تنخواہوں میں اضافے کے لیے حکمراں،اپوزیشن متحد۔ ۔ کارکردگی ؟؟
شیئر کریں
ارکان اسمبلی نے تنخواہوںاور مراعات میں یکدم سے کئے جانے والے اس اضافے کو بھی ناکافی قراردے دیا،ڈیڑھ لاکھ تنخواہ اور مراعات حیثیت اور کارکردگی کے اعتبار سے بہت کم ہونے کا شکوہ
ایوان سے دنوں نہیں بلکہ مہینوں غائب رہنے والوں کے احتساب کا کوئی طریقہ کار نہیں ،2015کے آخری 6 ماہ میں عمران خان نے 42میں سے 1 ،فریال تالپور اور حمزہ شہبازنے 2-2اجلاسوں کو رونق بخشی
ایچ اے نقوی
وفاقی کابینہ نے حال ہی میں وزیر اعظم ،وفاقی وزرا ،وزرائے مملکت سمیت تمام ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اسپیکر وڈپٹی اسپیکر اور چیئرمین وڈپٹی چیئرمین کی تنخواہوں اور مراعات کااعلان کرتے ہوئے ان کو دی جانے والی تنخواہوں میں 150فیصد تک کا اضافہ کردیا ہے،جس کے تحت اب ارکان اسمبلی کی تنخواہ کم وبیش ڈیڑھ لاکھ ماہانہ ہوجائے گی جبکہ دیگر مراعات اور سہولتوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہونے کا امکان ہے ۔یہی نہیں ،بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جو عام طورپر ہر بات پرایک دوسرے پر تنقید کے تیر برساتے اور نشتر چبھوتے نظر آتے ہیں دونوں ہی اس فیصلے کی حمایت میں نہ صرف یہ کہ متحد ہوگئے بلکہ تنخواہوںاور مراعات میں یکدم سے کئے جانے والے اس اضافے کو بھی انھوں نے ناکافی قرار دیاہے۔ یہاں یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ وزیر اعظم ،وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں یہ اضافہ ان کو ملنے والی دیگر مراعات کے علاوہ ہے جس میں مینٹیننس الاﺅنس ،حلقہ جاتی الاﺅنس ، یوٹیلیٹی الاﺅنس اور سفری اخراجات شامل ہیں۔اس کے علاوہ یہ عوامی نمائندے اور عوام کے غمخوار وزیر اعظم اور وزرا کو آئی ٹی کے مختلف ڈیوائسز ، آلات ،اکیوپمنٹس حاصل کرنے اور ٹیلی فون اور ملک کے اندر اور بعض حالات میں بیرون ملک سفراور اندرون ملک اور بیرون ملک علاج معالجے کی لامحدود سہولتیں بھی حاصل ہوتی ہیں،اور یہ تمام رقم اس ملک کے غریب عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں سے جمع کردہ فنڈ سے ادا کی جاتی ہےں۔اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم ،وفاقی وزرا ،اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اورسینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئر مین سمیت ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوںاو ر مراعات میں اضافے کا جو سبب بتایا گیا ہے اس سے پاکستان کا ہر شہری دوچار ہے اوراس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری محکموں ، اداروں اور صنعتوں میں کام کرنے والے پاکستانی عوام ارکان پارلیمنٹ اور وزرا سے زیادہ تندہی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے نظر آتے ہیں جبکہ وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ وہ نہ تو اپنے محکموں پر پوری طرح توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہے۔یہاںمضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم ،وزرا اور ارکان پارلیمنٹ جنھیں عوام نے اپنے ووٹ دے کر اپنے مسائل حل کرانے کیلئے پارلیمنٹ کے اعلیٰ ایوانوں میں بھیجا ہے ۔اس پلیٹ فارم کو عوام کی بہبود کیلئے قانون سازی، ان کو سہولتیں فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے بجائے خود اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔
ہم یہاں یہ نہیںکہتے کہ تمام ارکان اسمبلی و سینیٹ ایوانوں میں جانے کے بعد مختلف ذرائع سے دولت جمع کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔یقیناً ایسے ارکان پارلیمنٹ بھی ہوں گے جو انتہائی دیانتداری سے اپنے فرائض کی انجام دہی پر توجہ مرکوز رکھتے ہوں گے اور انھیں ان کے منصب کے مطابق تنخواہیں اور اجرتیں ملنی چاہئیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی دیگرارکان اسمبلی کو بھی اپنے قول وفعل سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ واقعی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے حقدار ہیں اور انھیں سرکاری خزانے سے جو رقم اور مراعات ادا کی جارہی ہیں وہ ان کی حیثیت یا ان کی کارکردگی کے اعتبار سے بہت کم ہیں۔
