عقیدہ ختمِ نبوت پہ سیاست نہ کریں۔
شیئر کریں
بہتان تراشی کو اسلام میں انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اگر یہ کام کسی رکن اسمبلی کی جانب سے ہو تو معاملہ اور بھی گھمبیر شکل اختیار کرجاتا ہے۔ رکن اسمبلی کا منصب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ سنی سنائی بات آگے بڑھائے۔ بلاتحقیق بات کا بتنگڑ بنائے ایسا ہی ایک معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ن لیگ سے تعلق رکھنے والے رکن پنجاب اسمبلی سمیع اللہ خان نے ایک قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرائی۔ سمیع اللہ خان ایک سینئر سیاستدان ہیں وہ پیپلزپارٹی جیسی جماعت میں طویل عرصہ رہے ہیں اب اپنی بیگم عظمیٰ بخاری سمیت ن لیگ میں ہیں۔ دونوں اس وقت ن لیگ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ سمیع اللہ خان کی جانب سے جمع کرائی گئی قرارداد میں ا سپیکر پنجاب اسمبلی اور ایوان کو بتایا گیا کہ نویں جماعت کی مطالعہ پاکستان کی نئی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کیا گیا۔ نئی کتاب میں آخری نبی کا لفظ نکال دیا گیا ہے۔ اس کی جگہ لکھا گیا ہے کہ قرآن اور اسوہ رسول کو سرچشمہ ہدایت ماننا عقیدہ رسالت کا لازمی تقاضہ کرتا ہے۔ قرارداد میں مزید لکھتے ہیں کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کو پس پشت ڈالنے کی سازش ہے کوئی بھی سچا مسلمان عقیدہ ختم نبوت پہ سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ رکن اسمبلی نے پرانی کتاب کی بحالی اور اس موضوع پر ایوان میں بحث کا مطالبہ کیا۔
سمیع اللہ خان کی قرارداد نے بھونچال پیدا کردیا خصوصاً سوشل میڈیا پر موجودہ حکومت اور وزیرِ تعلیم پنجاب مراد راس کو قادیانی اور نجانے کیا کیا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہاہے۔ یہ بات ان دنوں میں سامنے آئی جب اقلیتی کمیشن میں وفاقی حکومت کی جانب سے قادیانی کو ممبر نامزد کرنے کی بات ہورہی تھی۔ لوگوں نے دونوں باتوں کو ملاکے ایسا زلزلہ پیدا کیا کہ لگتا ہے سب کچھ الٹ پلٹ جائے گا۔ حضور اکرم کی ذات کے حوالے سے مسلمان بہت حساس ہیں اور ہونا بھی چاہیے کہ جس ہستی کے لیے اللہ تعالیٰ نے کائنات تخلیق کی۔ نبیوں کی سرداری عطا کی اس ہستی کے بارے میں کوئی گستاخی کرے یا عقیدہ ختم نبوت پہ شک کرے وہ بھی اس ملک میں جس کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ پر رکھی گئی۔ لوگوں کا جذباتی ہونا فطری تھا وہ اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن جنہیں اللہ پاک نے کوئی منصب عطا کیا ہو وہ اگر عام لوگوں کی "بھیڑ” میں گھس جائیں گے تو پھر عام آدمی کو صحیح راستہ کون دکھائے گا۔ سمیع اللہ خان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا البتہ ان کو انسان ہونے کا مارجن دیا جاسکتا ہے۔ انسان چاہے کتنا بھی بڑا ہے اس سے غلطی کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے سمیع اللہ خان سے بھی غلطی ہوگئی ہے۔ میں ایک عرصہ سے پنجاب اسمبلی کی کوریج کرتا آرہا ہوں وہاں قرارداد یا توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرنے کا اس قدر فرسودہ نظام ہے کہ اللہ کی پناہ۔ اکثر ایم پی ایز نے یہ ذمہ داری میڈیا کے دوستوں کو دے رکھی ہے جو روزانہ اخبارات یا ٹی وی چینلز دیکھ کر قرارداد یا توجہ دلاؤ نوٹس متعلقہ رکن اسمبلی کی جانب سے پیش کرتے ہیں اور پھر اگلے ہی لمحے اپنے ادارے کے علاوہ دیگر صحافتی اداروں کو بھیج دیتے ہیں جو فوری طور پر ٹی وی چینلز میں ٹکر یا بریکنگ نیوز اور اگلے دن کے اخبارات کی زینت بن جاتی ہیں۔ میرا گمان ہے کہ مطالعہ پاکستان میں نبیﷺکے حوالے سے جس ترمیم کے خلاف قرارداد پیش کی گئی اس میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہوگا۔ مجھے لگتا ہے سمیع اللہ خان کو تو بتایا بھی بعد میں گیا ہوگا یا یہ بھی ہوسکتاہے انہیں بھی اس بات کا پتہ میڈیا سے ہی لگا ہو کہ ان کے نام سے کوئی قرارداد پیش کی گئی ہے۔ جب یہ معاملہ سامنے آیا تو پنجاب کریکلم اتھارٹی کے ایم ڈی رائے منظور ناصر متحرک ہوئے انہوں نے نہ صرف اپنے ادارے کی جانب سے وضاحت جاری کی بلکہ ایک ویڈیو بیان میں ساری بات بھی کہہ دی۔ رائے منظور ناصر نے بتایا کہ یہ واقعہ گزشتہ سال مئی میں پیش آیا تھا جب ایک پبلشر نے حضور اکرم کو آخری نبی کی جگہ سرچشمہ ہدایت ماننا عقیدہ رسالت کا لازمی تقاضہ کرتا ہے۔۔۔۔ لکھ اور چھاپ دیا تھا جس پر حکومت پنجاب خاص طور پر وزیرِ تعلیم پنجاب مراد راس نے ایکشن لیا اور نہ صرف یہ کتاب ضبط کی بلکہ پبلشر کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے۔ رائے منظور کے بقول وہ کتاب ضبط کرکے ضائع کی جاچکی ہے اس سال کی کتاب میں حضور اکرم کو خاتم النبیین لکھا گیا ہے اس لیے اس کتاب کو بلاوجہ موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ رائے منظور ناصر نے مطالعہ پاکستان کی نئی کتاب بھی دکھائی ہے جس میں واضع طور پر لکھا گیا ہے کہ حضرت محمد کو آخری نبی تسلیم کرنا عقیدہ رسالت کا لازمی جزو ہے۔
قارئین کرام ! میں رائے منظور ناصر کی اس وضاحت سے پوری طرح مطمئن ہوں ان کی وضاحت کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ پنجاب کریکلم اتھارٹی۔ محکمہ تعلیم۔ وزیرِ تعلیم پنجاب۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور حکومت پنجاب پر کوئی شک کیا جائے۔ میں رائے منظور ناصر کو ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ سچے۔ پکے اور کھرے مسلمان ہیں ان کے ہوتے ہوئے کسی کی کیا مجال کہ وہ نصاب سے اسلامی شکیں نکال سکے۔ سمیع اللہ خان صاحب سے بھی درخواست ہے وہ اپنی طرف سے جمع کرائی گئی یہ حساس نوعیت کی قرارداد واپس لیں اور آئندہ کے لیے اپنے کوارڈینیٹر یا میڈیا ایڈوائزر کو پابند کریں کہ وہ حساس معاملات سے دور رہے اگر ان کے نوٹس میں ایسا کوئی معاملہ آئے تو پہلے اس کی تحقیق کریں پھر اگلا قدم اٹھائیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی بھی قرارداد یا توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرانے کے لیے رکن اسمبلی کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا پابند کریں۔ ایسے حساس معاملات ملک میں آگ بھڑکا سکتے ہیں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اور معمولی سی کوتاہی پورا گلشن جلا دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