میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شکایات سے اعلانیہ نفرت

شکایات سے اعلانیہ نفرت

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۱ اکتوبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

فوج کو ہدفِ تنقید بناناسیاستدانوں کا پرانا وطیرہ ہے قبل ازیں ہدفِ تنقید بناتے وقت اِ س امر کا خیال رکھا جاتا کہ موجودہ کی بجائے سابق قیادت کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے لیکن آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیکر نئی روایت قائم کی مگرنئی روایت قائم کرنا اُن کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوا موجودہ اپوزیشن اتحاد نے بھی جلسوں میں نام لیے بغیر قومی سلامتی کے ذمے داراِدارے پر اُنگلیاں اُٹھانا شروع کیں مگر نواز شریف نے تمام تر احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سپاہ سالار کو نااہل کرانے اورانتخابی شکست کے ساتھ عدالت سے سزادلانے کا کا زمہ دار ٹھہرا کر سُرخ لکیر کراس کر لی ہے جس پر فوج نے تو تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن عمران خان نے نوازشریف کو آتے ہی جیل میں ڈالنے اور پروڈکشن آرڈر کے خاتمے کی بات کر کے اپنی دانست میں ترجمان بننے کی کوشش کی حالانکہ پروڈکشن آرڈر ا سپیکر کا اختیار ہے کیا یہ اختیار بھی وزیرِ اعظم اپنے پاس رکھیں گے؟ اگر ایسا ہوا تو مستقبل کاسیاسی منظر خاصہ خوفناک اورپراگندہ ہو سکتا ہے سیاست میں رواداری اور وضع دار ی کا عنصر پہلے ہی کم تھا اگرموجودہ حالات میںمکالمے کا اہتمام نہیں کیا جاتاتوبہتری کی گنجائش کم ہوجائے گی کیونکہ سیاست میں اختلافِ رائے کو دشمنی کا پیراہن پہناناجمہوری اقدار کی نفی ہے ۔

 

نواز شریف نے مصائب کا زمہ دار آرمی چیف کو قرار دیکر اچھا نہیں کیا کیونکہ فوجی جوان اور افسران ملک وقوم کی حفاظت کرتے ہوئے دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں پر تنقید کے نشتر چلانا معیوب ہی نہیں مزموم فعل ہے لیکن یہ شیخ رشید جیسے لوگوں کا سیاسی جماعت پر پابندی کی تجاویز دینادراصل کانٹوں کی فصل بو نے کے مترادف ہے اپنی حیثیت بنانے کے چکر میں تذلیل کی روش اپنا نا جائز نہیں مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اپوزیشن اتحاد کی تشکیل میں سب سے زیادہ ہاتھ حکومت کا ہے جس نے سب کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی اورشکایات کو اعلانیہ نفرت کا رنگ دینے کی راہ دکھائی ہے 126دن کے دھرنے میں حکمرانوں کو چور اور ڈاکو سے لیکر وطن دشمن تک کیا نہیں کہا گیا لیکن کسی نے چہرے پر ہاتھ لگا کر دھمکی دی؟ہرگز نہیں بلکہ حکومت کو غیر جمہوری حربوں سے ختم کرنے کی کوششوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے ناکام بنایا گیا غور کرنے والی بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کیا حکومت پارلیمنٹ کے زریعے دیگر جماعتوں کا تعاون حاصل کر سکتی ہے؟ ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ وزراتو ایک طرف عمران خان بھی اپوزیشن سے مفاہمت نہ کرنے پر بضدہیں جب آوے کا آوا ہی بگڑاہوتو کسی ایک کو کیا الزام دیں یادرکھیں اگرموجودہ اعلانیہ نفرت سے نقصان ہواتو اپوزیشن کا کچھ نہیں بگڑنا سب سے زیادہ خسارہ حکومت کے حصے میں ہی آئے گا ۔

 

