روس پر امریکی انتخابات ”ہائی جیک“ کرنے کا دعویٰ
شیئر کریں
امریکی سینیٹرز کو سی آئی اے کی پریزنٹیشن ،تمام خفیہ ادارے متفق نہ ہوسکے، اوباماکا امریکی انتخابات کے دنوں میں ہونے والے سلسلہ وار سائبر حملوں کی تحقیقات کا حکم
ُ”پراپ آر ناٹ “ نامی امریکی ریسرچ گروپ کی رپورٹ کے مطابق امریکی الیکشن کے دنوں میں200 سے زائد ویب سائٹس کے ذریعے روسی پراپیگنڈے کو پھیلایا گیا
امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت نہ صرف امریکی انتخابی نظام میں کمزوری کی وجہ بنی ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی برتری اور وائٹ ہاو¿س تک رسائی بھی اسی مداخلت کا نتیجہ ہے۔امریکی صدر براک اوباما نے امریکی انتخابات کے دنوں میں ہونے والے سلسلہ وار سائبر حملوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے امریکی افسران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ایسے افراد کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے روسی حکومت سے رابطے تھے اور جنہوں نے ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی اور ہیلری کلنٹن کی صدارتی مہم کے چیئرمین سمیت دیگر افراد کی ہزاروں ہیکڈ ای میلز وکی لیکس کو فراہم کیں۔افسران کا بتانا ہے کہ یہ افراد اس خفیہ کمیونٹی کا حصہ تھے جو روس کی جانب سے ٹرمپ کی مقبولیت کو بڑھانے اور ہیلری کی جیت کی امید کو کم کرنے کے لیے شروع کیے گئے آپریشن میں شامل تھے۔ہیک شدہ ای میلز کا وکی لیکس تک پہنچنا ہیلری کلنٹن کے لیے دورانِ مہم شرمندگی کا سبب بنا تھا۔
ان کے مطابق انٹیلی جنس حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ روس کا مقصد ایک انتخابی امیدوار کو دوسرے پر اہمیت دلوانا اور ٹرمپ کے انتخاب کی راہ آسان کرنا تھی، امریکی اخبار میں ایک سینئر امریکی افسر کا بیان بھی شامل ہے جو اسے اتفاق رائے سے لگایا جانے والے خیال کہتے ہیں۔نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ امریکی افسر کا مزید بتانا تھا کہ سی آئی اے کی جانب سے دی جانے والی اس پریزنٹیشن میں کئی اہم امریکی سینٹرز بھی شامل تھے۔سی آئی اے کے اس خفیہ انکشاف کے مطابق اس حوالے سے ثبوتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، سینیٹرز کو دی گئی معلومات میں بتایا گیا کہ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ روس کا مقصد ٹرمپ کا انتخاب تھا۔دوسری جانب سی آئی اے کی جانب سے دی جانے والی پریزینٹیشن میں امریکا کی تمام 17 خفیہ ایجنسیوں کی باقاعدہ تصدیق شامل نہیں، سینئر امریکی افسر کے مطابق خفیہ ایجنسیاں کچھ باتوں پر متفق نہ ہوسکیں جس کی وجہ سے کچھ جوابات ادھورے ہیں۔ایک اور سینئر افسر کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کے پاس تاحال مخصوص معلومات نہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوسکے کہ کریملن کی جانب سے لوگوں کو ہیکڈ ای میلز وکی لیکس کو فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔یاد رہے کہ وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ای میلز حاصل کرنے کا ذریعہ روسی حکومت نہیں تھی۔
امریکی صدر براک اوباما نے امریکی انتخابات کے دنوں میں ہونے والے سلسلہ وار سائبر حملوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ان حملوں کا الزام روس پر عائد کیا جاتا ہے۔روسی حکام کی جانب سے ہیکنگ کے الزامات کی تردید کی گئی ہے۔ ان سائبر حملوں میں ڈیموکریٹک پارٹی اور صدارتی امیدوار کے ایک قریبی ساتھی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔قبل ازیں اکتوبر میں امریکی حکام کی جانب سے روس کی جانب انگلی اٹھائی گئی تھی اور اس پر امریکی انتخابات میں دخل اندازی کا الزام عائد کیا تھا۔تاہم رپبلک پارٹی کے کامیاب امیدوار اور وائٹ ہاو¿س میں صدر اوباما کے بعد تخت نشینی کے لیے تیار ڈونلڈ ٹرمپ نے تسلسل سے اس سے اختلاف کیا ہے۔رواں ہفتے انھوں نے ٹائم جریدے کو بتایا کہ ‘میں اس پر یقین نہیں کرتا۔ میں یقین نہیں کر سکتا کہ انھوں (روسیوں) نے مداخلت کی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں روس کے خلاف الزامات سیاسی نوعیت کے ہیں جبکہ ڈیموکریٹس کا دعویٰ ہے کہ ہیکنگ ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانے کی سوچی سمجھی کوشش تھی۔ترجمان وائٹ ہاو¿س کے مطابق تحقیقات کا یہ عمل صدر اوباما کے سبکدوش ہونے اور جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارت کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے مکمل کر لیا جائے گا۔تاہم یہ واضح نہیں کہ اس تحقیقاتی جائزے کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا نہیں۔
