میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان میں سائنسی صحافت،وقت کی ایک اہم ضرورت

پاکستان میں سائنسی صحافت،وقت کی ایک اہم ضرورت

منتظم
جمعه, ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ریحان احمد صدیقی
پاکستان میں صحافیوں کی تو بہت بڑی تعداد موجود ہے لیکن ان میں سائنس جرنلسٹ کی تعداد نمک میں آٹے کے مترادف ہے۔ یہ صحافت کی دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے، جسے پ±ر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
آج کے اس دور میں کسی خبر کو آپ تک پہنچانے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے اور خبروں کو آپ تک پہنچانے میں صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی ملک کی ترقی میں سائنسی تحقیقات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جب کوئی سائنسدان کسی قسم کا کارنامہ انجام دیتا ہے تو اس کارنامے کو دنیا اس وقت تک تسلیم نہیں کرتی جب تک اس کی اشاعت کسی سائنسی جریدے میں نہیں ہوجاتی لیکن ان جریدوں میں شائع کیے گئے مضامین کی سمجھ صرف سائنسدانوں اور اس خاص شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو ہی آتی ہے۔ یہ مضامین عام افراد کے لیے بیشتراوقات ناقابل فہم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں خاص سائنسی اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں کی جانے والی تحقیقات کے بارے میں عوام کو کس طرح عام فہم انداز میں آگاہ کیا جائے؟
یہاں ضرورت ہوتی ہے ”سائنسی صحافت“ کی۔ سائنسی صحافت کا بنیادی مقصد سائنس کے بارے میں صحیح معلومات عام فہم الفاظ میں ان لوگوں تک منتقل کرنا ہے جن کا براہِ راست سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہو۔ اس شعبے میں کام کرنے والے صحافیوں کا کردار سائنسدانوں اور عوام میں باہمی ربط قائم کرنا ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں سائنسی صحافت کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کی تو بہت بڑی تعداد موجود ہے لیکن ان میں سائنس جرنلسٹ کی تعداد آٹے میں نمک کے مترادف ہے۔ یہ صحافت کی دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے، جس کے باعث پاکستانیوں کے بارے میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اس ملک میں سائنسی تحقیقات کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا جا رہا، حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے قیام کے بعد سے اب تک اس ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ مزید یہ کہ اس ملک کے سائنسدانوں کی جانب سے عالمی سائنسی جریدوں میں سائنسی مضامین کی اشاعت میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور سالانہ اشاعت کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔
ایک بین الاقوامی ادارے تھامسن ریوٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے 2006ءمیں 2ہزار سائنسی مضامین کی قومی اور بین الاقوامی جریدوں میں اشاعت ہوئی اور 2015ءمیں ان کی تعداد میں 3 گنا اضافہ دیکھا گیا یعنی 9ہزار مضامین شائع ہوئے۔ مزیدیہ کہ ان مضامین کے حوالہ جات (Citation) کے لحاظ سے پاکستان نےS BRIC ممالک یعنی برازیل، روس، انڈیا اور چائنا اورساﺅتھ افریقاکو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو پاکستانی سائنسدانوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ تمام باتیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ پاکستان میں سائنسی تحقیقات کا رجحان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا ملک میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات کو قابل توجہ اہمیت نہیں دے رہا۔ جبکہ سوشل میڈیا جیسا قابل ذکر میڈیم ”منفی اور غیرسنجیدہ“ معلومات عوام تک پہنچا کر ملک و قوم کا قیمتی وقت ضائع کرنے میں مصروف ہے۔
پاکستان میں سائنسی صحافت کے رجحان کو بڑھانے کے لیے چند تجاویز پر غور کرکے ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس رجحان میں اضافے کیلئے تین مختلف قسم کے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر کام کیا جاسکتا ہے۔
ایک وہ لوگ جن کا تعلق پہلے ہی صحافت سے ہے۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن میں سائنس کی سمجھ بوجھ نہیں ہے، ان لوگوں کے لیے ایسے کورسز متعارف کروانے چاہییں کہ جن سے ان میں سائنس کی بنیادی معلومات اور موجودہ سائنسی تقاضوں کے بارے میں علم و فہم پیدا کیا جاسکے۔
دوسرے وہ لوگ جن کے پاس کسی بھی سائنسی شعبہ علم میں بیچلرز یا ماسٹرز کی ڈگری ہو۔ ایسے لوگوں کیلیے وہ کورسز متعارف کروانے چاہیےں جن سے ان میں صحافتی مہارت پیدا کی جاسکے۔ یہ کام پہلے قسم کے لوگوں کی نسبت آسان ہوگا۔
لوگوں کی تیسری قسم وہ ہے جن کا براہ راست سائنسی تحقیقات سے تعلق موجود ہو، ایسے لوگوں کے لیے چھوٹی چھوٹی ورکشاپس کا انعقاد کیا جانا چاہیے جس سے ان لوگوں میں سائنسی مضامین کو عام فہم زبان میں بیان اورتحریرکرنے کی صلاحیت پیدا کی جاسکے۔ ایسے افراد کے ساتھ کام کرنا دونوں قسم کے لوگوں کے مقابلے میں آسان اور زیادہ مو¿ثر ثابت ہوسکتا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ افراد سائنسی علوم میں مہارت اور تجربہ رکھنے والے ہوتے ہیں۔
جس طرح ہمارے سائنسی تحقیقی اداروں میں متعدد ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے اسی طرح کچھ ورکشاپس سائنسی صحافت پر بھی منعقد کی جانی چاہییںاور ان میں شرکت کرنے والے لوگوں میں اس رجحان کو فروغ دینا چاہیے کہ وہ اپنی فیلڈ سے منسلک مضامین، ملکی ضرورت کو مدنظر رکھ کر لکھنے سے اس کام کا آغاز کریں۔
ان تمام تجاویز پر عمل کرکے اس ملک میں سائنسی صحافت کو فروغ دیا جاسکتا ہے تاکہ ان کوششوں کی بدولت اس ملک میں کی جانے والی تحقیقات کو ملکی اور عالمی سطح پر اجاگر کیا جاسکے اور پاکستان میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں