آہ: جنید جمشید، آپ کیا گئے کہ چراغ محبت بھجاگئے
شیئر کریں
محمد اشرف قریشی
یہہمارا قومی المیہ ہے کہ نت نئے حادثات ہمیشہ ہمارے سرپر رہتے ہیں اور یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ حادثات اور واقعات میں ہم ایسے لوگوں سے محروم ہوجاتے ہیں جن کی محنت، محبت اور پیار سے دنیا آباد ہوتی ہے اور اُن کی زندگی کی خوشبو سے ہمارا معاشر مہک رہا ہوتا ہے اور ایسے بھی عظیم لوگ ہمیں داغ مفارقت دے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے ایمان افرزو کردار سے عوام الناس کا ماحول معطر کر رکھا ہوتا ہے۔
گزشتہ روز پی آئی اے کا ایک طیارہ چترال سے اسلام آباد آرہا تھا کہ وہ راستہ میں حویلیاں کے مقام پر حادثہ کا شکار ہوگیا جس کے نتیجہ میں انتہائی قیمتی زندگیاں زندگی کی بازی ہار گئیں حادثات کے تذکرات میں ممتاز نعت خواں اور عاشق رسول جنید جمشید نمایاں اور سرفہرست رہے، آج میں بھی قلم اٹھارہا ہوں اور جب میں نے اپنا قلم قرطاس پر رکھا تو میری سوچ اور سمجھ بھی بے بسی کا مظاہرہ کررہی تھی کہ میں ان کا تذکرہ کہاں اور کس طرح سے کروں، اُن کی زندگی کے کس پہلو کے تار چھیڑوں، ایماں افروز عشق و مستی کی آواز کا تبصرہ کروں یا ان کی گفتگو پر اظہار خیال کا اظہار کروں، انہوں نے تو اپنی زندگی تو دین ایمان کے راستہ کیلئے اس قدر وقف کردی تھی کہ عوام الناس اُن کی آواز سننے اور چہرہ دیکھنے کیلئے بے تاب رہتے تھے، آج وہ ایک فضائی حادثہ میں زندگی تو ہارگئے ،لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں جو اخلاقیات، محبتیں اور رشتے قائم کئے ہیں وہ تا قیامت قائم و دائم رہیں گے، البتہ یہ کہنا ہماری مجبوری ہے کہ وہ کیا گئے کہ چراغ محبت بجھاگئے، ان کی موت کے بڑے گہرے اور روح فرسا اثرات مرتب ہوئے ہیں، آج ان کی موت سے نہ صرف ان کا خاندان بلکہ پوری قوم سوگوار ہے اور ان کا غم دیرپا ہمارے دل و دماغ میں محفوظ رہے گا۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم من حیث القوم حادثات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں سیاسی سوداگروں نے وہ سیاسی جمعہ بازار لگارکھا ہے کہ کوئی ادارہ اور نظام ایسا نہیں ہے جس سے قوم یہ امیدیں وابستہ رکھتی کہ ہماری زندگی امن و آشتی سے لے کر ترقی اور خوشحالی تک کی نعمت سے مالا مال ہوتی، ہمارے تمام تر ادارے پستی کے کنویں میں گرے پڑے ہیں، حادثات ایک ایسا معمول بن چکے ہیں کہ ہم کسی وقت بھی اس کا شکار ہوکر زندگی کا چراغ بجھادیتے ہیں یا پورے خاندان کو سوگوار، یہ ہماری بد قسمتی ہمارے ساتھ سائے کی طرح چل رہی ہے، اگر ہمارا نظام درست ہوتا تو پھر ہمارے ادارے بھی بہتر اور کامیاب ہوتے، حادثے کا شکار طیارہ کے متعلق رائے تو قبل از وقت ہی ہوگی کہ اس المناک حادثہ کا اساسی سبب کیا ہے، ابھی تو مختلف نوعیت کی قیاس آرائیاں زیر گردش ہیں، اس کی نسبت ہونے والی تحقیق سے ہی پتہ منظر عام پر آئے گا، لیکن یہ پیغام دنیا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم ہوش سے کام نہیں لیں گے اس وقت تک اپنی سیفٹی اور سلامتی کو یقینی نہیں بناسکتے، ہم حکومت وقت کی توجہ اس انتہائی اہمیت کی حامل ضرورت کی طرف مبذول کرتے ہیں کہ تمام قومی اداروں کو انتظامی امور میں بہتر کیا جائے، جہاز کی اُڑان میں ہمارے لوگ سفر کررہے ہوتے ہیں اس لئے اس کی سیفٹی کے تمام تر اصول مقرر کئے جائیں تاکہ سفر سلامتی کی شرح پر کامیاب ہوسکے، پی آئی اے قومی ادارہ ہے جس سے قوم وابستہ ہے اور یہ وہ تمام جانتے ہیں جو اس سے سفر کرتے ہیں کہ اس کے انتظام تک ناقص اور اس قدر خستہ ہیں کہ سر شرم سے بھی جھک جاتا ہے اور جو غیر ملکی ہمسفر ہوتے ہیں وہ بھی منفی تاثرات لیتے ہیں ہم اس المناک حادثہ کے شکار ہونے والی قیمتی زندگیوں کے تمام خاندانوں سے افسوس کرتے ہیں اور اُن کے اس المناک اور روح فرسا غم میں برابر کے شریک برادر ہمایوں جمشید جو اپنے برادر اور قومی سرمایہ جنید جمشید کے غم میں نڈھال ہیں ہم ان کے غم میں شریک ہیں، البتہ دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کو جنت الفردوس کا اعلیٰ مقام نصیب کرے اوران کے تمام لواحقین کو صبر جمیل مقدر ہو۔
٭٭