توہین عدالت کیسز، غلام سرور خان اور فردوس عاشق اعوان بری
شیئر کریں
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی وزیر برائے ایوی ایشن غلام سرور خان اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کیسز سے بری کر دیا۔ عدالت نے دونوں رہنمائوں کو معاف کرتے ہوئے ان کی غیر مشروط معافی قبول کر لی اور انہیں جاری توہین عدالت کے شوکاز نوٹس واپس لے لئے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت مطمئن تھی کہ آپ نے جو کچھ بھی کہا وہ توہین عدالت میں ضرور آتا ہے لیکن عدالت اس کے باوجود توہین عدالت کے شوکاز نوٹس واپس لے رہی ہے ۔ سیاست کے لئے اداروں کو متنازعہ بنانا درست نہیں ہے اور توقع رکھتا ہوں کہ آپ اداروں پر لوگوں کا اعتماد بڑھائیں گے اور غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کریں گے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت تنقید سے نہیں گھبراتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ دونوں ذمہ دار پوزیشن پر ریاست کے بڑے عہدے پر وفاقی کابینہ کے ارکان بھی ہیں۔پیر کے روز غلام سرور خان اور فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش ہوئے ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ میں ایک چیز کی تعریف کروں گا کہ غلام سرور خان نے کہا کہ ان کا بیان سیاسی تھا اور انہوں نے اپنے بیان پرغیر مشروط معافی مانگی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ عدلیہ سمیت کوئی بھی پرفیکٹ نہیںتاہم سیاست کے لئے عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد اٹھانا نقصان دہ ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جہاں انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہو وہاں توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار استعمال کیا جاتا ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا آنے کے بعد عدلیہ کی آزادی کے لئے اور چیلنجز پیدا ہوئے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ پر جب تنقید کی جاتی ہے تو اس سے اداروں پر اعتماد اٹھ جاتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ جو کابینہ کے اراکین ہیں، حکومت کے لوگ ہیں اور سیاسی لوگ ہیں وہ سیاسی بیانات میں عدلیہ کو ملوث نہیں کریں گے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ غلام سرور خان اور فردوس عاشق اعوان کو جاری توہین عدالت کا نوٹس واپس لے رہے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم ان کیسز کے حوالہ سے تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے کہ توہین عدالت کیسز کے جو سیاسی لوگوں کے بیانات ہوتے ہیں ان کے کیا اثرات ہوتے ہیں ۔