سانحہ بلدیہ کیس، رحمان بھولا ، زبیر چریا کو 264مرتبہ سزائے موت کا حکم
انسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ بلدیہ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے ۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ رحمان بھولا اور زبیر چریا کو264 افراد کے قتل میں 264مرتبہ سزائے موت دی جائے
شیئر کریںانسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ بلدیہ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے ۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ رحمان بھولا اور زبیر چریا کو264 افراد کے قتل میں 264مرتبہ سزائے موت دی جائے۔مجرموں پر60 لوگوں کو زخمی کرنے کے جرم 10 ،10 سال قید اور 1 , 1 لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا گیا جبکہ کیس کے مفرور ملزم حماد صدیقی اور علی حسن قادری کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ۔عدالت نے حکم دیا کہ مفرور ملزمان جب بھی ملیں ان کو زندہ یہ مردہ حالت میں گرفتار کیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ بلدیہ کیس کا 270صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے ۔عدالت نے حکم دیا کہ 264 جابحق ہونے والے افراد کے مقتولین کے ورثا کواد کو 2 , 2 لاکھ روپے دیئے جائیں ۔عدالت نے مجرم عبدالرحمان اور زبیر چریا کو بھتہ خوری میں الزم 10 ، 10 سال قید اور 1 , 1 لاکھ جرمانہ عائد کیا ۔ملزمان شارخ، علی محمد ،فضل محمد، ارشد محمود کو زبیر چریا اور رحمان بھولا کو سہولت فراہم کرنے الزم میں 264 مرتبہ عمر قید سنا ئی گئی ۔چاروں ملزمان پر ہر جانے کے عوض 2,2 لاکھ جرمانہ بھی عائدکیا گیا ۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سہولت کاری فراہم کرنے والے چاروں ملزمان نے مرکزی ملزمان جنہوں نے پلاسٹک کے شاپر میں کیمیل کے ساتھ فیکٹری میں داخل ہونے میں مدد کی ،اس کیمیکل کے استعمال سے 264 جانوں کا نقصان ہوا ۔ملزمان لواحیقین کو 27,27لاکھ دیت ادا کریں گے ۔عدالت نے ضمانت پر رہا ملزم شاہ رخ ، علی محمد ، فضل محمد اور ارشد محمود کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے جیل بھجنے کا حکم دیا ۔تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ رؤف صدیقی ، حسن قادری ، ڈاکٹر عبدالستار اور ادیب خانم کے خلاف استغاثہ جرم ثابت نہیں کر سکالہذا چاروں ملزمان کو عدم ثبوت کے بنا پر رہا کیا جاتا ہے۔عدالت نے کیس کے مفرور ملزم حماد صدیقی اور علی حسن قادری کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ۔مفرور ملزمان جب بھی ملیں ان کو زندہ یہ مردہ حالت میں گرفتار کیا جائے ۔انسداد دہشت گردی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں رحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت جبکہ چارملزمان علی محمد، ارشد محمود، فضل اور شاہ رخ کو سہولت کاری کے الزام میں عمر قید کی سزا سنادی ہے۔منگل کوانسداد دہشت گردی عدالت میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی ،رحمان بھولا، زبیر چریا اور رئوف صدیقی سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے۔ عدالت نے 2ستمبرکوکیس کا محفوظ کیاگیافیصلہ سناتے ہوئے رحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنائی جبکہ رہنما ایم کیو ایم رئوف صدیقی سمیت 4ملزمان کو عدم شواہد کی بنا پر بری کردیا۔عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں دیگر 4 ملزمان علی محمد، ارشد محمود، فضل اور شاہ رخ کو سہولت کاری کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی جبکہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کا مرکزی ملزم حماد صدیقی مفرور ہے۔ بری ہونے والوں میں ادیب خانم، علی حسن قادری اور عبد الستار شامل ہیں۔انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 3 سال 7 ماہ بعد کارروائی مکمل ہونے پر 2 ستمبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 17 ستمبر کو سنایا جانا تھا تاہم عدالت نے فیصلہ سنائے بغیر سماعت 22 ستمبر تک موخر کردی تھی۔سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں عدالت نے رواں ماہ 2 ستمبر کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، مارچ 2015 میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی اور 5مارچ 2016 کو پروگریس رپورٹ پیش کی گئی جب کہ فروری 2017 میں ایم کیو ایم رہنما رئوف صدیقی، رحمان بھولا، زبیر چریا اور دیگر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ عدالت نے 2 ستمبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، کیس میں ملزمان زبیر چریا اور عبدالرحمن عرف بھولا کے خلاف 400 عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ بھی کیے گئے ہیں۔