عمران خان آجکل فوج پر فریفتہ ہیں ہونا بھی چاہیے یہ ہمارے ملک کا ایسا اِدارہ ہے جس نے دہشت گردوں کو کچلنے کا معرکہ سرانجام دیا ہے چند ایک کے سواملک کی اکثریت فوج سے پیار کرتی ہے لیکن فوج سے محبت جتاتے ہوئے بھی عمران خان کا لب و لہجہ اورالفاظ خاصے تکلیف دہ ہیں بلکہ جس طرح کی فوج سے وہ محبت جتاتے ہیں اگر خاموش رہیں تو زیادہ بہتر ہے مثال کے طور پر انتخابی عمل2018 کے نتائج کی شب انھوں نے خواجہ آصف کی طرف سے عسکری سربراہ سے شکست سے بچانے اور فتح دلانے کی التجا کا ذکر کیا ہے جس کا مطلب مداخلت کی تصدیق کے سوا کچھ نہیں یہ کیسی الفت اور وکالت ہے ؟یہ تو اپوزیشن کے موقف کو تقویت دینے والی بات ہے کاش وہ بولتے ہوئے الفاظ کے معنی و مطالب پر غور کر لیا کریں بلاشبہ ناسمجھ کی دوستی دانا دشمن سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے ۔
کسی کی طرف سے بھی کسی اِدارے کی ساکھ سے کھیلنے کو سراہنا کسی طور مناسب نہیں چاہے وہ کوئی حکومت میں بیٹھا شخص ہویا اپوزیشن کی سختیاں جھیلنے والا چہرہ ہو جو بھی حدود وقیود سے تجاوز کرے غلط بات ہے نواز شریف کے موقف کی تائید نہیں کی جاسکتی مگر اتنا یاد کرانا ضروری ہے کہ عمران خان نے اپنی سوانح عمری میں فوج کے بارے جو لکھا اگر بھولے نہیںیاد ہے تو نازیبا الفاظ لکھنے کا کیاجواز ہے ؟ زرا وضاحت فرمادیں تو بہت سے لوگوں کا مغالطہ دور ہوجائے گا آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کے سربراہ سے انھوں نے اپنی ملاقاتوں کا احوال بھی تحریر کیا ہے میجر جنرل احتشام ضمیر کی طرف سے پرویز مشرف کی حمایت طلب کرنے کازکرکرنا سیاسی معاملات میں مداخلت کی تصدیق نہیں تو اور کیا مطلب ہے؟ مدا خلت کرنا کیسی وکالت ہے کیا مداخلت کے احوال تحریر کرنا قابلِ قدریا قابلِ تعریف حرکت ہے؟۔

 

غداری کے الزامات اور پکڑ دھکڑ نے ملک کو اِس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ پہلے جو شکوے شکایتیں تھیں اب اعلانیہ نفرت کاروپ دھارنے لگی ہیں بلوچستان ،کے پی کے اور سندھ میں قوم پرستوں کی بڑی تعداد اچھی بھلی سیاسی قوت بن چکے ہیں ایک پنجاب قوم پرستی سے دور وفاق پرستی کا قائل تھا لیکن سولہ اکتوبر کو گوجرانوالہ جلسے سے یہ ابہام بھی دور ہوگیا ہے نواز شریف کی طرف سے اب پنجابیت کاپرچار اورپنجاب کی سیاست خارج ازامکان نہیں جو ملک کی بدقسمتی ہوگی کئی سابق جنرلوں ،آزاد کشمیر کے سابق وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر اور دیگر نمایاں سیاستدانوں پرایک بدنامِ زمانہ شخص کی طرف سے غداری کے مقدمے کے اندراج کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی اب کراچی میں مزارِ قائد پر حاضری کی پاداش میں حکومت نے ایف آئی آر درج کرادی ہے اِس طرح جگ ہنسائی کے ساتھ جمہوری اقدار کا جنازہ نکالاہے مزار قائد کا تقدس بجا قبل ازیں موجودہ وزیرِ اعظم بھی اپنے لائو لشکر کے ساتھ نہ صرف تقدس کی پامالی کے مرتکب ہو چکے ہیں بلکہ دھکم پیل کے ساتھ مزار کے احاطے میں توڑ پھوڑ کا موجب بھی بن چکے ہیں جس کی الیکٹرانک میڈیا پر کوریج بھی ہوئی اتنا کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ شکایات کو شکایات یا اختلافِ رائے ہی رہنے دیں اعلانیہ دشمنی نہ بنائیں اگر اعلانیہ دشمنی تک جانا ہے تو کم ازکم اِداروں اور ملک سے الفت جتانے سے اجتناب کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں