عام ۔لیٹ۔۔ (علی عمران جونیئر)
شیئر کریں
دوستو،کچھ لوگ وقت کے پابند ہوتے ہیں تو کچھ کا معاملہ ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں‘‘ والا رہتا ہے۔ نہ تو وہ اپنا کوئی کام وقت پر کرتے ہیں اور نہ ہی وقت پر ملازمت کی جگہ پہنچنے کے عادی ہوتے ہیں۔اپنی اسی عادت کی وجہ سے وہ دوسروں کے لیے دردِ سر بننے کے ساتھ ساتھ اپنے سینئرز سے بھی ڈانٹ کھاتے رہتے ہیں لیکن جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمیشہ دیر کرنے والے لوگ کامیاب بھی رہتے ہیں۔نفسیاتی تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو وقت کے پابند ہوتے ہیں وہ زیادہ پرجوش، اپنے آپ پر تنقیدی نظر رکھنے والے، مسابقت کا جذبہ رکھنے والے اور وقت کے معاملے میں حساس بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بالعموم کامیاب رہتے ہیں لیکن دیر کرنے والے لوگ، ان سے بھی زیادہ کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔وہ کیوں؟ اس سوال کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ دیر کرنے والے لوگ بڑی آسانی سے گھل مل جاتے ہیں جبکہ اپنے مزاج میں وہ بہت تحمل بھی رکھتے ہیں مگر ان میں کچھ اور خصوصیات بھی ہوتی ہیں جو انہیں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب بناتی ہیں۔ان کے تخیل کی پرواز بلند ہوتی ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کے معاملے میں بھی وہ اپنے ساتھیوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ یہ صلاحیت انہیں ایسی ملازمتوں یا کاموں کے لیے موزوں ترین بناتی ہے جہاں ہر وقت کچھ نیا کرنے کے مواقع ہوں، شاید اس لیے بھی کیونکہ یہ لوگ ایک مخصوص سوچ اور طریقے کو چھوڑ کر ’’کچھ الگ‘‘ کرنے سے نہیں گھبراتے۔ دیر کرنے والوں اور قائدانہ صلاحیت رکھنے والوں میں یہ بات قدرِ مشترک ہے۔دیر کرنے والے لوگ ہمیشہ پْرامید رہتے ہیں، یعنی وہ بہت کم ہی مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ خاصیت بھی انہیں کامیابی کی راہ پر گامزن کرتی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق یہی نہیں، بلکہ ’’لیٹ لطیف‘‘ قسم کے لوگ ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام کرنے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔ اپنی اسی صلاحیت کی وجہ سے وہ اکثر وقت گزرنے کا احساس نہیں کر پاتے اور دیر کردیتے ہیں۔ البتہ، ان کی مجموعی کارکردگی اور پیداواری صلاحیت دوسروں کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتی ہے۔کیونکہ وہ وقت کی کچھ خاص پروا نہیں کرتے، اس لیے وہ مشکل ترین حالات میں بھی دوسروں کی نسبت پرسکون اور مطمئن رہتے ہیں۔ یعنی انہیں اپنے اعصاب پر زیادہ کنٹرول ہوتا ہے۔ ایک ایسا دفتر جہاں ہر طرف افراتفری مچی ہو، وہاں سکون و اطمینان سے کام کرنے والا فرد عام طور پر وہی ہوتا ہے جو اکثر دیر سے آتا ہے۔ بوکھلاہٹ کا شکار نہ ہوتے ہوئے وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنا کام کہیں بہتر طور پر انجام دیتے ہیں۔ماہرین کے خیال میں دیر کرنے والوں کی ایک اور اہم خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ’’کمال پسند‘‘ (پرفیکشنسٹ) ہوتے ہیں۔ یعنی وہ ہر کام کو انتہائی خوبی اور نفاست کے ساتھ انجام دینا چاہتے ہیں ۔غرض وہ جس شعبے میں بھی ہوتے ہیں، وہاں رہتے ہوئے ’’خوب سے خوب تر کی جستجو‘‘ کی عملی تعبیر سمجھے جاتے ہیں۔ وقت کی پابندی نہ کرنے کے باعث ان کے کام میں تاخیر ضرور ہوجاتی ہے لیکن جب وہ کام پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے تو لوگ اس کی داد دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیر کرنے والے لوگ اپنے ہم عصروں کی نسبت زیادہ ترقی پاتے ہیں۔
