شہر میں بے ہنگم تعمیرات ۔۔۔کراچی کی انفرادیت اور تاریخی ورثے متاثر
شیئر کریں
تہمینہ حیات
شہروں کی آبادی میں اضافے کی وجہ سے بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر وقت کی ضرورت ہے،کیونکہ جب آبادی میں ایک حد سے زیادہ اضافہ ہونے لگے اور شہر کے عمودی پھیلاﺅ کی گنجائش سکڑنا شروع ہوجائے تو شہر کی تمام آبادی کو رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کا واحد طریقہ شہر میں افقی پھیلاﺅ کی منصوبہ بندی ہی ہے ،پوری دنیا میں اسی ایک ہی فارمولے پر عمل ہوتاہے اور یہی وجہ ہے کہ جس شہر کی آبادی جتنی زیادہ اور شہر کاعمودی پھیلاﺅ جتناکم ہوتاہے وہاں اتنی ہی زیادہ بلند وبالا عمارتیں نظر آتی ہیں ، اس اعتبار سے کراچی میں گزشتہ چند برسوں کے دوران بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر کے رجحان میں اضافہ کوئی نئی، معیوب اور قابل اعتراض بات نہیں ہے ،لیکن اس حوالے سے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ کراچی میں بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کردی گئی ہے ، اور بعض اوقات نہیں بلکہ عام طورپر ان عمارتوں کی تعمیر کیلئے متعلقہ علاقے کی زمین کی ساخت کی کوئی جانچ بھی نہیں کی جاتی ہے جبکہ علاقے میں موجود بنیادی شہری سہولتوں اور بلند بالا عمارتوں کی تعمیر کے بعد ان پر پڑنے والا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت کو بھی نظر انداز کیاجارہاہے ۔یہی نہیں بلکہ شہر میں اب بلند وبالاعمارتوں کی تعمیر کیلئے کسی قاعدے قانون کا بھی لحاظ نہیں رکھا جارہاہے جس کی وجہ سے 120 اور200-200 گز کے مکانوں کو منہدم کرکے ان پر 10-10 منزلہ عمارتوں کی تعمیر کاسلسلہ شروع کردیا گیاہے۔جس کا نظارہ اب کراچی کے کسی بھی علاقے میں کیاجاسکتاہے۔
کراچی میں بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ عمارتیں تعمیر کرنے والی تعمیراتی کمپنیوںنے اب محض دولت کمانے کے جنون میں شہر کی ان عمارتوں کو منہدم کرکے بلند وبالا عمارتیں تعمیر کرنا شروع کردی ہیں جنھیں اس شہر کی پہچان اور شان تصور کیاجاتاتھا اورجن کا شمار اس شہر کے تاریخی ورثے میں کیاجاتاتھا، اگر شہر کے بعض علاقوں میں تاریخی ورثہ قرار دی گئی عمارتوں کو میڈیا میں شور مچ جانے کی صورت میں قانونی کارروائی ہوجانے کے خوف سے منہدم نہیں کیا گیاہے تو ان کے اردگرد اس قدر بے ہنگم طریقے سے بلندوبالا عمارتیں تعمیر کرلی گئی ہیں یا تعمیر کی جارہی ہیں جن کی وجہ سے ان قدیم تاریخی عمارتوں کاحسن ختم ہوکر رہ گیاہے ،اور ایسی عمارتوں میں قیام پذیر لوگوں کی خلوت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
اس طرح کراچی میں تعمیر کی جانے والی بلند وبالا عمارتوں سے جہاں یہ ثابت ہوتاہے کہ اس شہر کی تعمیراتی کمپنیوں کے مالکان کا مطمع نظر صرف دولت کماناہے ،انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے اس عمل سے اس شہر کی انفرادیت اور اس شہر کاحسن کس قدر تباہ ہورہاہے اور اس کی وجہ سے اس شہر کے ماحول پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اس رجحان سے یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ ہماری حکومت اورخاص طورپر ان بلندوبالا عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دینے والے اداروں کے اہلکاروںاور ارباب اختیار کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں کہ چند ٹکوں کے عوض قواعد وضوابط اور قانون کی جانب سے آنکھیں بند کرکے اس طرح عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دیے جانے کے کتنے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
