اکثریت پر اقلیت کو فوقیت! (عنایت کابلگرامی)
شیئر کریں
آج کل پاکستان کے نام نہاد آزاد خیالوں سمیت دنیا کے کئی ملکوں کی این جی او ز اور کچھ ممالک کے حکمرانوں کو پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں بڑی فکر ہورہی ہے اور وہ تسلسل سے مختلف بیانات جاری کررہے ہیں ۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا وہ بیان جو گیارہ اگست 1947ء کو دیا گیا تھا ،جس میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اقلیتوں کے تحفظ پر زور دیاتھا ، اس بیان کو ہتھیار بناکر سیکولر طبقہ اقلیتوں کے حقوق کی باتیں کررہا ہے۔قائد اعظم ؒکو اس وقت اس بیان کی ضرورت یوں محسوس ہوئی ہوگی کہ ایک طرف پورے ہندوستان میں مسلمانوں کوبڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا جارہاتھااور ان کی عورتوں کے ساتھ وہ ظلم ہورہاتھا کہ جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، تو دوسری جانب مسلم اکثریتی علاقوں میں وہی ظلم بے گناہ ہندوؤں کے ساتھ بھی ہورہا تھا ، تب ہی قائد اعظم ؒ نے یہ بیان جاری کیا ہو گا ، کیونکہ ہم مسلمان ہیںاور مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی بے گناہ کو قتل کریں اور قائد اعظمؒ مسلمانوں کو اس گناہ عظیم سے بچانے کی کوشش میں تھے۔
اسلام جس طرح مسلمان کی جان و مال کو تحفظ دیتا ہے اسی طرح غیر مسلموں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ دین اسلام نے جتنا اقلیتوں کے حقو ق پر زور دیا ہے اور ان کو تحفظ فراہم کیا ، دنیا کے کسی اور مذہب یا قانون نے اتنا تحفظ نہیں دیا۔ قدیم دور ہو یا موجودہ دور، ہندوستان ہو یا چین، برما ہو یا اسرائیل، اس کے علاہ دیگر ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں اقلیتوں کے ساتھ کس قدر انسانیت سوز سلوک کیا جاتاتھا یا ہے ، اگر وہ اقلیت مسلمان ہو تو ظلم در ظلم کی وہ داستانیں رقم کی جاتی ہے جو تاریخ میں درج ہوجائے تو تاریخ بھی رو پڑ تی ہے۔ دین اسلام ہی ہے جس نے مظلوم لوگوں کی داد رسی کی اور ان کے تحفظ کے لیے قوانین واضح کیے ہے ۔ اس وقت ملک میں اقلیتوں کی تحفظ کے آوازیں بہت زور وشور سے سنائی دے رہی ہے ۔ گزشتہ پیر 29جولائی کواقلیتوں کے قومی دن کووزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی اقلیتوں کے تحفظ پر زور دیا اور کہا کہ اقلیتوںکے ساتھ ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا ، ساتھ ہی ساتھ سندھ میں ہندو لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں ہندوں لڑکیوں سے شادی اور انہیں زبردستی مسلمان کرنا غیر اسلامی عمل ہے اور کچھ لوگوں نے یہاں اسلام کے نام پر دُکانیں کھول رکھی ہیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ ہم اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تعمیر کرائیںگے۔ وزیر اعظم صاحب رک رک کر قرآن کا حوالہ دیتے رہے اور کہتے رہے کہ اکثر لوگ جاہل ہیں ، انہیں اسلام کی سمجھ نہیں ہے۔ہم مدینہ کی ریاست بنائیںگے اور دنیا کو بتائیں گے کہ ریاست کیسے چلتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا خطاب سن کر پاکستان سے ناواقف شخص یہ محسو س کرتا ہوگا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ بہت ہی زیادہ ظلم ہورہاہے اور صبح شام وہ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کی طرح مارے جارہے ہیں، ان کی عبادت گاہیںاور حقوق مسلسل تلوار کی نوک پر ہے ، وہ خوف زدہ سہمے ہوئے اور پریشان حال ہیںاور جاہل لوگوں کا ہجوم ان کے جان و مال اور مذہب کے درپے ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم صاحب اپنے خطاب میںیوں فرماتے کہ پاکستان اقلیتوں کے تحفظ میں ہندوستان ، چین اور دنیا کے کئی ممالک سے آگے ہے ۔جتنی مذہبی آزادی پاکستان میں اقلیتوں کو ہے وہ نہ ہندستان میں ہے ، نہ چین میں اور نہ ہی یورپ کے کئی بڑے نام نہاد سیکولرریاستوں میں ہیں۔ اس وقت پاکستان میں المیہ ہے کہ’’ اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر اکثریت کے حقوق پامال‘‘ ہورہے ہیں۔قارئین یہ سوچ رہے ہونگے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ یہ کیسی بات تحریر کردی راقم نے ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی ریاست اور مسلمان اکثریت میں ہو، وہاں کیسے اکثریت کے حقوق پامال ہورہے ہیں۔ تو آئیے میں چند باتوں پر روشنی ڈالتا ہوں ۔ جس سے شاید قارئین کی سمجھ میں آجائیں کہ یہاں کس طرح اکثریت کے حقوق پامال ہورہے ہیں۔
(۱) کچھ دن قبل لاہورکے شاہی قلعے میں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک بادشاہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ لگایا گیا، ساتھ ہی ساتھ تحریک انصاف کی حکومت نے انہیں برصغیر کا ہیرو قرار دیا تھا ۔ رنجیت سنگھ کون تھا اس نے کیا ایسے کارنامے کیے جس کی وجہ سے انہیں ہیرو قرار دیا جارہاہے؟ تو جواب مختلف ملے گا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ رنجیت سنگھ نے لاہور سمیت پنجاب کے کئی علاقوںپر حملہ کرکے ان پر قبضہ کیا اور ان حملوں میں اس نے مسلمانوں کا بڑی بے دردی سے قتل عام بھی کیا ۔ بادشاہی مسجد سمیت کئی مساجد کو اپنے اور اپنے سپاہیوں کے گھوڑوں کا اصطبل بنایا ۔ تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہے رنجیت سنگھ کے مظالم سے ، بعض مورخین نے تو رنجیت سنگھ کو ہلاکو خان کا ثانی کہا ہے ۔سکھوں کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کے قاتل کو ہیرو بناکر پیش کرنا حقوق کی پامالی نہیںہے تو کیاہے۔ (۲)دو جولائی کو سندھ کے مختلف علاقوں میںچند سیاسی شخصیات اورنام نہادسماجی ورکرزنے کفار مکہ کے سردار ابوجہل اور سندھ کے ظالم راجہ داہر کا دن منایا ،( یوم راجہ داہر کئی سالوں سے منایا جارہاہے مگر اس سال یوم ابوجہل بھی منایا گیا) راجہ داہر کون تھا ؟ یہ بھی قارئین کو بخوبی معلوم ہوگا اور ابوجہل کی جہالت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ تو کیا یہ مسلمانوں کی دل آزاری کے زمرے میں نہیں آتا ہیں۔ (۳) قادیانی جس کو پاکستان کے آئین نے غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے اور آئین میں ہی ان کو پابند کیا گیا ہے اپنے حدود میں رہے ، مگر اس کے باوجود وہ آئے روز مسلسل پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی تو کر رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ ختم نبوت پر دوبارہ کھل کر اپنا موقف پیش کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں کچھ سیاسی لوگ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں ان کے مطابق قادیانیوںکو خود کو مسلمان کہنے کا حق ہے ۔ کیا اس سے اکثریتی طبقے میں انتشار نہیں پھیلے گا۔ (۴) آئے روز کوئی نہ کوئی اقلیت سے تعلق رکھنے والا بد بخت شخص نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں یا صحابہ کرام و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین کی شان میں گستاخی کرکے پاکستان کے عدالتوں سے سزا پاکر بھی سیاست دانوں کی ایما ء پر پاکستان سے فرار ہوجاتا ہے اور یورپ ،امریکا سمیت دیگر ممالک میں پنا ہ حاصل کرلیتا ہے تو کیا اس سے پاکستان کے مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا نہیں ہوگا ۔ (۵)پاکستان میں کوئی اگر کسی غیر مسلم کی روحانی شخصیت یا ان کے مذہب پر ہلکی سی بھی تنقید کرے تو اس کے خلاف قانوں اور محافظین حرکت میں آجاتے ہیں، آنا بھی چاہیئے ہم مسلمان ہے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم کسی کی توہین کرے، مگر وہ توہین جب مسلمانوں کے کسی روحانی شخصیت کی ہوتی ہے تویہ قانون کے رکھوالے کہتے ہیں کہ صبر کرو آسمان پر تھوکنے سے تھوک واپس اسی انسان کے منہ پر گرتی ہے ۔ مختلف اقسام کی فلسفیانہ باتیں سننے کو ملیں گی ۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی طریقوں سے اکثریتی طبقے کے حقوق پامال ہورہے ہیں ۔
موجودہ نئے پاکستان میں’’اکثریت پر اقلیت کو فوقیت ‘‘دی جارہی ہیں ،جو کسی صورت مناسب اقدام نہیںہے۔اسلام اقلیت کے حقوق کو تحفظ دیتا ہے مگر اکثریت کے حقوق کو غصب کرنے کا حکم نہیں دیتا اور نہ ہی قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ایسا کیا یاکہا ہوگا ۔اللہ پاک ہمیں ہدایت عطا فرمائے (آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