سانحہ بلدیہ ٹائون میں استغاثہ کی جانب سے دیئے گئے بیان کے مطابق 11ستمبر 2012 کو سائٹ ایریا میں واقع علی انٹر پرائزیز میں آگ لگائی گئی تھی جس کے نتیجے میں فیکٹری میں آگ لگنے سے 263 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، 8 سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک 23 لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔کیس میں اب تک 186 مرتبہ سماعت ہوچکی ہیں جبکہ کر کیس میں استغاثہ کی جانب سے 400 گواہ پیش کیے جا چکے ہیں ۔دوسری جانب فیکٹری مالکان نے دبئی سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں فیکٹری مالکان کی جانب سے ایم کیو ایم کی جانب سے 25 کروڑ روپے بھتہ طلب کرنے کی تصدیق کی گئی تھی۔ایف آئی اے حکام کے مطابق اس کیس میں سزا پانے والے ملزم رحمن بھولا کو انٹر پول کے ذریعے بنکاک سے گرفتار کیا گیا تھا، رحمان بھولا کو 2016 میں ایف آئی اے کاونٹر ٹیررزم ونگ نے گرفتار کروایا تھا ۔ایف آئی اے حکام کے مطابق رحمن بھولا گرفتاری سے قبل ملیشیا میں رہ رہا تھا، رحمن بولا گرفتاری کے وقت بنکاک سے ساوتھ افریقا فرار ہورہا تھا، ملزم کی اطلاع ایف آئی اے کاونٹر ٹیررزم ونگ نے انٹرپول نے دی تھی۔ایف آئی اے حکام کے مطابق انٹرپول نے اس اطلاع پر کارروائی کر کے ہوٹل سے رحمن بھولا کو گرفتار کیا گیا تھا، گرفتاری کے تین دن بعد رحمن بولا کو کراچی منتقل کیا تھا۔ایف آئی اے حکام کے مطابق سانحہ بلدیہ ٹائون میں کیس کے سماعت کے دوران ملزم رحمن بھولا نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012 کراچی کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اس دن بلدیہ ٹاون میں واقع ڈینم فیکٹری جل کر خاکستر ہو گئی تھی، بھڑکتے شعلوں نے روزی کمانے کی غرض سے گھروں سے نکلنے والے سیکڑوں ملازمین کو زد میں لے لیا تھا۔ ملازمین فیکٹری میں اپنے اپنے کام میں مصروف تھے کہ دن دیہاڑے ظالموں نے فیکٹری کو آگ لگادی، آگ پھیلنے سے فیکٹری میں بھگدڑ مچ گئی۔اس واقعے میں 259 افراد جھلس کر اور دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے تھے جبکہ تقریبا 50 افراد زخمی ہوئے تھے، بلدیہ ٹاون فیکٹری میں آتش زدگی کے واقعے کو 8 برس ہو چکے ہیں۔ابتدائی طور پر آتشزدگی کے اس واقعے کو حادثاتی قرار دیا گیا تھا لیکن بعد میں جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم نے اسے تخریب کاری قرار دیا اور تحریری رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری میں آگ لگائی گئی تھی۔مقدمے میں نامزد ملزم رحمن بھولا کو 2016 میں گرفتار کیا گیا تھا، ملزم نے پہلے جرم کا اعتراف کیا پھر اپنے بیان سے منحرف ہو گیا۔رحمن بھولا نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے حماد صدیقی کے کہنے پر ہی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگائی تھی لیکن بعد میں رحمن بھولا نے عدالت میں بیان دیا کہ پولیس نے عدالت میں پیش کر کے اس سے زبردستی بیان دلوایا۔سال 2020 میں سانحے کی جے آئی ٹی رپورٹ بھی منظرِ عام پر آ گئی، جی آئی ٹی رپورٹ کے مطابق واقعے کی ایف آئی آر ایک بڑے سانحے کے بجائے عام قتل کے کیس کی طرح درج کی گئی۔ دبائو کے زیرِ اثر پولیس نے بلدیہ فیکٹری سانحے کے کیس کو جانبدارانہ انداز میں چلایا۔بلدیہ فیکٹری کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی ساجد سدوزئی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مظلوموں کے ساتھ جو ظلم ہوا کوشش یہی تھی کہ انصاف ملے،ہماری کوشش رہی کہ نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو، خوشی ہے کہ کیس کا فیصلہ انصاف پر مبنی تھا، ہماری کوشش تھی کہ ہر پہلو پر بہتر تحقیقات کریں۔انہوں نے کہا کہ تمام کارروائی میں پراسیکیوشن اور مختلف ادارے شامل تھے، کیس میں تمام قانون نافذکرنے والے اداروں کی سپورٹ حاصل رہی۔فیکٹری مالکان کو ملزم نامزد نہ کرنا جے آئی ٹی کا فیصلہ تھا، پولیس انفرادی طور پر فیصلہ نہیں کرسکتی تھی۔جے آئی ٹی میں فیکٹری مالکان کو متاثرہ فریق قرار دیا گیا۔ایک سوال کہ جے آئی ٹی میں شامل افراد کو کیس کی چارج شیٹ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا کہ جواب میں انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اور لیگل قانونی طریقے کار میں فرق ہوتا ہے، کوشش کی کہ اصل ملزمان کو نامزد کرکے سزا دلوائی جائے۔