تبدیلی کے نام پر۔۔۔تو ہاتھ ہوگیا (قاضی سمیع اللہ)
شیئر کریں
وزیر اعظم عمران خان نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومتوں کے دور میں لیے جانے والے بیرونی قرضوں کی چھان بین کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے جس کی سربراہی وہ خود کریں گے ۔اعلیٰ سطح کے تحقیقاتی کمیشن کا اعلان ان کی جانب سے اس وقت کیا گیا جب ان کی حکومت اپنا پہلا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی تھکن سے بھی آزاد نہیں ہوئی تھی ۔جہاں تک پی ٹی آئی کی حکومت کے پہلے بجٹ کی بات ہے تو اس میں کوئی نئی بات نہیں اس میں بھی سابقہ حکومتوں کے بجٹ کی طرح عام آدمی کے آنسو اور چیخیںدکھائی اور سنائی دے رہی ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان جو ’’سونامی‘‘ کو سیاسی اصطلاح کے طور استعمال کرتے آئے ہیں آج ان کی جانب سے عوام کو حقیقتاًدکھادیا گیا ہے کہ سونامی کیا ہوتا ہے ۔ تبدیلی سرکار کامہنگائی اور بے روزگاری کا سونامی عام آدمی کی توقعات اور امیدوں کو روندتا ہوا عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے دم توڑ چکا ہے ۔اس وقت پی ٹی آئی کے تمام انتخابی نعرے اور دعوے گھٹنوں کے بل عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے سر جھکائے بیٹھے ہیں جبکہ وزیر اعظم عمران خان’’ لُڈیاں ‘‘ڈال رہے ہیں ۔اب وہ کس بات پر لُڈیاں ڈاال رہے ہیں یہ آپ سمجھ تو گئے ہونگے ۔ اس میں کوئی شک نہیں پیپلزپارٹی کی قیادت ہو یا پھر مسلم لیگ (ن) کی قیادت ہو ہر ایک نے عوام کو سہانے ااور دلکش خواب دکھائے ہیں جبکہ ان کی تعبیر ہمیشہ عوام کے آنسووں کے سوا کچھ نہیں رہی ،ایسا ہی کچھ اس بار لُڈیاں ڈالتے ہوئے وزیر اعظم کی جانب سے کیا گیا ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ پچھلے حکمران عوام سے کھلواڑ کرنے کے بعد لُڈیاں نہیں ڈالتے تھے اب جبکہ نیا پاکستان ہے تو اس میں عوام سے کھلواڑ کرنے کے انداز بھی نئے ہوگئے ہیں ۔
بہر کیف بات ہورہی تھی بیرونی قرضوں کی چھان بین کرنے والے وزیر اعظم کے اعلیٰ سطح کے کمیشن کی کہ وہ اس امر کی تحقیقات کرے گا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومتوں کے دور(2008سے2018تک) میں لیے گئے بیرونی قرضے کیوں کرلیے گئے اور کہاں اور کس مد میں خرچ کیے گئے یعنی دوسرے لفظوں میںگذشتہ دس برس کے دوران لیے گئے بیرونی قرضوں کا حساب سابقہ حکمرانوں سے لیا جائے گا ۔جہاں تک اس مقصد کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کا تعلق ہے تو یہ ایک خوش آئند عمل ہے کیونکہ بیرونی قرضوں کے اثرات عوام پر ہی پڑتے ہیں لہذا عوام کو یہ جاننے کا حق ہوناچاہئے کی حکومت نے جو بیرونی قرضے لیے ہیں وہ کیونکر لیے اور کس مد میں خرچ کیے گئے جبکہ جمہوری تقاضے تو یہ تھے کہ سابقہ حکومتیں بیرونی قرضے لینے کے معاملات پارلیمنٹ کے سامنے رکھتیں اور اس کی منظوری سے ہی قرضوں کے حصول کو ممکن بناتی لیکن اس جمہوری تقاضے کو یکسر انداز کیا گیا ۔یہاں حیران کن امر یہ کہ وزیر اعظم عمران خان جو بیرونی قرضوں کی تحقیقات کرنے جارہے ہیں ان کی حکومت نے بھی اپنے ابتدائی دس مہینوں میں بیرونی قرضوں کے انبار لگائے ہیں لیکن ان کی جانب سے بھی بیرونی قرضوں کے حصول کے معاملات پارلیمنٹ کے سامنے نہیں رکھے گئے بلکہ آئی ایم ایف سے جو نیا قرضہ لیا جارہا ہے ان معاملات کو بھی عوام سے چھپایا جارہا ہے ۔بہرکیف ایسی حکومت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے جو مالی سال کا بجٹ بھی آخری وقت تک ذرائع ابلاغ سے چھپاتی رہی اور عوامی توجہ ہٹانے کے لیے مختلف حیلے بہانے بھی تراشتی رہی کہ کہیں عوام کو و قت سے پہلے نہ پتا چل جائے کہ تبدیلی کے نام پر اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے ۔بیرونی قرضوں کی تحقیقات کا اعلان وزیر اعظم عمران خان کے دیگر اعلانات کی طرح محض اعلان ہی رہے گا یا پھر اسے تعبیر بھی دی جائے گی ۔
وزیر اعظم عمران خان قوم سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی لٹیروں کو این آر او نہ دینے کی بات بھی کررہے تھے ،یہ امر میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب معاشی غارت گروں اور لوٹ مار کرنے والے سیاست دانوں و بیوروکریٹس کو محض ایک’’ حکم نامہ ‘‘ کے ذریعے معاف کیا جاسکتا ہے تو پھر ایک ہی حکم نامہ کے ذریعے ایسے کرداروں کو ’’قومی مجرم‘‘ قرار دیکر کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایا جاسکتا جبکہ دنیا کی سیاسی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں ۔کرپشن کے خاتمہ کی باتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں بھی نہ صرف ہوتی آئی ہیں بلکہ ان حکومتوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے مقدمات بھی بنائے جاتے رہے ہیں جس کے سبب آج سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔اسی طرح پی ٹی آئی کی تبدیلی پسند نعرے کی حامل قیادت بھی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتی ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کرپشن کے خاتمہ کا تبدیلی سرکار محض عزم ہی رکھتی ہے یا پھر وہ اسے عملی طور پر ختم کرکے بھی دکھائے گی لیکن اس کے لیے تبدیلی سرکار کو اپنے گھر سے ابتداء کرنی ہوگی بصورت دیگر کرپشن کا جڑ سے خاتمہ تو دور کی بات کرپشن کی ایک شاخ بھی ادھر اُدھر نہیں ہوگی ،کیا وزیر اعظم عمران خان کرپشن کے خاتمہ کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پینے کو تیا ر ہیں اگر تیار ہیں تو وطن عزیز سے کرپشن کا خاتمہ ہوکر رہے گا بصورت دیگر عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہونگے کہ اس بار بھی ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا اور تبدیلی آئی ہے بس اتنی کہ کہ عوام کو بیوقوف بنانے کی سیاسی واردات کا طریقہ تبدیل ہوگیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