پنجاب:پولیس مقابلے ،ڈاکٹرز کادھرنا ،وزیر اعلیٰ کی پھرتیاں لیکن عوام کا حال نہ بدلنا تھا ،نہ بدلا
شیئر کریں
بلاول کی پنجاب میں پارٹی کو بے ساکھی دینے کی کوششیں،قطری شاہی خاندان کی پنجاب یاترا
11نئے صوبائی وزرا کی انٹری اور جھنگ انتخابات میں مرغی کے آگے شیر کی شکست ہفتہ¿ رفتہ پنجاب پر حاوی رہی
گزشتہ ہفتہ پنجاب کیلئے بہت ہنگامہ خیز رہا ،جہاں ایک طرف قطری شاہی خاندان نے شکار کھیلنے کے بہانے آکر شریف فیملی کا ”کلہ“ مضبوط ہونے کا عندیہ دے دیا وہیں بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کی تقریبات کا فائدہ اٹھا تے ہوئے جی بھر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالی جبکہ عوام کی حالت اس ہفتے پہلے سے بھی ابتر رہی، جہاں ایک بار پھر ینگ ڈاکٹرز مریضوں کی جان کو آ گئے ¾وہیں پنجاب پولیس نے جی بھر کر پولیس مقابلے کئے ¾ ڈاکوﺅں نے جی بھر کر ڈکیتیاں کیں اور معصوم شہریوں کو دونوں نے ایک لمحہ سکون کے سانس نہ لینے دیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے اندر اس ہفتے بھی بجلیاں بھری رہیں لیکن ان کی تیزیوں کو اسٹاپ لگا جب انہیں دو بار لندن کا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔سیاسی حلقوں میں اس وقت چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں جب شہباز شریف نے طبی معائنے کیلئے اپنا برطانیہ کا دورہ ملتوی کر دیا جس کی وجہ ذاتی مصروفیات کو قرار دیا گیا پھر ان کا پروگرام بنا کہ وہ ہفتہ کے روز ترکی کے راستے لندن روانہ ہوں گے لیکن وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے اطلاع دی کہ قطری شاہی فیملی پاکستان تشریف لا رہی ہے اس لئے شہباز شریف کا لندن جانے کا پلان ایک بار پھر ملتوی ہو گیا۔قطری شاہی خاندان کے 12افراد ہفتہ کے روز خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور آئے اور حکمران خاندان نے پاناما لیکس میں اپنے ثبوت کے سچے ہونے کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔قطری شاہی خاندان کا استقبال حسین نواز شریف نے کیا جن میںپانامالیکس فیم شہزادہ جاسم بھی شامل ہیں۔ چار روزہ دورے کے پہلے روز انہوں نے جاتی امراءمیں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر شکار کھیلنے کیلئے بھکر اورفیصل آباد پہنچ گئے جس کے بعد آخر اللہ اللہ کر کے شہباز شریف اتوار کے روز ترکی کے راستے لندن کیلئے روانہ ہوگئے ۔ انقرہ میں انہوں نے اپنے ”بھائی“ طیب اردوان کے ساتھ ملاقات میں ایک بار پھر ترکی کے ہیلتھ سسٹم کو سمجھنے کی کوشش کی کیونکہ ترکی جانے سے پہلے شہباز شریف ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر بغیر اطلاع کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ساہیوال کے دورے پر پہنچے جہاں انہوں نے مریضوں کو فراہم کی جانیوالی طبی سہولتوں کا جائزہ لیا ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب جب کسی بھی سرکاری ہسپتال کا دورہ پروٹوکول کے بغیر کرتے ہیں تو معطل ہونے کے ڈر سے انتظامیہ پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے لیکن ینگ ڈاکٹرز شہباز شریف سے مرعوب ہونے پر بالکل بھی تیار نہیں ہیں اور اس کا خمیازہ مریضوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے
پنجاب کے مریض ایک بار پھر ینگ ڈاکٹرز کے شکنجے میں آ گئے ہیں کیونکہ ینگ ڈاکٹرز نے سنٹرل انڈکشن پالیسی اور پراونشل ریزیڈنشل پالیسی کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ پنجاب میں اس وقت عجیب صورتحال پیدا ہوگئی جب حکومتی دعوﺅں کی قلعی ایک بار پھر کھل گئی اور ینگ ڈاکٹرز دوبارہ ہسپتالوں کو چھوڑ کر سڑکوں پر احتجاج کرنے پہنچ گئے اور لاہور سمیت پنجاب بھر کی سڑکوں پر دھرنا دے دیا۔احتجاج کی وجہ سے مریض ہسپتالوں میں خوار ہوتے رہے ¾ ہسپتالوں میں ایمرجنسی کے علاوہ کسی بھی وارڈ میں مریضوں کیلئے کوئی سہولیات میسر نہ تھیں۔ اوپی ڈی مکمل طور پر بند رہی اور کئی اہم آپریشنز بھی نہ ہو سکے۔ اس بار ینگ ڈاکٹرز کے احتجاج کی وجہ سے ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر بھی عوام متاثر ہوئے۔ راوی روڈ ¾ فیروز پور روڈ ¾ جیل روڈ اور کینال روڈ سمیت مختلف شاہراہوں پر ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا ۔ سروسز ہسپتال میں ینگ ڈاکٹرز نے ایم ایس کے دفتر کے اندر دھرنا دیدیا ¾ دھاوا بول کر ایم ایس کا گھیراﺅ کر لیا اور شدید نعرے بازی کی۔ راولپنڈی میں ینگ ڈاکٹرز نے بینظیر بھٹو جنرل ہسپتال سے ریلی نکال کر مری روڈ پر دھرنا دیا جس کے باعث مری روڈ پر ٹریفک گھنٹوں جام رہی ۔ فیصل آباد میں بھی ینگ ڈاکٹرز نے الائیڈ ہسپتال سے احتجاجی ریلی نکالی ۔ ملتان میں ڈاکٹرز نے نشتر روڈ پر دھرنا دیا ۔ ینگ ڈاکٹرز نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو ان کے احتجاج کا دائرہ کار ڈیرہ غازی خان ¾ رحیم یار خان ¾ مظفر گڑھ ¾ سیالکوٹ ¾ گوجرانوالہ ¾ گجرات اور دیگر شہروں تک بھی پھیلا دیا جائے گا۔
ایک طرف وزیر اعلیٰ کی صحت کی سہولیات کیلئے کوششیں ہیں وہیں پر پنجاب پولیس بھی امن کیلئے زور و شور سے مصروف ہے۔ اسی سلسلہ میں گزشتہ ہفتے بھی پولیس مقابلوں میں 2سنگین نوعیت کے خطرناک مبینہ ملزمان کو پولیس مقابلے میں پار کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود امن و امان کی صورتحال میں کوئی بہتری نہ آئی ۔ مجموعی طور پر صوبائی دارالحکومت سے لاکھوں روپے لوٹ لئے گئے ¾ درجنوں گاڑیاں ¾ موٹر سائیکلیں چوری ہو گئیں ۔ہربنس پورہ میں پولیس حراست سے فرار ہونے والا ملزم ایک اور ڈرامائی پولیس مقابلے میں مارا گیا ¾ پولیس کے مطابق ڈکیتی راہزانی کے 60سے زائد واقعات میں ملوث ابوبکر کچھ عرصہ قبل انویسٹی گیشن ڈیفنس اے کی حراست سے نشاندہی کرانے کے دوران فرار ہو گیا تھا جس کے بعد گزشتہ روز عامر ٹاﺅن پولیس ناکے پر ایک ڈکیتی کے بعد اس کا پولیس کے مطابق مقابلہ ہوا جس میں ابو بکر نامی یہ ملزم مارا گیا اور اس کا ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ ایک اور پولیس مقابلہ میںہفتہ کے روز نواب ٹاﺅن ایدھی روڈ پر مبینہ ملزم کرامت مارا گیاجو قصور کا رہائشی تھا۔گزشتہ ہفتے قتل ہونے والی ا سٹیج رقاصہ قسمت بیگ کے قاتلوں کو پنجاب پولیس نے گرفتار کر لیا۔ چار ملزمان میں سے رانا مزمل کی قسمت بیگ سے دوستی تھی اور اسے کسی اور کا رقاصہ سے ملنا پسند نہیں تھا۔
پیپلز پارٹی کے 49 ویںتاسیس کے سلسلے میں تقریبات بلاول ہاﺅس لاہور میں ہوئیں اور اس میں شرکت کیلئے لاہور آنیوالے پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں نے لاہور میں مصروف ہفتہ گزارا۔پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں دو اہم ترین باتیں کیں ایک یہ کہ وہ حکومت کو 27دسمبر کی ڈیڈ لائن دے رہے ہیں تاکہ وہ بلاول بھٹو کے مطالبات مان لیں اور دوسرا 2018ءکے انتخابات میں وزیر اعظم بلاول بھٹو ہی بنیں گے۔ بلاول بھٹو نے وہی پرانی باتیں دہرائیں جو پاکستانی سیاستدان اپنے ہر خطاب میں دہراتے ہیں یعنی وہ پکے بیانات جب کوئی اپوزیشن میں ہوتا ہے تب والے اور جب کوئی حکومت میں ہوتا ہے تب والے۔ اس سے اگلے روز بلوچستان ورکرز کنونشن سے خطاب کرنے ہوئے بھی بلاول بھٹو نے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیاجبکہ تیسرے دن پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب ورکرز سے خطاب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ حکومت کے اقدامات سے وہ تنگ آ چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے اہم واقعات میںپنجاب کابینہ میں شامل ہونے والے 12میں سے 11 نئے صوبائی وزراءجہانگیر خانزادہ ¾ نغمہ مشتاق ¾ امانت اللہ خان شادی خیل ¾ خواجہ سلمان رفیق ¾ شیخ علاﺅ الدین ¾ محمد منشا ءاللہ بٹ ¾مہر اعجاز احمد اچلانہ ¾ سید زعیم حسین قادری ¾ محمد نعیم اختر خان بھابھہ ¾ ملک احمد یار ہنجرا اور خواجہ عمران نذیر کا حلف اٹھانا ¾ محکمہ خوراک کی طرف سے دودھ کی سرکاری قیمت ختم کرنے پر اتفاق کرنا ¾ ہائیر ایجوکیشن سسٹم کی جانب سے صوبائی دارالحکومت لاہور کی بعض نجی یونیورسٹیز میں خود ساختہ ڈسپلن کے اجرا پر کارروائی کا اعلان کرنا ¾ لاہور ہائیکورٹ کا ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین پرغداری کا مقدمہ درج کرنے کی سماعت ¾ الطاف حسین کیخلاف ریمارکس اور جھنگ کے حلقہ پی پی 78 کے ضمنی الیکشن میں مرغی کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے والے اہل سنت والجماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار مولانا مسرور نواز جھنگوی کی تقریبا 13ہزار ووٹوں سے فتح بھی شامل رہی ۔