رشوت ایک ناسور
شیئر کریں
مفتی شعیب عالم
وہ گناہ جوشرعًاحرام،اخلاقًاظلم اور قانون ًاجرم ہے۔جس کالینے والا،دینے والااوردرمیان میں پڑنے والاسب جھنمی ہیں۔ایساگناہ کہ جب کوئی قوم اس میں مبتلاہوجاتی ہے تودشمن سے مرعوب ہوجاتی ہے۔اوردشمن آسانی سے اسے روندتاہوافتح حاصل کرلیتاہے۔”مامن قوم یظہرفیھم الرشاءالااخذبالرعب“(الحدیث)وہ گناہ جس کے مرتکب پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہے،اس کے رسول کی لعنت ہے،اللہ کی لعنت ہے اس لیے وہ نظررحمت نہیں فرمائیں گے،اوررسول کی لعنت ہے اس لیے وہ سفارش سے گریزفرمائیں گے۔قارئین سمجھ گئے ہونگے کہ رشوت کی بات ہورہی ہے،ہمارے معاشرے کواب یہ ناسورلگ گیاہے،اس کے رگ وپے اوررنگ رنگ میں سرایت کرگیاہے۔حدیث شریف کے مطابق جس جسم کی پرورش حرام غذاسے ہواس کے لیے جہنم کی آگ ہی بہترہے۔آج جب زمانہ ترقی پرہے اورہرعلم وفن میں ترقی ہورہی ہے،اس کے ساتھ جرائم کی بھی نت نئی ترقی یافتہ شکلیں سامنے آرہی ہیں،رشوت اب نئے اندازاوربدلے روپ میں لی اوردی جارہی ہے۔۱۔کوئی جہانگیرہے تواسے نورجہاں کے ذریعے شیشے میں اتاراجاتاہے۔۲۔پینے پلانے کارسیاہے توشراب کی بوتلیں نہیں بلکہ پیٹیاں اسے فراہم کی جاتی ہیں۔۳۔اگرسیم وزرکاشوقین ہے توجائیداداسے سستے داموں فروخت کرکے مہنگی قیمت پرخریدلی جاتی ہے۔۴۔اگرکلب کاممبرہے تواس کلب کی رکنیت حاصل کرکے اس کے ہاتھ بڑی رقم جوئے میں ہاری جاتی ہے۔زمینداراپنے مال میں سرکاری زکوة کے نام سے الگ فنڈرکھتے ہیں،جومحکمہ مال اورآب پاشی کے راشی افسران کی نذرکردی جاتی ہے۔بعض جگہوں میں رشوت جاریہ ہوتی ہے۔رشوت ذات کونہیں بلکہ عہدے اورمنصب کوملتی ہے۔جوبھی اس منصب پرفائزہوتاہے۔رشوت لینااس کافطری حق سمجھاجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض عہدوں کے لیے باقاعدہ بولیاں لگتی ہیںاوربعض محکمے اس سلسلے میں کافی بدنام ہوتے ہیں۔زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ مقدس اورقابل احترام پیشے بھی ناپاک کمائی سے پاک نہیں رہے ہیں۔پہلے طبیب اورڈاکٹر”بسم اللہ“پڑھ کراور”ھوالشافی“ لکھ کرنسخہ لکھتے تھے۔مریض کی آوازسن کراس کی شکل دیکھ کراورنبض پرہاتھ رکھ کراپنی فراست سے مرض کی تشخیص کرلیاکرتے تھے۔مولاناسیدسلیمان ندویؒ ہندوستان میں ریڈیوپرتقریرکررہے تھے،اوربنگال میں ایک شخص نے تقریرسن کرمولاناکولکھاکہ آپ احتیاط کریں،بہ صورت دیگرآپ کوعارضہ قلب لاحق ہوسکتاہے ان صاحب کی تشخیص درست تھی،حضرت مولاناچنددن بعدعارضہ قلب کاشکارہوئے۔آج ٹیسٹوں کی بھرمارہوتی ہے،گھرپردیکھنے اورکلینک پردیکھنے میں فرق ہوتاہے،یعنی فیس میں فرق ہوتاہے،عام مریضوں اورپرائیویٹ مریضوں کوامتیازسے دیکھاجاتاہے۔بعض جگہ ڈاکٹرآپریشن کوسنگین بناکرمزیدرقم کامطالبہ کرتے ہیں۔بڑے ہسپتالوں میں کیش کی صورت میں آپریشن کے لیے پیشگی رقم جمع کراناضروری ہے اگرچہ مریض تڑپ رہاہو،مگر”رحم دل مسیحا“کادل پسیجتانہیں ۔اعضاءچوری ہونے،گردہ غائب ہونے کی خبریں آئے دن اخبارات میں چھتی رہتی ہیں،ظاہرہے کہ یہ کام ڈاکٹرکے سواکسی اورکے بس کانہیں۔ڈاکٹری اورطبابت کے ساتھ معلمی بھی انحطاط کاشکاراورروبہ زوال ہے۔اسلامی معاشرے میں معلم کامقام بادشاہ وقت سے زیادہ ہوتاہے،مگرجب سے علم کوتول تول کرفروخت کرناشروع ہواہے اورعلم کامقصدصرف پیٹ کی آگ بجھاناہوگیاہے اس وقت سے علم سے نوراوربرکت ختم ہوگئی ہے۔آج ہم قوانین کے ذریعے اس لعنت کی روک تھام چاہتے ہیں،اورقانون پرقانون بناتے ہیںمگرجوں ہی کوئی نیاقانون آتاہے رشوت رشوت کادروازہ چوپٹ کھل جاتاہے۔قانون مادرزادنابیناہوتاہے اس لیے بڑی سے بڑی برائی عین قانون کی موجود گی میں بلکہ اس کی روشنی میں ہوتی ہے۔قانون کوحرکت میں لاناپڑتاہے وہ خودکچھ نہیں کرسکتا ہے اورنہ کچھ دیکھ سکتاہے اوررشوت کاکام چونکہ باہمی رضامندی سے ہوتاہے اس لیے سخت سے سخت قوانین بے اثرہیں،اورنتیجہ صفرہے۔اگرقانون سے جرائم کاانسدادہوتاتوآج کی دنیاسب سے بڑی عابدوزاہدہوتی کیونکہ صرف مملکت خدادادپاکستان میں ہزاروں قوانین رائج ہیں۔دورغلامی میں چندانسپکٹرزہوتے تھے مگراب انسپکٹروں کی فوج ظفرموج ہے اورکرپشن ہے کہ ہواکی طرح ہرجگہ حلول کرگئی ہے۔جتنے قوانین ہیں وہ سب کے سب انسان کے بنائے ہوئے ہیں،اورانسان میں خامیاںہیںتواس کے بنائے ہوئے قوانین میں کیوں خامیاںنہ ہوں گی۔ہرعیب ہرنقص،ہرکمی اورخامی سے پاک صرف وحی پرمبنی قانون ہے مگرہم مسلمان ہیں کہ اس کی طرف ہم نے اپنی آنکھیں بندکررکھی ہیں۔زہرپی رہے ہیں،آگ اگل رہے ہیں،وجودہمارابھسم اورزندگی ہماری جہنم بن چکی ہے،مگرہم نسخہ کیمیا،اکسیرنجات اوردوائے شافی سے پرہیزکررہے ہیں۔
”وائے ناکامی متاع کارواں جاتارہا
کارواں کے دل سے احساس ضیاع جاتارہا“
ہمیں ٹھنڈے دل ودماغ سے اس مسئلے پرغوروفکرکرناچاہئے مرض کے علاج سے پہلے اس کی تشخیص اوراسباب ووجوہات کاپتہ چلانا ضروری ہے۔ہمارے اسلاف اس لعنت سے دورتھے،کیونکہ ان کی معاشرت سادہ اورروحانی تھی،کھانے پینے،لباس اورمکان پران کابہت کم خرچ ہوتاتھا،اس کے ساتھ انہیں اپنی خواہشات پرکنٹرول حاصل تھا،اوریہ حقیقت ہرآن ان کے پیش نظرتھی کہ دنیاخواہشات کی تکمیل کی جگہ نہیں ہے،اب حال یہ ہے کہ روحانیت کے بدلے مادیت سرایت کرگئی ہے،جب سے مغرب کی بادمسموم چلی ہے،تب سے قدریں ہی بدل گئی ہیں،ہرشخص عیش اورکیش چاہتاہے ہردل کی امنگ جلدسے جلدامیرتربننے کی ہے۔ کوٹھی، بنگلہ،کارہرایک کی ضرورت ہے،وسائل اجازت نہیں دیتے ہیںاورخواہش کودباناجانتے نہیں، اس لیے گندگی میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ رشوت کی وبااس لیے عام ہے کہ تنخواہیں کم ہیںیہ وجہ بھی درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ جن کی تنخواہیں زیادہ ہیںوہ بھی اس گندگی میں لت پت ہیں،بڑے بڑے افسران قومی سودوں میں، خریداریوں میں، اسکیموں، منصوبوں میں پرمٹ اورالاٹ منٹوں میں گھپلے کرتے ہیںحالانکہ دولت کی ان کے پاس کمی نہیں ہے۔اصل وجہ یہ ہے کہ برائیوں کے انسدادکااسلامی فلسفہ نہیں آزمایاجارہاہے،اسلام معاشرے کی اصلاح کے لیے صرف قانون کوکافی نہیں سمجھتاہے،بلکہ اس کے ساتھ دلوں میں خوف خدااورفکرآخرت بھی پیدا کرتا ہے، جودل اس دولت سے آبادہو،وہ گنج قارون کوبھی پائے حقارت سے ٹھکرادیتاہے۔جواس خزانے سے مالامال ہووہ کسی اورخزانے کی طرف للچائی ہوئی نگاہ نہیں ڈالتاہے۔جس نے اللہ ورسول کی محبت کے جام پی لیے اس کے لیے ہفت اقلیم کی سلطنت ہیچ ہے۔اس زمانے میں بھی جولوگ اس گندگی سے دامن بچائے ہوئے ہیںان کا ضمیر مطمئن، چہرے تروتازہ اورہشاش بشاش،ضروریات محدوداورسفراورآخرت کے لیے وہ ہردم تیارہیں۔آخری بات کرکے آپ سے رخصت چاہتاہوںضرورتیںاللہ تعالیٰ پوری فرمادیتے ہیںمگرہوس کسی کی پوری نہیں ہوتی ہے۔یہاں تک کہ بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتی ہے۔