میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بدترین جمہوریت آمریت سے بہترہے

بدترین جمہوریت آمریت سے بہترہے

منتظم
بدھ, ۲۳ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

احمد اعوان
یہبات اب کوئی رازنہیںہے کہ عمران خان اورطاہرالقادری کادھرناایک طے شدہ منصوبہ کاحصہ تھا،اوراس منصوبہ سازی کے عمل میں جولوگ شامل تھے ان میں سے بھی تقریباسبھی کے نام اب باہرآچکے ہیںمگراس دھرنے کی ناکامی میں حصہ ملانے والے کچھ اشخاص کے نام قوم شایدمستقبل میں جان سکے کیونکہ اس دھرنے کی ناکامی میں جن لوگوںنے اپنافرض نبھاتے ہوئے اپناکرداراداکیااورآئین اورقانون کی بالادستی کوقائم رکھنے میں اپناحصہ ڈالاتھابلاشبہ وہ لوگ تعریف کے قابل ہیںاوران لوگوںکی یہ قوم احسان مندبھی ہے کہ ان جیسے فرض شناس بااصول اورمحب وطن افسران کی موجودگی میں ہم لوگ اس وطن میں رہتے ہیں۔دوسرے دھرنے میں توکسی کوکچھ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی کیونکہ نہ عمران خان بنی گالہ سے باہرنکلے نہ لوگ گھروںسے نکلے۔ باقی جوکہتے ہیںکہ” سب قابومیں ہے“ ”بس آپ (Move)موو کریں“ وہ بس کہتے ہی ہیں، وہ لوگ جمع کرکے نہیں دیتے۔ اس بارعمران خان کے ساتھ بہت بڑاہاتھ ہوا، شایداتنے کم لوگ اکھٹاہونے کاشبہ عمران کوبھی نہ ہواہوگا۔لیکن یہ دھرناکسی اشتراک کے بغیرتھا اس کااندازہ اسی روز ہوگیا تھا جس روزعمران نے لوگوںسے سوسوروپے چندہ مانگا تھا۔ اصولی طورپرعمران کوچندہ پچھلی مرتبہ مانگناچاہئے تھاکیونکہ پچھلی مرتبہ طاہرالقادری بھی اپنے مقلدوں کے ساتھ شریک تھے اورطاہرالقادری سے لاکھ اختلاف اپنی جگہ مگریہ بات ماننی پڑے گی کہ طاہر القادری کے مقلدین عمران کے متاثرین کے مقابلے میں زیادہ منظم، زیادہ باحیاء، زیادہ بااخلاق اور زیادہ قربانی دینے کے جذبے سے سرشار تھے۔ اس کی دوبنیادی وجوہات ہیںایک توطاہرالقادری مذہب کے لبادے میں کام اتارنے کے عادی ہے لہذا مذہبی لوگ مذہب کی محبت میں اس کے ساتھ جمع رہے دوسراوہاںشریک منہاج القران کے اکثریتی لوگ اپنی فیملیزکے ساتھ تشریف لائے تھے لہٰذاجب کسی مجمع میں آئے ہوئے مردکی بہن، بیٹی، بیوی، ماںبھی وہیںہو، تب اس کے امکانات نہ ہونے کے برابرہوتے ہیںکہ وہ پڑوس میں کھڑی کسی عورت کی طرف متوجہ ہو۔لیکن دوسری طرف عمران کے چاہنے والے اکیلے آئے تھے، پچھلے دھرنے میں اصل موڑتب آیاجب عوام پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوئے اس وقت بعض مورخین کے مطابق آرمی چیف کے لیے یہ بات حیرت کاباعث بنی کہ جب انہوںنے اعلان کیاتھاکہ قومی املاک کی حفاظت فوج کرے گی ،اس صورت میں لوگ کیسے عمارت میں داخل ہوئے اورسرکاری عمارت کی حفاظت پرموجودفوج کادستہ کس کی ہدایت پروہاںسے ہٹا؟؟؟سونے پرسہاگاکہ اس روز وزیراعظم کو آئی جی نے ایک ٹیلی فون ٹیپ سنائی جو ڈی جی صاحب کی تھی۔وزیراعظم صاحب نے آرمی چیف کووزیراعظم ہاﺅس بلاکروہ ٹیپ سنائی جس پرمتعلقہ ڈی جی صاحب کوطلب کیاگیااوران ڈی جی صاحب نے ٹیپ سننے کے بعدجس میںان کی آوازتھی فرمایا،یہ ہمارے ہی لوگ ہیں۔اب اس معاملے کودیکھتے ہیں۔ مورخین کے مطابق دھرنے کاڈراپ سین اسی وقت ہوگیاتھا کیونکہ یہ سازش وزیراعظم کے علاوہ آرمی چیف کے خلاف بھی تھی ، اس واقعے سے چندروزقبل کورکمانڈرکانفرنس میں ان ہی ڈی جی صاحب نے آرمی چیف کے سامنے چار منصوبے رکھے۔ ڈی جی صاحب نے فرمایاکہ دھرنے کے شرکاءگوجرانوالہ سے گزریں گے ،وہاںان پرحکومتی پارٹی کے حمایتی پتھراﺅںکرینگے جس کے نتیجے میں شدید خون ریزی کاخدشہ ہے اورایسے میںہماری معلومات کے مطابق دہشت گرد پورے ملک میں اس افراتفری سے فائدہ اٹھاکرحملے کرینگے لہٰذا ہمارے یہ چارمنصوبے ہیں،ان میں چوتھامنصوبہ یہ تھاکہ ایک عارضی سیٹ اپ لایاجائے جس کے سربراہ پرویزمشرف ہونگے۔ اس موقع پرجن تین لوگوںنے تمام قبضہ کرنے والے منصوبوںکی مخالفت کی تھی ان میں جناب ناصرجنجوعہ صاحب اور عامر باجوہ صاحب شامل تھے۔ اتفاق سے عامر باجوہ صاحب اب چوتھے نمبرپرہیں۔اگرنئے آرمی چیف کے انتخاب میں سنیارٹی کومدنظرنہ رکھا گیا تو بعض ستارہ شناسوں کا خیال ہے کہ عامرباجوہ آرمی چیف ہونگے لیکن مورخین بتاتے ہیںکہ راحیل شریف صاحب کی تقرری کی طرح اس باربھی سنیارٹی کو مد نظر رکھا جائے گااورقوی امکانات ہیںکہ سنیارٹی پرپہلے نمبرپرآنے والے صاحب جوائنٹ چیف آف اسٹاف ہونگے جبکہ رمدے صاحب آرمی چیف ہونگے ،پاشااینڈکمپنی کی شدیدخواہش کے باوجود پانامالیکس کافیصلہ آرمی چیف صاحب کی رخصتی سے قبل نہیںآرہااورفیصلہ آنے کی صورت میںزیادہ سے زیادہ جوہوگاوہ یہ کہ وزیراعظم صاحب نااہل ہوسکتے ہیں،ویسے اس کے امکانات کم ہیںکیونکہ بہرحال کورٹ میں ثبوت مریم صاحبہ کے خلاف آسکتے ہیں،حسین اورحسن نوازکے خلاف آسکتے ہیںمگرنوازشریف کے خلاف تحریک انصاف ثبوت نہیںلاسکے گی۔اگرکسی صورت میں کچھ خلاف معمول ہوابھی تب بھی وزیراعظم صاحب کی نااہلی سے بڑاکوئی فیصلہ نہیںآئے گا۔اوریہ کوئی بڑافیصلہ ایسے نہیںہوگاکہ وزیراعظم کی نااہلی کی صورت میں پہلے احسن اقبال یاکوئی اورقریبی شخص وزیراعظم بنادیاجائے گاجس کے بعد 60 دنوںمیں میاں شہباز شریف کوقومی اسمبلی کاالیکشن میاںصاحب کی سیٹ سے لڑوایاجائے گاجس کے بعدشہبازشریف وزیر اعظم بن جائینگے اور میاں نواز شریف مکمل توجہ 2018ءکے الیکشن پردینگے ۔موجودہ صورتحال میں جب عمران خان نے سرکارکے کہنے میںآکراپنی رہی سہی عزت بھی گنوادی ہے، ایسے میں مسلم لیگ ن کاواضح اکثریت لیناکوئی حیرت کی بات نہیںہوگی۔ دوتہائی اکثریت لے کرمسلم لیگ ن سینیٹ کی بڑی جماعت بن جائے گی اورپھرن لیگ سینیٹ میں اکثریت میں آنے کے بعدترمیمی بل پیش کرکے آئین میں نوازشریف صاحب کے لیے گنجائش پیداکرلے گی،اگرعمران خان کے میانوالی سے قومی اسمبلی کی نشست جیتنے سے ل
ے کراسلام آبادکی نشست تک کاسفردیکھیں توعمران خان جب اکیلے تھے تب آج کے مقابلے میں زیادہ باعزت تھے عمران خان اگراپنے آپ کوسیاسی لوگوںکے درمیان رکھتے اورشارٹ کٹ مارنے کے چکرمیں ٹی ٹونٹی نہ کھیلتے توآج کامیاب حکمران ہوتے مگر جلد بازی، آسروں، لارے لپوں اور وعدوںپریقین نے عمران کوناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے ۔اوراس سے بڑانقصان یہ ہواکہ عمران کواس نقصان کا احساس تک نہیں،اس دھرنے میںتواتنے لوگ نہیں نکلے جتنے لوگوںنے اسد عمر کو اسلام آباد میںووٹ دیے تھے ۔ اس تحریک میں موصوف رات کی مکمل 8گھنٹے کی نیندلے کرصبح واک پرنکلتے تواپنے ورکرزکاحال بھی پوچھ لیتے جورات بھرسردی میں باہرکھلے آسمان تلے سوئے ہوتے تھے۔اس رویے کے باوجودعمران کوکوئی سمجھانے والانہیںکہ خان صاحب یہ وہ راستہ نہیں جس کے اختتام پروزیراعظم ہاﺅس آتا ہے۔ اورراستہ بدلنے پرخان صاحب تیار نہیں۔ خیرہم توسرکارکے ان لوگوںکاشکریہ ادا کرتے ہیںجنہوںنے ملک کوبحران سے بچایا کیونکہ بدترین جمہوریت بھی مارشل لاءسے ہزاردرجہ بہترہے ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں