آرمی چیف کی مدت ملازمت 6 ماہ بعد ختم نہیں ہوگی، فروغ نسیم
شیئر کریں
آرمی چیف کے وکیل و سابق وزیرقانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی مدت جمعرات کی رات 12 بجے کے بعد سے جاری رہے گی اور چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت 6 ماہ بعد ختم نہیں ہوگی۔چھ ماہ میں بننے والے قانون کے تحت آرمی چیف کے عہدے کی مدت اور نوعیت طے ہوگی۔ اسلام آباد میں سابق وزیرقانون فروغ نسیم، فردوس عاشق اعوان، شہزاد اکبر اور اٹارنی جنرل انور منصور خان نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کی سمری بھی گزشتہ طریقہ کار کے مطابق تھی، چونکہ روایت تھی تو آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن بنا دیا گیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں کہیں کوئی ذکرنہیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف کیسے تعینات ہوگا اوراس کا میرٹ کیا ہوگا لہذا 73 کے بعد جتنے بھی فوجی جنرل کو توسیع دی گئی اسی طریقے سے سمری بنائی گئی تو اس میں کوئی نئی چیز شامل نہیں تھی اور آرمی ایکٹ پہلے کبھی چیلنج نہیں ہوا، آج تک اس ایشوپر کسی عدالت نے فیصلہ نہیں دیا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج کا فیصلہ تاریخی ہے جس سے آئندہ کے لیے ہمیں رہنمائی ملے گی، عدالت نے آخری نوٹی فکیشن قبول کرکے فیصلہ سنایا، سپریم کورٹ میں تفصیلی بحث ہوئی، بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں جو پہلے نہیں دیکھی گئی تھیں، عدالت نے کہا آئندہ قانون بنا کر نئے آرمی چیف کا تقرر ہوگا، موجودہ حکومت کے لیے آرمی چیف سے متعلق قانون بنانا اعزاز کی بات ہوگی لیکن میڈیا پراس ایشوکو بہت عجیب طریقے سے پیش کیا جارہا ہے ، اس سے دشمنوں کو ناجائز فائدہ مل رہا ہے ۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا، زیادہ بحث اس پر ہوئی کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر طے نہیں، آرمی ریگولیشنز کا رول 255 رینک اور پوزیشن طے کرتا ہے ، آئین کے آرٹیکل 243 اور رول 255 کو الگ الگ طور پر دیکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پرعزم تھے کہ قانون اور آئین پر عمل درآمد کریں گے ، عدالت نے کہا کہ تاخیر کے معاملے سے عدالت کا نام نکال دیں،1973 کے بعد سے اس کا کوئی قانون بنایا نہیں گیا، عدالت نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور طریقہ کار کا قانون بنائیں، عدالت کا زور تھا کہ 243 پر بات کریں 255 کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے ، جبکہ موجودہ حکومت کے لیے نیا قانون بنانا ایک اعزاز کی بات ہوگی۔دوسری جانب فروغ نسیم نے کہا کہ سابق جنرل اشفاق پرویز کیانی کی توسیع چیلنج ہوئی تھی مگر اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا، سپریم کورٹ کے ججز نے ہماری رہنمائی کی، چیف جسٹس، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم کا شکریہ ادا کرتے ہیں، کیس جب عدالت میں ہواور ہماری ہاتھ اورزبان بندھے ہوتے ہیں۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت جمعرات رات 12 بجے کے بعد سے جاری رہے گی اور چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت 6 ماہ بعد ختم نہیں ہوگی، آرمی چیف آئین کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں، ہمیں آرمی چیف کا بھرپورساتھ دینا چاہئے ، جنرل قمر جاوید باجوہ جیسا نڈرسپہ سالار دشمنوں کو کھٹکتا ہے ، فوج اور عدلیہ ملکی ادارے ہیں، ان کا دفاع کرنا چاہیے ، ملکی اداروں پرسیاست نہ کی جائے ۔فروغ نسیم نے کہا کہ ملک دشمن افواہیں پھیلا کر ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، قانون سازی ہم ایک ماہ میں بھی کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جج منصور علی شاہ نے میری تعریف کی، یہ بریکنگ نیوز کیوں نہیں چلائی گئی۔ جنرل باجوہ نے کھچائی کی جیسی من گھڑت خبریں چلائیں گئیں۔وکیلوں کو وکلا گردی کہتے ہیں تو فیک نیوز کو کیا گردی کہیں گے ۔ ہم ایسے چینلز کے خلاف کاروائی کا سوچ رہے ہیں۔ ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایڈوانس نوٹی فکیشن کرنا بری بات نہیں، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اصف سعید کھوسہ کا نوٹی فکیشن بھی ایڈوانس میں کیا گیا تھا جبکہ حکومت کی کوئی سمری مسترد نہیں کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے لیے پروسیجر وہی فالو کیا گیا جو سالہا سال سے فالو ہو رہا تھا جبکہ آج جمہوریت، آئین اور قانون کی جیت ہوئی ہے ۔وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ آج جمہوریت کی جیت ہوئی ہے ، ملک سے باہر پاکستان کے دشمن ہیں ان کے خواب چکنا چور ہوگئے ، عدالت نے قانونی سقم دور کرنے کیلئے کیس سنا، اس کیس کو کسی شخصیت کیساتھ نہ جوڑا جائے ۔ فردوس عاشق اعوان نے کہاہے کہ کچھ چینل پر یہ کہا جارہاہے کہ آرمی چیف کی جومدت ہے وہ چھ ماہ بعد جب قانون بن جائے گا ، اس وقت سے شروع ہوگی لیکن ایسی بات نہیں ہے ۔فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اس کیس کو کسی شخصیت کے ساتھ نہ جوڑاجائے ، عدالت نے جو لیت ولعل تھے ان کودرست کرنے کا موقع دیاہے ۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ آج کا فیصلہ بہت تاریخی فیصلہ ہے ، عدالت نے واضع کردیا ہے آرٹیکل243 وزیراعظم اور ایگزیکٹو کا اختیار ہے ، عدالت نے لیگل ایشور پر رہنمائی کی، آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا، موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر اس مسئلہ پر محتاط انداز میں بحث کی جائے ،شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیر اعظم کو حاصل اختیار کے تحت ہی یہ تقرری ہوئی ہے ، جبکہ آرٹیکل 243 کے تحت وزیر اعظم کا تقرری و توسیع کا حق تسلیم کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ نوٹی فکیشن بلکل واضح ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں، نیا قانون ‘ایکٹ آف پارلیمنٹ’ کے ذریعے بنے گا جبکہ آرمی ایکٹ میں بھی ترمیم ہوگی۔