر سوار رہتا ہے۔ امریکا سے ملنے والے اعداد و شمار ناقابل یقین اور سمجھ سے بالاتر ہیں۔ 1لاکھ 80ہزار، 1لاکھ 40ہزار، 1لاکھ 20ہزار نئے کیسز روزانہ سامنے آ رہے ہیں۔ جب میں وہاں اپنے دوستوںسے بات کرتی ہوں تو وہ سب اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں‘ وہ کمرے میں کھیلتے بچوں کی موجودگی میں اپنا کام نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور پھر صحت یاب بھی۔ کینیڈا میں بھی نئے کیسز کی گنتی بڑھتی جا رہی ہے۔ مونٹریال میں میرے بھائی اور ان کی فیملی اب پھر لاک ڈائون کی زد میں ہیں۔ میں جب اپنی شب و روز کی سرگرمیوں اور تیز رفتار سکیٹنگ ریسز کی تصاویر پوسٹ کرتی ہوں تو یہ ان کے مقید ماحول سے بالکل الٹ عکاسی کر رہی ہوتی ہیں۔ یہاں بھی کووڈ 19 نے لوگوں کا طرزِ زندگی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہم گروسری ا سٹور پر ایک دوسرے سے چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ا سٹار بکس پر کیشئر ایک شیشے کے اندر بیٹھ کر کیش وصول کرتا ہے۔ مجھے اپنے ڈنر پارٹی کے مہمانوںکی تعداد دس سے کم رکھنا پڑتی ہے۔ نووا سکوٹیا میں جولائی سے ہر ایک کے لیے گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک پہننا لازمی ہے مگر اب یہاں یہ سب کچھ نارمل لگتا ہے۔ صبح کی ڈیوٹی میں ایک نئی بات شامل ہو گئی ہے مثلاً پہلے بچوں سے پوچھتے تھے کہ تم نے اپنا ہوم ورک لے لیا ہے، اپنا لنچ لے لیا ہے اور اب یہ بھی پوچھنا پڑتا ہے کہ تم نے اپنا ماسک بھی لے لیا ہے؟ میں وائرس سے متاثر ہوئے بغیر کئی دن گزار سکتی ہوں۔
ہیلی فیکس کی رئیل اسٹیٹ پر اس موسم خزاں میں شدید دبائو تھا۔ ہمارے چھوٹے سے شہر میں رہائش نسبتاً سستی ہے۔ یہاںساحل ہیں اور لکڑی سے بنے پارکس، مگر ملازمتوں کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے یہاں کے زیادہ تر لوگ دوسرے شہروں میں رہتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر اب کچن ٹیبل پرکام کرتے ہیں۔ ٹورنٹو کے باسی اب کورونا وائرس کے خوف سے پْرکشش زندگی چھوڑکر اپنے شہر سے بھاگ رہے ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع اور کم آبادی نے بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع کینیڈا کے صوبوں کو ایک اور ہی دنیا بنا دیا ہے۔ اس پورے علاقے کی آبادی صرف پچیس لاکھ ہے۔ نیو فائونڈ لینڈ اور پرنس ایڈورڈ جزیروں کی وجہ سے سرحدوں کو کنٹرول کرنا آسان ہو گیا ہے۔ صرف ایک صوبے کی سرحدیں امریکا سے ملتی ہیں اور ایک سرحد کیوبک صوبے سے متصل ہے جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ہیلی فیکس اس ریجن کا سب سے بڑا ایئر پورٹ ہے جہاں پہلے روزانہ ایک درجن پروازیں آتی تھیں، اب ایک بھی نہیں آتی۔ جب میں نے نووا سکوٹیا کے چیف ہیلتھ آفیسر رابرٹ ا سٹرینج سے پوچھا کہ آپ یہاں کے حالات کو کس طرح نارمل رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس نے مجھے ایک انوکھی بات بتائی۔ ’’ہمارے ہاں سیاست دان نہیں بلکہ پبلک ہیلتھ حکام یہ پالیسی بناتے ہیں کہ کیا کھولنا ہے اور کیا بند رکھنا ہے۔ اور لوگ لاک ڈائون، اجتماع اور ماسک سے متعلق رولز پر سختی سے عمل کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مجھے بتایا ’’ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ میرے خیال میں یہ ہمارے کلچر اور اجتماعی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو لوگ بخوشی اسے قبول کرتے ہیں‘‘۔ کورونا کی عالمی وبا اس خطے اور اس کی معیشت کے لیے ایک حقیقی عذاب ثابت ہوئی ہے جس کا بڑا انحصار سیاحت پر ہے۔ اپریل میں ختم ہونے والی ملازمتوںمیں سے 80فیصد بحال ہو چکی ہیں؛ تاہم سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے یہ صورتحال کشیدہ رہنے کا امکان ہے۔
آج صبح ہی مجھے اپنے ہمسائے میں واقع ایک اور بزنس کے بند ہونے کا پتا چلا، جس کی کھڑکی پر اس کا نوٹس لگا ہوا تھا۔ گھروں سے بے دخلی کی شرح میں اضافہ ہو گیا ہے۔کیئر ہومز میں رہنے والوں کے ساتھ وزیٹرز کی ملاقاتیں بہت کم ہو چکی ہیں۔ اگر ہم اپنا علاقہ چھوڑتے ہیں تو واپسی پر ہمیں چودہ دن کے لیے قرنطینہ میں جانا پڑے گا۔ قرنطینہ بھی اب قید کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے درمیان اب ایک ہی بحث چلتی ہے کہ کس نوعیت کا قرنطینہ اور پابندیاں مناسب ہیں مگر ہم یہاں یہ بات اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں کن باتوں نے اب تک محفوظ رکھا ہوا ہے جبکہ امریکا میں وہی باتیں متنازع سمجھی جاتی ہیں مثلاً پبلک ہیلتھ کیئر، پبلک میڈیا اور سوشل سیفٹی نیٹ وغیرہ۔ یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس اس قدر بے قابو ہو چکا ہے جبکہ اس سے آسانی سے بچا جا سکتا تھا۔ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ ہم ایک محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔ہماری آزادی بہت قیمتی اور نازک ہے۔ یہ اتنی سستی نہیں ملی ہے لیکن یہ ایک مسلسل عمل ہے اور ہمیں اس بات کا پورا ادراک ہے کہ اس کے حصول کے لیے ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو اس کا صلہ ایک محفوظ زندگی کی صورت میں ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