چین اسلام کی جگہ مغرب کا نیا دشمن؟
شیئر کریں
کیا اسلام کی جگہ اب چین مغرب میں ایک مستقل دشمن قرار پائے گا؟یہ سوال ان دنوں مغربی مفکرین کے مباحث میں مختلف زاویوں سے اُبھر رہا ہے۔
ایک چوتھائی صدی قبل امریکی ماہرِ سیاسیاست سیموئل ہنٹنگٹن نے اپنی مشہور کتاب ”تہذیبوں کا تصادم“ تحریر کی۔ اس کتاب نے سلسلہ وار جنگوں کے ایک نئے رجحان کو تقویت دی۔ ہنٹنگٹن یہ کتاب ایک ایسے وقت میں تحریر کررہا تھا، جب دیوارِ برلن ڈھ پڑی تھی، آنجہانی سوویٹ یونین افغانستان میں ہانپ رہا تھا، اوراس کی مغرب کے ساتھ سرد جنگ اختتام پزیر ہورہی تھی۔ یہ وقت عالمی امن کے لیے سازگار تھا، اگر اس کی ذرا بھی کوشش کی جاتی۔ مگر تب ہنٹنگٹن اسلام اور مغرب کے درمیان ایک غیر مصالحانہ نئی کشمکش کی پیش گوئی کررہا تھا۔ اُس نے ایک عجیب منطق باندھی،نظریہ سے زیادہ آپ کی شناخت اہم ہے۔وہ کہتا ہے، اگر آپ سے یہ سوال ہو کہ آپ کون ہے؟ تو بوسنیا سے لے کر سوڈان تک اس کا غلط جواب آپ کی کھوپڑی کھول سکتا ہے۔ پھر اس نے ایک خطرناک موقف اختیار کیا تھا۔”اسلام کی سرحدیں خونی ہیں“۔سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اورسابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی قبیل کے مغربی سیاست دانوں نے ہنٹنگٹن کے راستے کی پیروی کی۔ مغرب کے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ (جسے ایم ایس ایم کہتے ہیں) نے مسلمانوں کے خلاف محاذ سنبھال لیا۔ اُنہیں دہشت گرد،انتہا پسند، بنیاد پرست اور قانون شکن کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ یہاں تک کہ مغربی ممالک کے عوام کو باور کرادیا گیا کہ اسلام دنیا کے لیے سب سے بڑااور زندہ خطرہ ہے۔ اس سے مغربی ممالک میں دو لہروں نے ایک دوسرے کے ساتھ جنم لیا۔ پہلی لہر اسلامو فوبیا کی تھی۔ دوسری لہرنے یورپ میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو جنم دینا شروع کیا۔ اگر چہ ہنٹنگٹن کا نظریہ متعدد جنگوں اور کروڑوں جانوں کو ہڑپنے کے بعد اب اپنی بنیادوں سے لرزنے لگا ہے۔ تاہم اس کے سنگین سائے اب بھی مسلم ممالک پر مغربی ممالک کی مسلط کردہ جنگوں میں لہرا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ اسلام مغربی ممالک کے لیے اب اولین دشمن کی ترجیح سے نیچے لڑھک رہا ہے اور چین دشمن نمبر ایک بننے جارہا ہے۔ اس میں ہمارے لیے غوروفکر اورعمل ویافت کے بہت سے امکانات پوشیدہ ہیں۔
اسلام اور مغرب کے درمیان عادتوں تک میں موجود خطرناک عداوت ختم ہونے کا امکان کوئی مفروضہ نہیں۔ کیونکہ کورونا وبا کے انجام میں چین سے خطرناک دشمنی کا آغاز انگڑائی لے رہا ہے۔ برطانیا کی اسلام کے خلاف تاریخی عداوت اب مدہم پڑچکی ہے۔ مسلمان اس معاشرے کا ایک جزولاینفک بن چکے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ برطانوی فیصلہ ساز اداروں بشمول پارلیمان کا ایک حصہ ہیں۔ کورونا وبا کے ہنگام میں پہلے جن چار ڈاکٹرز نے اپنی جانیں قربان کیں، وہ سب کے سب مسلمان تھے۔ یہ پہلو پروپیگنڈے سے مغلوب عوامی رجحانات کو تبدیل کرنے میں نہایت سازگار رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورونا وبا نے ایک نئی عالمی جغرافیائی سیاست (جیو پالیٹکس) کی راہ ہموار کی ہے۔ جس کی جانب ایک پہلو سے امریکی سفارت کاری کے معماروں میں شامل ہنری کسنجر نے یہ کہہ کر توجہ دلائی ہے کہ امریکا کو کورونا وبا کے بعد نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل پر ابھی سے توجہ دینی چاہئے۔ مگر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں ایک نیا دشمن درکار ہے، جو چین کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
