کورونا: شرح اموات کم کی جا سکتی ہے
شیئر کریں
ایک لاکھ چالیس ہزار امریکیوں سمیت دنیا بھر میں چھ لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس کی نذر ہو چکے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جب موسم سرما میں لوگوں کی اکثریت گھروںمیں بند ہو جائے گی تو شرح اموات میں کمی واقع ہو گی۔ (امریکا میں) خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سال کے آخر تک دوسری جنگ عظیم کے دوران مرنے والے امریکیوں سے نصف کے قریب شہری کورونا کی وجہ سے موت کا شکار ہو جائیں گے۔ ہم ابھی تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اسے کیسے روکا جائے۔ ہر ریاست کوشش کر رہی ہے کہ کس حد تک لاک ڈائون نافذ کیا جائے اور ان کے گورنرز اپنے شہریوں سے کیا کچھ کروا سکتے ہیں۔
شکاگو یونیورسٹی کی ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر ایمیلی لینڈن کا کہنا ہے کہ ’’آپ غم کے پانچ مراحل سے تو آگاہ ہیں یعنی انکار، غصہ، سودے بازی، ڈپریشن اور قبولیت۔ میرے خیال میں امریکی شہریوں میں یہ پانچوں مراحل پائے جاتے ہیں مگر ملک کے مختلف حصے مختلف مراحل سے گزر رہے ہیں‘‘۔ جیسے جیسے اموات خصوصاً ادھیڑ عمر افراد کی اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیا ہم نے یہ تو نہیں سوچنا شروع کر دیا کہ ان کی قسمت میں یہی لکھا تھا؟
لگتا ہے کہ ا سٹاک مارکیٹ کو ان اموات کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ 2008-09ء کی کساد بازاری کے دوران سٹاک مارکیٹ کی قیمت پچاس فیصد گر گئی تھی اور اسے ریکور کرنے میں چار سال لگ گئے تھے۔ مارچ میں یہ صرف 34 فیصد نیچے گری اور پھر جلد ہی سنبھل گئی۔ وال سٹریٹ جرنل کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو بات سمجھ ا? جاتی ہے۔ زیادہ تر اموات ادھیڑ عمر افراد اور نرسنگ ہومز میں رہنے والوں کی ہوئی ہیں جو نہ زیادہ باہر سفر کرتے ہیں اور نہ باہر سے کھانا کھاتے ہیں۔ معیشت کو بھی ان کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اور یہ لوگ ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم اور سوشل سکیورٹی ٹرسٹ فنڈز پر بھی بوجھ تھے۔
کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ موت کو ایک حقیقت کے طور پرقبول کرنا ہماری نفسیات کا حصہ ہے مگر جدید ادویات کی بدولت ہم کئی نسلوں سے موت کی دسترس سے بڑی حد تک باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سب بلیک ڈیتھ اور اْس طاعون کے بارے میں سن چکے ہیں جس نے ایک تہائی انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا اور بہت سے ممالک کو اپنی تقدیرکو از سر نو لکھنا پڑا تھا۔ وہ سب وقت کے دھندلکے میں گم ہو چکے ہیں مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ہمارے آبائو اجداد اپنے ارد گرد موت کو ہر وقت محسوس کرتے تھے‘ وہ جس طرح محسوس کرتے تھے‘ ہم کبھی اس طرح نہیں جان سکتے۔
نیویارک سٹی کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ نے ایک چارٹ ترتیب دیا ہے جو 1805ء سے شہر میں ہونے والی اموات کی تفصیلات پر روشنی ڈالتا ہے۔ پہلی نظر میں تو یہ ڈائو جونز کے انڈیکس کی طرح اوپر نیچے جاتا لگتا ہے مگر جب ا?پ اسے زیادہ دیر تک دیکھتے ہیں تو آپ بہت زیادہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ مارچ سے پہلے جب کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہونا شروع نہ ہوا تھا‘ نیویارک شہر میں سالانہ شرح اموات 6افراد فی ایک ہزار تھی۔ وائرس کی پہلی لہر کے ساتھ ہی یہ شرح 8.5افراد فی ہزار ہوگئی مگر 1800ء سے 1850ء تک شہر میں پے درپے پھیلنے والی وبائوں کے نتیجے میں اموات میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس وقت شرح اموات 25افراد فی ہزار تھی جو کسی سال بڑھ کر 50افراد فی ہزار بھی ہو جاتی تھی۔ بدترین سالوں میں نیویارک میں مرنے والوں کی تعدا دوگنا ہوتی رہی ہے۔
