نیب نے ملک ریاض کے میگا اسکینڈل آئیکون ٹاؤر کو دفنانے کا انتظام کرلیا
شیئر کریں
(رپورٹ :اسلم شاہ) کراچی میں زمینوں پر قبضے کے خوفناک اسکینڈلز میں ملوث ملک ریاض کا دوسرا بڑا منصوبہ آئیکون ٹاؤرکا ریفرنس بھی احتساب بیورو میں قریب المرگ ہے۔ اس طرح ملک کی سب سے بڑ ی عدالت سپریم کورٹ کے نیب کے انداز وتیور اور طریقہ تفتیش پر اُٹھائے گئے سوالات نئے سرے سے جنم لینے والے ہیں۔ نیب نے اپنی کمزور تفتیش اور اس سے کہیں زیادہ کمزور ریفرنس کے ذریعے عملاً بدعنوانی کے اس میگا اسکینڈل کو دفنانے کا انتظام کردیا ہے۔ ملک کی سب سے بلند و بالا عمارت کے مرکزی ملزم ریاض ملک کے داماد زین ملک ( چیف ایگز یکٹو گلیکسی کنسٹرکشن کمپنی)کو پلی بارگین کے مقدمے سے باعزت بری کردیا گیا ہے ،اس ضمن میں مقدمہ میں ملوث دیگر ملزمان کے خلاف اب کارروائی میںتعطل پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔ ذرائع کے مطابق آئیکون کے خلاف تفتیشی افسر امیش چاؤلہ، انوسٹی گیشن آفیسر IW-Iنیب کراچی تھے لیکن کراچی سے کیس پراسرار طور پر راولپنڈی منتقل ہونے پر جوائنٹ انوسٹی گیش ٹیم کی تمام تفتیش اصغرخان کے سپردکردی گئی۔ نیب کراچی میں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے رفاہی پلاٹ 1081 اسکوائر یارڈ اور 2900اسکوائریارڈ ریونیوکے پلاٹس کی الاٹمنٹ کرنے والے تمام کرداروں کورپورٹ ریفرنس سے غائب کرنے کا انکشاف ہوا ہے ۔ سابق صدر آصف علی زرداری براہ راست یا بالواسطہ اس زمین کے مبینہ طور پر مالک تھے۔ ان کا ریفرنس میں سرے سے ذکر ہی نہیں ہے ،سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، موجودہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی، سابق ناظم کراچی سید مصطفی کمال،، سینئر بورڈ آف ریونیو سندھ سید انور حیدر ، سیکریٹری فنانس سندھ حسن نقوی ، ایڈ یشنل سیکریٹری فنانس سندھ ایس ایم طیب اور ایڈیشنل سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن سندھ محمد علی شاہ سمیت دیگر ڈی سی او کراچی، ریونیو کے افسران سمیت کئی نام ریفرنس میں موجود ہی نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے متوقع گرفتاری کے پیش نظراسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کرائی تھی،جبکہ اسلام آبا دہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہونے پر سجاد حسین عباسی،ای ڈی او ریونیو، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی،نیب میں گرفتاری کے بعد وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔ سینیٹر یوسف بلوچ گرفتاری کے بعد ضمانت پر ہے ، عبدالسبحان، سیکریٹری لینڈیوٹیلائزیشن بورڈ آف ریوینو سندھ گرفتار ہوئے ۔ لیاقت علی قائم خانی سابق ڈائریکٹر جنرل پارکس، جمیل بلوچ ڈائریکٹر اسٹیٹ گرفتار ی کے بعد اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ ان کی ضمانتوں کی درخواستیں بھی منسوخ ہوچکی ہیں، خواجہ شفیق احمد، سابق ایڈیشنل سیکریٹری بلدیات سندھ،سید محمد شاہ ڈسٹرکٹ آفیسر، پلاننگ اینڈ اربن ڈیپارٹمنٹ ماسٹر پلان کراچی،ڈنشا گلیکسی کنسٹرکشن لمیٹڈ، اسدزیدی بھی ضمانتوں پر ہیں۔ عتیق بیگ، ڈسٹرکٹ آفیسر ماسٹرپلان مفرور ملزم ہے ،آئیکون ٹاؤر کی زمین گلیکسی کنسٹرکشن کمپنی کے مالک محمد سلیم تھے۔ ان سے سابق صدر آصف علی زردای کے فرنٹ مین ڈنشا نے کمپنی خریدی اور1996ء میں اس زمین پر 15منزلہ فلیٹ بنانے کے منصوبے کی منظوری حاصل کر لی،مگرپیپلز پارٹی کی حکومت برطرف ہونے کے بعد منصوبہ روک دیا گیا تھا۔ سابق صد ر آصف زرداری کے دور (2008) میں بورڈ آف ریونیونے غیر قانونی طور پر 2769 اسکوائریارڈ،کلفٹن کوارٹرز کراچی کی زمین کی الاٹمنٹ دی اور دیگر زمینوں کو شامل کرکے بحریہ آئیکون ٹاور کی بنیاد رکھی اور جعل سازی کے ذریعہ پلاٹس نمبر پانچ اور چھ ،رہائشی کم کمرشل،9636اسکوائریارڈکو 17000اسکوائر یارڈ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ، 6000اسکوائر یارڈ کی زمین ابن قاسم پارک کی زمین بھی آئیکون ٹاور کا حصہ ہے۔ اس کا پورے مقدمہ میں ذکر ہی نہیں،زیر تعمیر ٹاور کے الاٹمنٹ میں مختلف اداروں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا لیکن نیب نے الاٹمنٹ کی سنگین بے قاعدگیوںکے باوجود اپنی تفتیش اور ریفرنس میں اس پہلو کو شامل ہی نہیں کیا ۔ قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ براہ راست کسی بھی ادارے یا اتھارٹی کے الاٹمنٹ کے اختیار کو 2006 میں ختم کردیا گیا تھا لیکن آصف زرداری کی ہدایت پر مفرور ملزم منظور احمدکاکاسابق ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آئیکون ٹاور کے معاملات دیکھ رہے تھے، ان کی ذاتی نگرانی میں زمین کی الاٹمنٹ، زمین کو یکجا کرنا اور اس کے نقشہ جات کی منظوری جیسے تمام امور دیکھے جارہے تھے۔ ان کا نام ہی آئیکون ٹاؤرریفرنس میں موجود نہیں ، نقشہ جات کے دوران ا سٹرکچرل، ڈیزائن، اور این او سی برائے خریدوفروخت کو کئی بار تبدیل کیا گیا ۔پہلے 39،49اور58اس کے بعد 59منزلہ کے ساتھ 7انڈرگراونڈ پارکنگ، بیسمنٹ 2 کوبھی اس میں شامل کیاجائے تو یہ مجموعی طور پر 68 منزلہ عمارت بن جاتی ہے۔ اس عمارت میں متعدد بار تبدیلیوں کی باربار اجازت کا بندو بست بھی منظورکاکا نے کیا تھا۔ آئیکون ٹاؤر سے قبل بحریہ ٹاون کراچی کا سب سے بڑا رہائشی منصوبہ ناکام ہوچکا ہے۔ منصوبے پر سپریم کورٹ نے سوال اٹھائے تھے اور کسی ڈیل کے نتیجے میں یہ اب بھی متنازع ہے ، اور آئندہ بھی اس کے متنازع رہنے کی توقع ہے۔ آئیکون ٹاور بھی ریفرنس دائر ہونے کے باوجود متنازع بن گیا ہے اور زین ملک کی پلی بارگین کے بعد پوری 68منزلہ بلند و بالا عمارت بھی متنازع رہے گی ۔ نیب کی تفتیش اور رپورٹ سے اندازا ہوگیا ہے کہ نیب کو کسی جرم کی سز ا دلانے سے زیادہ اپنے مفاد اور پلی بارگین میں دلچسپی ہے جس سے ادارے کے ساتھ افسران کے مالی مفاد ات بھی وابستہ ہوتے ہیں۔