مغرب اِن دنوں چین کو ہو بہو اُسی طرح دشمن کے طور پر پیش کررہا جیسے آج سے پچیس سال قبل ٹھیک اسلام کو پیش کیا جارہا تھا۔اسلام کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرنے کے لیے چوتھائی صدی قبل جو مغربی اخبارات، کالم نگار، ٹھنک ٹینک، انٹیلی جنس ایجنسیز اور سیاسی جماعتیں فعال کی گئی تھیں، ٹھیک وہی لوگ دلچسپ طور پر اب چین کے خلاف بروئے کار ہیں۔ ہنٹنگٹن کی کتاب کے بعد مسلمانوں کو بنیاد پرست قرار دیتے ہوئے اُن پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی تھی۔ اب امریکا نے اپنی کامل توجہ مشرقِ بعید پر مبذول کرلی ہے۔ اور یہ بلاوجہ نہیں۔نمونہ اور پروپیگنڈا وہی ہے۔ یاد کیجیے!امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہی جماعت کے اُن کے پیشرو بش نے 2003ء میں عراق کو ”برائی کا محور“ (axis of evil)قرار دیا تھا۔ مسلمانوں کے خلاف زباں دراز ٹرمپ نے اُسی راستے پر اب چین کو نشانا بنانا شروع کردیا ہے۔ ٹرمپ نے2016 ء میں اپنی انتخابی مہم میں چین کو امریکی معیشت کے ساتھ”زنا بالجبر“کا ذمہ دارقرار دیا تھا۔ اب حملے زیادہ تیز، اقدامات زیادہ بھرپور اور زبانیں زیادہ سخت کی جارہی ہیں۔ امریکی صدر کورونا وائرس کو چینی وائرس قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے چین پر ہلاکتوں کو چھپانے اور جھوٹ بولنے کے الزامات بھی باربار دُہرائے ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر ابھی اپنی انتخابی مہم کے اندر نہیں اُترے ہیں۔ مگر اُنہوں نے گزشتہ روز ایک خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا کہ چین نے اُنہیں نومبر میں صدارتی انتخابات میں شکست دلوانے کے لیے کورونا وائرس کو بے قابو ہونے دیا۔
ہمیں امریکا اور برطانیا پر دھیان دینا چاہئے۔ وہ اپنی آنکھیں کہاں کہاں گھما رہے ہیں۔ ہدف وہیں ملے گا۔ امریکی صدر نے چین کے خلاف صرف بیانات نہیں دیے، بلکہ وہ مختلف اقدامات اُٹھانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اُنہوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے امدادی رقم روک دی، اور اس کا سبب یہ قرار دیا کہ عالمی ادارہ صحت سب سے زیادہ امداد امریکا سے لیتا ہے، مگر چین کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے۔امریکی صدر نے ایک دوسرے موقع پر یہ اعلان بھی کیا کہ اُن کا یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہوگا۔ اس دوران میں اُن برطانوی اخبارات کا مطالعہ دلچسپ تبدیلیوں کا پتہ دیتا ہے جو ماضی میں ہمیشہ مسلم دشمنی میں سرگرم رہے۔ اب اُن کی تنقید کا محور اسلام یا مسلمان نہیں، بلکہ سیدھا چین ہے۔ برطانوی اخبار”دی سن“ کی مثال لیں!اسی نے 2003ء میں عراق پر حملے کے لیے سب سے تیز ڈھول بجائے تھے۔ اب چین کے خلاف مختلف کہانیوں کو چھاپ رہا ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی میں اخبار نے لکھا ہے کہ چین نے اپنی معمل گاہ میں یہ وائرس دانستہ تیار کیا ہے، تاکہ یہ ثابت کرسکے کہ وہ مہلک اور جان لیوا بیماریوں کو قابو کرنے کے لیے امریکا پر برتری رکھتا ہے۔ آپ کو برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی سکس کا کردار بھی یاد ہوگا،جس نے ٹونی بلیئر کے لیے عراق پر حملے کا مقدمہ بنانے کے لیے ایک ایسے بدنام زمانہ پلندے (ڈوزیئر) کو تیار کرنے میں مدد دی تھی جس سے عراق کے خلاف”بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں“(WMD) کے پروپیگنڈے کو تقویت ملتی تھی۔ اب اُسی ایجنسی کے سابق سربراہ سر جان ساورز ٹرمپ کی حمایت اور چین کے خلاف بولتے ہوئے بی بی سی کے پروگرامات میں نظر آرہے ہیں۔ برطانیا بعض حوالوں سے ایک روایت پرست ملک کہا جاتا ہے۔ اور روایتاً وہاں کے سابق جاسوسوں کی اس طرح کی گفتگو کو اُن کے سابقہ اداروں میں موجودنقطہئ نظر کا ہی نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سب کیا چل رہا ہے۔برطانیا کے موجودہ سیکریٹری خارجہ ڈومینک راب نے (بورس جانسن کی کورونا بیماری کے ایام میں)بطور قائم مقام وزیراعظم یہ کہا تھا کہ ”بلا شبہ کورونا وبا کے بعد اب چین کے ساتھ معمول کے مطابق کاروبار نہیں چلے گا“۔یہ وقت سینئر کالم نویس میلانیا فلپس کی تحریروں پر بھی خاص توجہ دینے کا ہے۔ یہ وہی خاتون ہے جو ماضی میں نام نہاد بنیاد پرستی اور اسلام کے خلاف مسلسل تنقید کرتی رہی ہے۔ اب اُن کا بھی موضوع چین ہے۔ آپ خاتون کے 6/ اپریل کوٹائمز میں چھپے مضمون کا عنوان ہی ملاحظہ فرما لیں۔مغرب چین سے اپنی آنکھیں مزید بند نہیں کرسکتا۔
(West can no longer turn a blind eye to China)
ہنری جیکسن سوسائٹی(ایچ جے ایس)اسلام کی مستقل نقادوں میں سے ایک رہی ہے،اب چین پر حملہ آور ہے۔ اس کے ایک سروے میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسی فیصد سے زائد برطانوی یہ چاہتے ہیں کہ بورس جانس کورونا وائرس کے حوالے سے چین کے خلاف عالمی تحقیقات کے لیے زور دیں۔ اسی کی ایک رپورٹ یہ اصرار کرتی ہے کہ برطانیا کو عالمی عدالت میں چین کے خلاف کورونا وبا پھیلانے پر437 بلین ڈالرز ہرجانے کے مقدمے کی پیروی کرنی چاہئے۔ یہ محض چند مثالیں ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ چین مخالف رجحان سے بھرے پڑے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ یہ وہی ذرائع ابلاغ، کالمسٹ، تھنک ٹینک اور مختلف سیاسی جماعتیں ہیں جو اس سے قبل اسلام کو ایک خطرہ بنا کر گزشتہ کئی دہائیوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں جھونک چکی ہیں۔ اس ضمن میں گیٹ اسٹون انسٹی ٹیوٹ کا موازنہ سب سے زیادہ توجہ کا دامن کھینچتا ہے جس نے براہِ راست اسلام اور چین کے درمیان زیادہ بڑے خطرے کا موازنہ کیا ہے۔ اسلام کے خلاف سب سے زیادہ متحرک نیو کانز پر بھی ایک نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ جو چین کو ایک نئے دشمن کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چین اب براہ راست آنجہانی سوویٹ یونین کی جگہ مغرب کا اعلانیہ دشمن قرار پائے۔ فضاء اس کے لیے مکمل ہموار کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے کوروناوبا کو مغرب کے خلاف ایک نئے نائن الیون سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
یاد رکھیں! ہنٹنگٹن نے اسلام کے علاوہ چین کو مغرب کا سب سے طویل مدتی خطرہ قرار دیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ مغربی ممالک کے لیے چین بطور دشمن اولین ترجیح قرار پانے لگے۔ اس صورت میں مختلف مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے مسلمانوں کو کچھ عرصہ سستانے کا موقع مل سکتا ہے۔اس خاکسار کا خیال ہے کہ شاید نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