پاکستان کے عام شہری یعنی ووٹر کو اس بات سے زیادہ غرض نہیں ہے کہ ان کے غمخوار وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کتنی تنخواہیں یامراعات لے رہے ہیں ۔اگر ان کی تنخواہوں میں 150فیصد کے بجائے 500فیصد اضافہ بھی کردیاجائے توشاید وہ احتجاج کیلئے سڑکوں پر نہ نکلیں ، لوگ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کے خون پسینے کی کمائی سے رقم لینے کے بعد وہ ان کے مسائل حل کرنے کی جانب بھی توجہ دیں اور خود سہولتیں اور مراعات حاصل کرنے کے ساتھ ہی انھیں بھی سہولتیں فراہم کرنے کی سعی کریں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ عوام کے ووٹ لے کر ان کے مسائل حل کرنے کے بلند بانگ دعووں کے ذریعے ایوان میں پہنچنے والے رکنیت کاحلف اٹھاتے ہی عوام کو یکسر فراموش کردیتے ہیں۔
یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے کہ ارکان اسمبلی رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد شاید ہی کسی عوامی مسئلے کے حل کیلئے کھڑے ہوئے ہوں اور انھوںنے اس طرح کے حکمران اپوزیشن اتحاد کامظاہرہ کیاہو جس کامظاہرہ انھوںنے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی منظوری کے حوالے سے کیا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام کے ووٹ لے کر ایوان میں جانے والے ارکان اسمبلی عوام کے پیسوں سے پرتعیش زندگی توگزارتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر عوام کیلئے ایوان میں آواز اٹھانا تو کجا ایوان کے اجلاسوں میں شرکت کرنا بھی کسر شان تصور کرتے ہیں۔لیکن ایوان سے دنوں نہیں بلکہ مہینوں غائب رہنے والوں کے احتساب کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔جبکہ اگر کسی سرکاری یا نجی ادارے کاملازم اپنی مخصوص سالانہ چھٹیوں سے ایک دن بھی زیادہ چھٹی کرلے تو اس کی تنخواہ سے کٹوتی کرلی جاتی ہے۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ان کے نمائندوں کی ایوان میں حاضری کی صورتحال کااندازہ فافین نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے جاری کی جانے والی اس رپورٹ سے لگایاجاسکتا ہے جس کے مطابق24نومبر کوشروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایوان میں ارکان کی تعداد کی شرح7فیصد تھی جبکہ ایوان کے آخری اجلاس میں بھی ارکان کی حاضری 16فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ ایوان میں ارکان کی حاضری کے حوالے سے سامنے آنے والے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ عوام کے ووٹ لے کر ایوان میں پہنچنے والے 86فیصد ارکان پارلیمنٹ نے اپنے ذمہ دارہونے کا ثبوت نہیں دیا۔ فافین کی اس رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ 2013سے اب تک 50فیصد سے زیادہ ارکان اسمبلی نے ایوان کے اجلاسوں کے دوران کسی کارروائی میں بحث میں حصہ نہیں لیا، یہی نہیں بلکہ ایوان یعنی قومی اسمبلی کے 342ارکان میں سے 159ارکان نے پورے سیشن کے دوران ایک سوال بھی نہیں پوچھا۔
ارکان قومی اسمبلی خاص طورپر سڑکوں پر عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے اور حکومت کو گرانے کیلئے لوگوں کو دھرنوں اور مظاہروں پر اکسانے والے معروف سیاستدانوں نے ایوان میں عوام کی نمائندگی کا حق کس حد تک ادا کیا اس کااندازہ بعض معروف سیاستدانوں کی2015 کے آخری 6ماہ کے دوران ایوان میں حاضری سے متعلق اعدادوشمار سے لگایاجاسکتاہے جس کے مطابق عوام کو متحرک کرنے کے دعویدار اور شفافیت اور ایمانداری کا درس دینے والے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے قومی اسمبلی کے 42اجلاسوں میں سے صرف ایک اجلاس میں شرکت کی۔ خود کو خادم عوام قرار دینے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے حمزہ شہباز 42اجلاسوں میں صرف2اجلاسوں میں شرکت کیلئے اپنا قیمتی وقت نکال سکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی پھوپھی جان فریال تالپور کو بھی 42 اجلاسوں میں سے صرف 2ہی اجلاسوں میں شرکت کی فرصت مل سکی، سابقہ اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرز ا صرف 3اجلاسوں میں شریک ہوئیں، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خاں، 2015کے آخری 6ماہ کے دوران صرف 6اجلاسوں میں شرکت کرسکے۔ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ارکان اسمبلی عوام کے کتنے خیر خواہ ہیں اور وہ تنخواہوں میں کتنے فیصد اضافے کے حقدار ہیں۔