احتساب تیز ہوتا ہے، اپوزیشن اکٹھی ہو جاتی ہے، شبلی فراز
شیئر کریں
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان بیچارا اخبار میں تصویر شائع ہونے کے لیے اے پی سی کر رہا ہے ۔ جب بھی احتساب تیز ہوتا ہے اپوزیشن والے اکٹھے ہونے لگتے ہیں ۔ اپوزیشن کا اکٹھے ہونے کا مقصد عمران خان پر دباؤ ڈالنا ہے کیونکہ اپوزیشن والے براہ راست مستفید ہوتے رہے ہیں ۔ ان کو معلوم ہے شفافیت آنے پر یہ جیلوں میں ہوں گے ۔ ایسی حکومت آئی ہے جو ان سے حساب لے گی ۔ ان کو نہیں چھوڑے گی ۔ یہ کبھی اب حکومتوں میں نہیں آئیں گے ۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران ملک میں سرکاری خریداری کے دوران دو سے تین کھرب روپے کی زائداضافی ادائیگیاں کی گئیں نجی شعبہ کے برعکس سرکاری چیزیں مہنگی اور بھاری قیمت پر خریدی جاتی رہیں۔اے جی پی آر میں مکمل طور پر اصلاحات ہوں گی سولہ سال قبل خریدا گیا برقی نظام بھی فعال نہ کیا گیا اب ایک ہفتہ میں آن لائن کسی بھی بل کی ادائیگی ہوگی بدقسمتی سے اس ملک میں سرکاری ملازمین کی کرپشن کے پیسے کی قیمت حکومت ادا کرتی رہی ٹی اے،ڈی اے ،میڈیکل بلز جعلی بنتے رہے اس ادارے کی خرابیاں دوسرے اداروں میں سراہیت کر گئیں۔وزیراعظم کو سفارشات ارسال کر رہے ہیں ایف آئی اے ،اے جی پی آر کے ملازمین کے اثاثوں کی جانچ پڑتال اور تفصیلات جمع کریگی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو چیئرمین وزیراعظم معائنہ کمیشن حامد یار ہراج کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔معائنہ کمیشن چوبیس مقدمات میں جانچ پڑتال مکمل کر چکا ہے۔سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ادارے کو دانستہ طور پر مفلوج کر دیا گیا تھا ۔ ایسی قباحتیں ڈالی گئی قانون کی خلاف ورزیاں کی گئیں ۔ ایسی قباحتیں بھی تھیں جو ان لکھا قانون بنتا نظر آیا ۔ حکومت نے اداروں کے استحکام کا فیصلہ کیا ۔ اپوزیشن ہوئی ۔ روڑے اٹکائے گئے ۔ نیپرا ، پی آئی اے ، پیمرا سمیت اہم اداروں کو فعال کرنا اہم ہے ۔ اے جی پی آر بھی اہم ادارہ ہے ۔ اضلاع کی حد تک اسکی نمائندگی ہوتی ہے ۔ خریداریوں پر عملدرآمد کا ذمہ دار ادارہ ہے ۔ انفرادی کی بجائے سرکاری خریداریوں میں نرخ کئی گنا زیادہ ہیں۔ ایک کھرب کی وفاقی حکومت نے خریداریاں کیں ۔ ہمارے اندازے کے مطابق ڈیڑھ سو سے پونے دو سو ارب زیادہ دئیے گئے ۔ گیس کمپنیاں اس میں شامل نہ ہیں ۔ صوبائی خریداریوں کا بھی اندازہ لگا لیں ایک کھرب کا تو پاکستان کے عوام کی جیبوں سے سرکاری خریداریوں میں 300 ارب زیادہ خرچ ہوئے ہیں ۔ دس سالوں میں یعنی تین سے چار کھرب روپے خریداریوں میں اضافی دئیے گئے ۔ کرپشن بھی شامل ہے ۔ پیسے بنانے میں سسٹم کو حصہ دار بنا لیا جاتا ہے ۔ مثلاً 100 ارب کی چیز 200 روپے میں خریدی جاتی رہی ۔ وزیر اعظم عمران خان کا نہ کوئی کاروبار ہے نہ کوئی ذاتی مفاد ۔ اس لیے وہ عوامی ٹیکسوں کا تحفظ چاہتے ہیں ۔ آئندہ ایسی سرکاری خریداریاں نہ ہوں گی ۔ 20 ماہ میں ان مسائل پر اصلاحات وہ نہ ہو سکیں جو 40 سال یا 72 سال سے جڑیں پکڑ چکی ہے ۔ 3 ماہ میں مزید شفافیت نظر آئے گی ۔