خیال رہے کہ ڈیموکریٹس نے اس وقت انتہائی ناراضی کا اظہار کیا تھا جب ہیکرز نے ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی اور ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم کے چیئرمین جان پوڈسٹا کے ای میل اکاو¿ٹس تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ریاست الینوئے اور ایریزونا میں ورٹرز رجسٹریشن ڈیٹابیس کو بھی ہیکنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔پوڈسٹا کی ای میلز تک وکی لیکس کی رسائی ہوگئی تھی اور انھیں آن لائن پوسٹ کر دیا گیا تھا۔ایک موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کا نام لیتے ہوئے حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ ہلیری کلنٹن کی ای میلز ‘تلاش’ کریں، تاہم شدید ردعمل کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ طنز کر رہے تھے۔
قبل ازیں نیو یارک سے26نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز کے مطابق غیر جانبدار محققین اور ماہرین کی تیار کردہ اور ابھی تک غیر شائع شدہ ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ماسکو نے قریب تین ہفتے قبل ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن سے پہلے تک اپنی ایک ’بہت نفیس پراپیگنڈا مہم‘ کے ذریعے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کا ایک سیلاب پیدا کر دیا تھا اور اس طرح ڈیموکریٹ امیدوار اور سابق خاتون اول ہلیری کلنٹن کے خلاف اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں رائے عامہ راہ ہموار کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔
نیو یارک ٹائمز کے ذرائع کے مطابق اس روسی پراپیگنڈے کا مقصد ہلیری کلنٹن کو ’سزا دینا‘، ڈونلڈ ٹرمپ کی ’مدد کرنا‘ اور امریکی عوام کے ’جمہوریت پر یقین کو نقصان پہنچانا‘ تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ رپورٹ ماہرین کے PropOrNot نامی ایک ایسے غیر جانبدار گروپ کی طرف سے تیار کی گئی ہے، جو خود کو ’تشویش کے شکار امریکی شہریوں‘ کا نمائندہ گروپ قرار دیتا ہے اور جس میں کمپیوٹر ماہرین کے علاوہ قومی سلامتی اور پبلک پالیسی کے ماہرین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
اس رپورٹ کو مرتب کرنے والے ماہرین نے امریکی صدارتی الیکشن سے پہلے کے دنوں اور ہفتوں کے دوران سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے سیاسی پیغامات کے نقطہ ہائے آغاز کا کھوج لگایا اور یہ دیکھنے کی کوشش بھی کی کہ ایک ہی طرح کی ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کے خلاف اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ہزارہا سوشل میڈیا پوسٹس کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق روسی پراپیگنڈا مہم کے تحت پھیلائی جانے والی ’جھوٹی رپورٹیں‘ دو سو ملین سے زائد افراد تک پہنچیں.نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ اس رپورٹ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ’جعلی خبروں اور غلط معلومات‘ پر مبنی ان پراپیگنڈا رپورٹوں کا اثر کتنا زیادہ تھا اور کس طرح ان کے ذریعے روس نے امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔
اس امریکی ریسرچ گروپ کی نیو یارک ٹائمز کو مہیا کردہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں کم از کم 200 سے زائد ویب سائٹس ایسی تھیں، جن کے ذریعے الیکشن کے دنوں میں روسی پراپیگنڈے کو پھیلایا گیا۔
ایسوسی ایٹد پریس کی طرف سے مزید معلومات کے لیے جب اس امریکی ریسرچ گروپ سے رابطہ کیا گیا، تو اس کی طرف سے مقامی وقت کے مطابق خبر کی اشاعت سے ایک روز قبل شام تک کوئی بھی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