سب سے زیادہ اموات 1832ء ، 1849 ء اور 1854ء میں پھیلنے والی ہیضے کی وبائوں کی وجہ سے ہوئیں مگر کئی دفعہ ایسے بھی ہوا کہ وبا اور زرد بخار، چیچک، خسرہ، خناق ، ٹایفس (ٹائیفائیڈ کی ایک قسم) اور سرخ بخار اکٹھے ہی تباہی مچا دیتے تھے۔ ہیضے اور ٹایفس کے علاوہ زیادہ تر بچوں کی بیماریاں پھیلتی تھیں جس سے بڑی عمرکے افراد بچ جاتے تھے کیونکہ انہیں یہ بیماریاں بچپن میں ہو چکی ہوتی تھیں۔
1860ء کے بعد شرح اموات کم ہونا شروع ہوگئی۔ نیویارک کے شہری اور ڈاکٹرز دونوں نے ہی بحث و تکرار چھوڑ دی تھی اور بنیادی امور پر ان میں اتفاق رائے قائم ہو گیا تھا۔ سب سے پہلے تو بیماری کے حوالے سے جراثیم کی تھیوری کو قبول کر لیا گیا کہ بیماری صرف کوڑے کرکٹ اور فضلے سے ہی نہیں پھیلتی۔ ایک صدی پہلے ہی امریکیوں نے یہ تھیوری بھی ترک کر دی تھی کہ بیماری خون، پیشاب اور پسینے کے عدم توازن کی وجہ سے پھیلتی ہے اور جسم سے خون کے اخراج اور پسینے کی مدد سے یہ توازن دوبارہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں اس بات پر بھی اتفاقِ رائے قائم ہو گیا کہ تارکین وطن خواہ اپنے ساتھ کوئی بیماری لائے تھے یا وہ بھی کسی بیماری کا شکار ہوئے ہیں‘ جب تک ہر کوئی محفوط نہیں ہو جاتا، کوئی فرد بھی بیماری سے محفوظ نہیں ہے۔
چنانچہ انہوں نے صحت عامہ کو ایک عالمی سہولت بنا دیا۔ چنانچہ نیویارک کے شہریوں نے کئی ایک اقدامات کیے جن میں سے کچھ تو بہت مہنگے اور متنازع بھی تھے مگر سب سائنس کی بنیادوں پر استوار تھے۔ انہوں نے شہر کی غلاظت کو سڑک کنارے قائم گڑھوں کے بجائے سیوریج کھود کر اسے دریائے ہڈسن اور ایسٹ ریور میں پھینکنا شروع کر دیا۔ 1842ء میں انہوں نے مین ہیٹن کو تازہ پانی کی سپلائی کے لیے زمین دوز کروٹن نہر بنائی۔ 1910ء میں انہوں نے پانی کے جراثیم مارنے کے لیے ا س میں کلورین استعمال کرنا شرو ع کر دی۔ 1912ء میں انہوں نے ڈیریز کو پابند کر دیا کہ وہ اپنا دودھ خاص درجہ حرارت تک گرم کر نے کے بعد فروخت کریں کیونکہ ایک فرانسیسی سائنس دان لوئی پاسچر نے ثابت کیا تھا کہ دودھ کو گرم کرنے سے بچے تپ دق کی بیماری سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے چیچک کی ویکسین لگوانا بھی لازمی قرار دے دیا۔
اگرچہ آزادی پسندوں نے تقریباً ہر قدم پر اس کی مخالفت کی۔ کچھ نے اس وجہ سے بھی مخالفت کی کیونکہ پانی اور سیوریج کے پائپ ان کی زمینوں میں سے گزرتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ ان کے پاس پانی کے بہترین کنویں اور تالاب موجود ہیں۔ کئی ایک نے چیچک کی ویکسین لگانے سے انکار کر دیا حتیٰ کہ سپریم کورٹ کو 1905ئ میں Jacobson V Massachusetts مقدمے میں اس کیس کا فیصلہ کرنا پڑا۔
1918ء میں جب ہسپانوی فلو کی وبا پھیلی تو نیویارک کے شہریوں نے تو اپنے چہرے پر ماسک پہننا شرو ع کر دیے تھے مگر سان فرانسسکو کے چار ہزار شہریوں نے ماسک مخالف لیگ قائم کر لی۔ (شہر کے میئر جیمز رالف کو اپنے ہی محکمہ صحت کے ماسک کے بارے میں حکم کی خلاف ورزی کرنے پر پچاس ڈالر جرمانہ کیا گیا تھا) رفتہ رفتہ سائنسی طریقہ کار کا استعمال بڑھتا گیا اور شرح اموات میںکمی آتی گئی۔
آج نیویارک کے شہریوں کو ایک بار پھر اسی غیر یقینی کا سامنا ہے جس کا سامنا ان کے آبائو اجداد کو کرنا پڑا تھا۔ ہم سائنس دانوں کی بات سن کر رقم خرچ کرکے انسانی زندگیاں بچاسکتے ہیں یا ہم اپنے ہمسائے کو مرتا ہو ا دیکھ سکتے ہیں۔ عنقریب ہمیں کوئی ویکسین دستیاب ہو سکتی ہے یا اسی طرح کے کئی طریقہ علاج بھی آ سکتے ہیں جیسا کہ مونو کلونل اینٹی باڈیز جن کی مدد سے شرح اموات میں بہت زیادہ کمی آ جائے گی۔ ہمیں موت کے سامنے ہتھیار نہیں پھینکنے چاہئیں بلکہ ہم تاخیری حربے استعمال کر کے اسے شکست دینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