تو جناب یہ تو تھی جدید تحقیق۔۔ اس تحقیق کی روشنی میں ہمارے یہاں کے سیانے ہمیشہ دیر کرنے والے کو سست اور کاہل کا خطاب دیتے ہیں۔۔ سیانوں کے مطابق جو کام میں سستی کرے،تاخیر سے آئے یاجسے وقت کا احساس نہ ہو،وہ دنیا کا فضول ترین انسان بلکہ ـ’’بے فضول انسان ‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔۔وقت کی قدر کے حوالے سے بچپن سے آج تک پڑھتے آئے ہیں، بلکہ وہ مشہور محاورہ بھی آپ لوگوں نے سنا ہوگا کہ۔۔جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے۔۔ اس میں ’’کھوتا‘‘ پنجابی والا بھی سمجھ سکتے ہیں۔۔ہم بھی عام طور سے ہر تقریب میں لیٹ ہی جاتے ہیں۔۔یہ انگریزی والا’’لیٹ‘‘ ہے، اردو والا ہرگز مت سمجھئے گا۔۔ اسی لیے لوگ ہمیں ’’عام لیٹ‘‘ کہتے ہیں۔۔ ویسے ہمارے خیال میں وقت کی قدر کرنا چاہیئے کیونکہ گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔۔شادی کی پہلی ہی صبح گھر میں کہرام مچا ہوا تھا دلہے نے کام والی کو تھپڑ رسید کر دیا تھا۔حد ہوتی ہے جہالت کی۔۔ امی کی آواز آئی۔۔دلہے نے شدت جذبات سے کہا۔۔لیکن امی یہ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے دیکھیں تو اس کے ہاتھ میں میری دلہن کی منہ دکھائی کا کنگن ہے۔۔وہ بیچاری ہکا بکا ایک کونے میں کھڑی سب کو دیکھ رہی تھی۔۔امی نے اس کو پکڑ کر سیج والے بیڈ پہ بٹھایا اور دلہے کو غضبناک آنکھوں سے اپنے ساتھ باہر آنے کا اشارہ کیا اور کہنے لگی۔۔کمبخت یہ کام والی نہیں، دلہن ہے تمہاری۔ ابھی منہ دھو کر آئی ہے۔۔
ایک لڑکی بتارہی تھی، حد ہوگئی ہے آج کل پتہ نہیں کیسا زمانہ آگیا ہے۔۔وجہ پوچھی تو کہنے لگی۔۔ تہجد کے وقت فیسبک پر لڑکے کی ریکویسٹ آئی.۔۔ہم نے اتنی رات کو ریکویسٹ بھیجنے کی وجہ پوچھی تو بولا۔۔آپ اکسیپٹ کریں ۔۔ قبولیت کا وقت ہے ۔۔ رشتے دار انکل نے جب ہمارے پیارے دوست سے پوچھا۔۔اور بیٹا آگے کا کیا پلان ہے؟؟ وہ بولے۔۔ بس انکل آپ کے جاتے ہی نمکو کھاؤ ں گا،سموسے تو آپ سارے ڈکار گئے ہیں ۔۔ویسے سوشل میڈیا ہے ہی عجیب چیز ،ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔اگر انڈے بھی خرید لاؤ تو گھر والے پورے گن کر لیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ہر دوسرے دن کوئی خاتون کہتی ہیں کہ۔۔۔مجھے بہت ٹرسٹ ہے آپ پر۔۔ سڑک کے کنارے ایک فقیر بیٹھا ہوا تھا اس کے پاس کار آ کر رکی اس میں سے ایک آدمی اترا اور فقیر سے بولا۔کیا تم جوا کھیلتے ہو؟۔فقیر نے کہا ،نہیں۔۔کیا شراب پیتے ہو؟فقیرنے پھر نفی میں گردن ہلادی۔۔کیا کلب جاتے ہو؟ فقیر نے ہاتھ سے نہیں کا اشارہ کیا۔۔رات کو گھر دیر سے جاتے ہو؟؟ فقیرنے گھبراکر کہا۔۔نہیں جناب۔۔کاروالا اپنی گاڑی سے اترا اور فقیر سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔۔اچھا تو پھر میرے ساتھ گھر چلو میں اپنی بیگم کو بتانا چاہتا ہوں جو لوگ یہ سب کام نہیں کرتے ان کی حالت کیا ہوتی ہے۔
بیویاں بھی کم نہیں ہوتیں۔۔ایک عورت دوسری عورت سے کہنے لگی۔۔ ’’میں نے اپنے پہلے شوہر کو شادی کے دوماہ بعد ہی لکھ پتی بنا دیا۔ ‘‘۔دوسری نے پوچھا۔۔ ’’تو کیا پہلے وہ بہت غریب تھے؟‘‘۔پہلی نے کہا ۔ ’’نہیں پہلے وہ کروڑ پتی تھے؟‘‘۔۔اب شوہروں کی بھی سن لیں۔۔ ایک کی بیوی مرگئی، رشتہ داروں اور دوستوں نے اس کا رونادھونا ختم کرانے کے بعد پوچھا۔۔ تمہیں کچھ چاہیئے؟؟۔۔ وہ بولا۔۔ ہاں مجھے میرا لیپ ٹاپ لادو۔۔سب نے پوچھا ، لیپ ٹاپ کا کیا کرنا ہے؟۔۔ وہ بڑی معصومیت سے بولا۔۔فیس بک پر اسٹیس ’’سنگل‘‘ کرنا ہے۔۔اسے کہتے ہیں وقت کی قدر کرنا۔۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔پھپھو بھی نوڈلز کی طرح ہوتی ہیں۔ دو منٹ میں الجھنے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔۔وہ مزید فرماتے ہیں۔۔اگر پھپو چاند پر بھی چلی جائیں تو یقینا زمین واپسی پر سب سے پہلی بات یہی ہو گی کہ کسی نے پانی تک نہیں پوچھا وہاں۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔انسان اگر زبان کے استعمال کی بجائے دماغ کا زیادہ استعمال کرے تو بہت سے مسائل اور مشکلات سے بچ سکتا ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