لوگ سوچتے ہیں آصف زرداری کو پکڑ لیا تو ہمارا کیا بنے گا ، سابق صدر
شیئر کریں
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہاہے کہ پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر اسپیکر اسمبلی کا شکر گزار ہوں، حکومت کے ساتھ بیٹھ کر معاشی پالیسی پر بات کرنے کو تیار ہیں، ملک میں کون کون حساب دے گا، مجھے پکڑنے سے پیپلزپارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، لوگ سوچتے ہیں آصف زرداری کو پکڑ لیا تو ہمارا کیا بنے گا، جو طاقتیں حکومت کو لے کر آئیں انہیں بھی سوچنا چاہیے اور ایسا نہ ہو سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے معاملات نکل جائیں۔سابق صدر آصف زرداری نیب ٹیم کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاوس پہنچے ، جہاں وہ بجٹ اجلاس میں شریک ہوئے ، ان کی صاحبزادیاں بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھیں۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مل بیٹھ کر اکانومی پالیسی پر بات کر لیتے ہیں، تین چار ترجیحی موضوعات پر حکومت اور اپوزیشن معاشی پالیسی پر بات کر لیں۔آصف زرداری نے کہا کہ ہم اس اکانومی پالیسی کو اونر شپ دے دیتے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی نے جانوں کا نذرانہ دیا ہے ، میں نے 13 سال جیلوں میں عقوبتیں سہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی صداقت نہیں کہ بجٹ محکمہ فنانس میں بنایا گیا، پاکستان زرعی ملک ہے ، کاٹن اور فائبر برآمد کرتا ہے ۔سابق صدر نے کہا کہ کل ہم تھے ، آج کوئی اور ہے ، کل کوئی اور ہوگا، جمہوریت میں یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ بی بی کی شہادت کے بعد سندھ میں نعرہ لگا کہ پاکستان نہ کھپے ، جس پر میں نے آواز لگائی کہ پاکستان کھپے ، پاکستان ہے تو ہم سب ہیں، پاکستان نہیں تو کوئی کچھ نہیں، اپنے 5 سالہ دور میں کسی سیاستدان پر ہاتھ نہیں ڈالا،سابق صدر نے کہا کہ پکڑ دھکڑ سے پارٹی کا نقصان نہیں ہوتا، عام لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں کہ ، آصف زرداری پکڑے جاسکتے ہیں توہمارا کیا بنے گا، پکڑ دھکڑ اور حساب کتاب بند کیاجائے ، آگے کی بات کی جائے ، جو طاقتیں حکومت کو لے کر آئیں انہیں بھی سوچنا چاہیے اور ایسا نہ ہو سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے معاملات نکل جائیں، کل عوام اور پورا ملک کھڑا ہوجائے پھر کوئی پارٹی نہیں سنبھال سکے گی۔آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ ہر صنعت کی جانب سے اشتہار آرہے ہیں ہمیں بچاو، اتنا اچھا بجٹ ہے تو کیوں لوگ رو رہے ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائیں تو ٹیکس بھی بڑھا دیا، صنعت کار کو بہت خوف ہے ۔ 5 لاکھ کے چیک پر بھی ایف بی آر نوٹس بھیج دیتا ہے ، اسمبلی میں آکر پرانی یادیں تازہ ہوگئیں، جیلیں ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں۔