کراچی کے قدیم رہائشی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے مکانوں کی جگہ بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر کا سب سے بڑا اور نظر آنے والا نقصان یہ ہواہے کہ ان عمارتوں کی تعمیر کے بعد ان کے متوقع مکینوں کو پانی کی فراہمی کیلئے بورنگ کرکے زیر زمین پانی سے استفادہ کرنے کاطریقہ کار اختیار کیاگیاہے لیکن جگہ جگہ بے تحاشہ بورنگ اور بڑے پیمانے پر زیر زمین پانی نکالنے کاسلسلہ شروع ہوجانے کے سبب کراچی کے بیشتر علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح نیچی ہوتی جارہی ہے اور اب بعض علاقوں میں زیر زمین پانی حاصل کرنے کیلئے 200فٹ سے بھی زیادہ گہری کھدائی کی ضرورت پیش آنے لگی ہے ، اس کی وجہ سے بیشتر رہائشی علاقوں میں زمین بھربھری ہوتی جارہی ہے جس کے اثرات ان علاقوں میں قائم بلند وبالا عمارتوں پر پڑ رہے ہیں اور زمین بھربھری ہوجانے کے سبب ان عمارتوں کی بنیادیں کمزور پڑ رہی ہے اور کسی بھی ناگہانی آفت سماوی کی صورت میں ایک ہی جھٹکے میں یہ عمارتیں زمین بوس ہوکر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔
جیسا کہ ابتدا میںذکر کیا گیا ہے کہ کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے پیش نظر دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح کراچی میں بھی لوگوں کورہائشی سہولتوں کی فراہمی کیلئے بلند وعمارتوں کی تعمیر ناگزیر ہے لیکن یہ تعمیرات کسی ایک قاعدے اور قانون کے تحت ہونی چاہئےں اور ان کی اجازت دیتے ہوئے اس شہر کی انفرادیت، اس کی خوبصورتی اور تاریخی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے اور ایسی کسی بلند عمارت کی تعمیر کی اجازت نہیں دینی چاہئے جن کی وجہ سے شہر کی قدیم تاریخی عمارتوں کاحسن متاثر ہونے کا خدشہ ہو،اس کے ساتھ ہی بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دینے سے قبل متعلقہ علاقوں میں پانی کی فراہمی اور سیوریج کی نکاسی ،بجلی اور گیس کی فراہمی کے نظام کی صورتحال اور مستقبل قریب میں ان علاقوں کی آبادی میں متوقع اضافے کی صورت میں ان میں توسیع اور اضافے کے امکانات کے علاوہ ان علاقوں میں سڑکوںکی حالت اور ٹریفک اور گاڑیوں میں اضافے کے بعد ان میں توسیع اور اضافے کی گنجائش کے امکانات کے علاوہ کسی بھی ناگہانی حادثے کی صورت میں ان علاقوں میں فوری امدادی کارروائیاں شروع کرنے کی سہولتوںا ورامکانات کا بھی جائزہ لیاجانا چاہئے ۔
جہاںتک شہر کے نئے علاقوں جن میں گلستان جوہر ، صفورا اور اس کے آگے کے علاقوں اور سپر ہائی وے یا نیشنل ہائی وے کے کھلے اور نسبتا ً غیر آباد یا کم گنجان علاقوں میں بلند عمارتوں کی تعمیر کا تعلق ہے تو اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن ان علاقوں میں بھی اب تک تعمیر ہونے والی بلند عمارتوں اور مزید عمارتوں کی تعمیر کی صورت میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی ،گندے پانی کی نکاسی ، کچرا ٹھکانے لگانے کے انتظامات ،سڑکوں کی تعمیر ، بجلی اور گیس کی فراہمی کے انتظامات کو یقینی بنانے کی شرط عاید کی جانی چاہیے اور بہتر یہ ہوگا کہ نئی تعمیر کی جانے والی بلند عمارتوں کے مالکان اور تعمیراتی کمپنیوں کے مالکان کو اپنے پراجیکٹس میں سولر بجلی کا انتظام کرنے کا پابند بنایاجانا چاہئے تاکہ شہر میں بجلی کے نظام پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے اور شہر میں واقع صنعتی اور تجارتی علاقوں کو جو اس ملک کی کم وبیش ایک تہائی افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتے ہیں اور ملک کو 70فیصد تک ریونیو فراہم کررہے ہیں ،بلاتعطل بجلی گیس اور پانی کی فراہمی جاری رکھی جاسکے اور شہر میں بے محابہ تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کا پہیہ جمود کاشکار نہ ہو۔
یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا چند ٹکوں کے عوض اس شہر کے حسن کاسودا کرنے والے عوام دشمن ارباب اختیار اس شہر کی خوبصورتی کو گہن لگنے سے بچانے اور اس شہر کے لوگوں کے مصائب ومشکلات میں مزید اضافہ کرنے کے اس عمل کو روکنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر تیار ہوں گے ؟اور کیا حکومت سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہیں اورمراعات لینے والے ان کرپٹ اور بے حس افسران اور ان کے سرپرست تعمیراتی اداروں کے دولت مند مالکان کو قانون کی پاسداری پر مجبور کرنے کیلئے متعلقہ قوانین پر عملدر آمد کو یقینی بنانے کیلئے کوئی کارروائی کرے گی ؟ بظاہر ایسا مشکل نظر آتاہے لیکن ایسا کرنے ہی میں سب کافائدہ ہے۔