ٹرمپ مسلمانوں کی طرف بھی ہاتھ بڑھائیں
شیئر کریں
. نیویارک کے پولیس ڈیپارٹمنٹ میںقائم ‘مسلم پولیس افسرز ایسوسی ایشن کی بروکلین میں ریلی ، دیگر مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی
ٹرمپ کو مبارکباد ، انہیں یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ اس ملک میںمسلمان بھی رہتے ہیں اور امریکی مسلمان ان سے تعاون پر تیار ہیں،مسلم رہنماﺅں کا خطاب
سلیم رضوی ( نیو یارک)
امریکا میںآباد اقلیتوں خاص طورپر مسلمانوں میں اس بات کے لیے خوف و ہراس پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ جب اقتدار سنبھالیں گے تو کس طرح کی پالیسیوں پر عمل کریں گے ۔امریکا کے شہر نیویارک میں مسلم برادری کی جانب سے ایک ریلی منعقد کی گئی جس میں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد کمیونٹی میں پائے جانے والے ‘خوف اور بے چینی کا اظہار کیا گیا۔اس ریلی میں کچھ لوگوں نے ٹرمپ کے ساتھ تعاون کرنے کی بھی بات کہی۔. نیویارک کے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں مسلم پولیس افسران کی ایک تنظیم ‘مسلم پولیس افسرز ایسوسی ایشن نے بروکلین میں اس ریلی کا انعقاد کیا جس میں دیگر مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔اس ریلی میں مختلف تنظیموں کے نمائندوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکی مسلمانوں میں پنپنے والے ‘خوف کا ذکر کیا۔مسلم پولیس افسرز ایسوسی ایشن کے صدر عدیل رانا نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ‘ہم اپنے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو انکی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ انہیں یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں وہ امریکی بھی رہتے ہیں جو مسلمان ہیں۔ میں اپنے نو منتخب صدر سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کی طرف بھی ہاتھ بڑھائیں، امریکی مسلمان بھی ان سے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔عدیل رانا نے مسلم برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ کسی بھی خوف کے بغیر اپنی زندگی جیسے گزارتے آئے ہیں ویسے ہی گزاریں اور کسی بھی قسم کے نسلی امتیاز کے معاملے پر پولیس کو مطلع کریں۔
امریکا میں رہنے والے بہت سے مسلمانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بعض متنازع بیانات کے حوالے سے ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کی باتیں کہی تھیں۔ریلی میں شامل ایک مسلم تنظیم ‘ون نیشن امریکا کے صدر ندیم میاں کا کہنا تھا کہ مسلمان امریکا میں ہی رہیں گے۔ندیم میاں کہتے ہیں: ‘امریکا مسلمانوں کا مسکن ہے، اور ہم امریکا سے کہیں نہیں جا رہے۔ ہمیں ایک ساتھ مل کر نفرت کا جواب محبت سے دینا ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ امریکا میں دہشت گردانہ حملوں سے تحفظ کے مد نظر کچھ وقت کے لیے مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی جانی چاہیے۔گذشتہ چند ماہ میں انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اس معاملے پر اپنا موقف ذرا نرم کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ دنیا بھر کے ان علاقوں سے امریکا میں داخل ہونے کے لیے آنے والے لوگوں کی پہلے مکمل تحقیقات ہونی چاہئے۔ ٹرمپ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کی مساجد اور ان کے محلوں وغیرہ کی نگرانی کی جانی چاہیے۔کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنزنامی ایک امریکی مسلم ادارے کے مطابق امریکا میں ٹرمپ کی جیت کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے خلاف 100 سے زائد مذہبی اور نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک اور حملوں کے مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔مسلمانوں میں اس بات کے لیے خوف و ہراس پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ جب اقتدار سنبھالیں گے تو کس طرح کی پالیسیوں پر عمل کریں گے۔نیویارک کی ریلی میں شریک ہونے والے ایک امریکی مسلم نوجوان ذیشان احمد ایک پوسٹر تھامے ہوئے تھے۔ اس پر لکھا تھا کہ امریکا نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کرتا۔
امریکا میں ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد مسلمانوں سمیت کئی برادریوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔مسلمانوں کے بارے میں ٹرمپ کے بیانات کے حوالے سے ذیشان احمد کہتے ہیں: ‘مسلمانوں میں خوف اس لیے پایا جاتا ہے کیونکہ ٹرمپ کے بیانات سے یہ لگتا ہے جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ سارے مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔ ہم اس ریلی کے ذریعہ یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان امن پسند ہیں اور سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے۔نیویارک شہر کے میئر بل ڈی بلاسیو کی ایک مسلم مشیر سارا سعید بھی ریلی میں شریک ہوئیں جنھوں نے ریلی میں میئر کا پیغام پڑھ کر سنایا اور مسلم شہریوں سے اپیل کی کہ وہ بلاخوف اپنی زندگی بسر کریں۔سارا سعید نے نسلی امتیاز کے متعلق کہا: ‘اگر کسی کے بھی ساتھ نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق یا امتیاز برتنے کا کوئی معاملہ پیش آئے یا آپ کو اس کے بارے میں پتہ چلے تو فوراً شہر کے محکمہ پولیس کو مطلع کریں۔ اگر کوئی تشدد کا معاملہ ہو تو فورا 911 پر کال کریں۔
ریلی میں آنے والے بہت سے لوگوںنے ٹرمپ انتظامیہ کو تعاون کا بھی یقین دلایا۔ ایک پاکستانی امریکی راجا رزاق نے ٹرمپ کے بارے میں یہ بھی کہا کہ وہ اچھے انسان ہیں۔رزاق کہتے ہیں: ‘جب ٹرمپ حلف لیں گے تب وہ اچھا کام کریں گے۔ میں ٹرمپ کی کمپنی کے ساتھ کام کر چکا ہوں، وہ برے شخص نہیں ہیں، وہ بہت اچھے شخص ہیں۔ اور ہمیں ان سے اچھی امید بھی رکھنی چاہیے۔امریکا کے مسلمانوں سمیت بہت سے لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ حلف برداری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا کے مسلمانوں کے تئیں کیا برتاو¾ رہےگا۔
نائن الیون کے بعد سے امریکی مسلمان اپنی غیر اعلانیہ نگرانی سے مسلسل بے چین ہیں۔ اب اگر اعلانیہ نگرانی شروع ہو جاتی ہے تو کیا اہم تبدیلی آئے گی؟ٹرمپ انتظامیہ میں جس طرح کے لوگ لائے جا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے ان کی مرتب کردہ پالیسیوں سے امریکا پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی نسلی کشیدگی میں دوبارہ لوٹ جائے۔ میکھارتھی ازم ایک نئے عزم کے ساتھ قبر سے نکل آئے۔کوکلس کلان جیسی متشدد تنظمیں کھل کھیلیں۔سیاہ فاموں کی زندگی جہنم ہو جائے۔ مسلمانوں سے مذہبی منافرت کو کئی گنا بڑھاوا ملے۔ امریکا کا لبرل جمہوری امیج لڑکھڑا کے مجسمہِ آزادی کے قدموں میں آن گرے اور امریکن ڈریم فاشزم کی کگر پر پہنچ جائے؟