میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جج کا احتساب صرف قانون کے مطابق ہوسکتا ہے ،سپریم کورٹ

جج کا احتساب صرف قانون کے مطابق ہوسکتا ہے ،سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
هفته, ۱۳ جون ۲۰۲۰

شیئر کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ جمپ کیسے لے لیا کہ خاوند سپریم کورٹ کا جج ہے تو وہی جائیداد کا بتائیگا،کسی نے کہا جج کا احتساب نہیں ہوسکتا،جج کا احتساب صرف قانون کے مطابق ہی ہوسکتا ہے،سپریم کورٹ کے جج کا بھی احتساب ہوسکتا ہے،معاملہ قانون کے مطابق بہت آسان ہے، اگر قانون میں جوابدہی ہے تو وہ جواب دیں گے۔سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کی ، دور ان سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے حکومتی وکیل فروغ سے مکالمہ کر تے ہوئے کہاکہ صرف ایک بات بتا دیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں یا نہیں،اگر ٹیکس رٹرنز جمع نہیں کراتی تو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ خود کفیل کیسے ہیں؟ فروغ نسیم نے کہاکہ میری معلومات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کرواتی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ٹیکس قانون تو تمام شہریوں کیلئے ہیں۔ فروغ نسیم نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹیکس سے متعلق کارروائی نہیں ہوتی۔ فروغ نسیم نے قرآنی آیت کا حوالہ دیا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ فروغ نسیم صاحب اس آیت کا شان نزول بھی بتا دیں،آپکو پتا ہی نہیں یہ آیت کیوں نازل ہوئی؟۔ جسٹس قاضی امین نے کہاکہ آپ ہمیں خطرناک صورتحال میں دھکیل رہے ہیں یہ آیت کیس سے متعلقہ نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا پاکستان میں بطور شہری خواتین کے حقوق نہیں،کیا خواتین پاکستان میں علیحدہ جائیداد نہیں خرید سکتیں،یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ خواتین سے ٹیکس کا نہیں پوچھا جائیگا۔ انہوںنے کہاکہ یہ جمپ کیسے لے لیا کہ خاوند سپریم کورٹ کا جج ہے تو وہی جائیداد کا بتائیگا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا خاتون جج کا خاوند پنشن نہیں لے سکتا۔ فروغ نسیم نے مکہاکہ قانون میں جج کا لفظ دیا گیا جس سے مراد مرد اور خاتون دونوں جج ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ جج کا احتساب نہیں ہوسکتا،جج کا احتساب صرف قانون کے مطابق ہی ہوسکتا ہے،سپریم کورٹ کے جج کا بھی احتساب ہوسکتا ہے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ کبھی نہیں کہا کہ جج احتساب کو نہیں مانتے،آرٹیکل 209 کے تحت کاروائی ڈسپلنری ہوتی ہے ٹیکس کی نہیں، جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ 15 منٹ گزر چکے ہیں ہیں فروغ نسیم اپنے دلائل جاری رکھیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ قرآن پاک میں اثاثوں کے بارے میں کہا گیا ہے، قرآن پاک میں امانت کو بھی اختیارات کہا گیا ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ کیا قرآن پاک سے دئے گئے حوالے غیر مسلم ججز پر بھی لاگو ہونگے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ معاملہ قانون کے مطابق بہت آسان ہے، اگر قانون میں جوابدہی ہے تو وہ جواب دیں گے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ قانون کے مطابق کارووائی تو شروع کر دی گئی۔ فروغ نسیم نے کہاکہ ٹیکس کا قانون ریفرنس کے نقاط میں سے ایک نکتہ ہے، جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ جب آپ ثابت کریں گے کہ یہ جائیدادیں جسٹس قاضی عیسیٰ کی آمدن سے ہیں پھر منی ٹریل کا سوال ہوگا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ میاں بیوی کا تعلق اور رشتہ تو ہمیں معلوم ہے، اس کیس میں آپ نے بیگم کے مالی معاملات کا تعلق جج صاحب سے ثابت کرنا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ فروغ نسیم صاحب آپ ہمارے سوالات کی تعریف کرتے ہیں لیکن جواب نہیں آتا۔ فروغ نسیم نے کہاکہ میں سائل ہوں صرف گزارش کر سکتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ برطانیہ میں جج کی اہلیہ کے بار کو خط لکھنے پر جج کو جانا پڑا، برطانوی جج جبراٹر کے معاملے میں تو معمولی سی بات پر جج نے استعفیٰ دے دیا، یہاں پر تو کروڑوں کی جائیدادیں ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ کیا ریفرنس فائل کرنے سے پہلے کسی نے جج یا انکی اہلیہ سے جائیدادوں بارے پوچھا، فروغ نسیم نے کہاکہ جج سے جائیدادوں کا پوچھنے کیلئے مناسب فورم کونسل ہے، سپریم جوڈیشل کونسل جائداد کا یہی تو پوچھ رہی ہے، آئندہ سماعت پر بدنیتی اور اے آر یو پر دلائل دوں گا۔ فروغ نسیم نے کہاکہ شواہد اکٹھے کرنا اور جاسوسی کے نکتہ نظر پر بھی دلائل دوں گا۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ آئندہ سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے ہوگی، کچھ ججز ممکن ہیں اسلام آباد میں موجود نہ ہوں۔ بعد ازاں کیس کی سماعت پیر کی صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں