میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شاہرا ہ¿ ترقی اور بھارت کے تحفظات ( قسط ۔ 2)

شاہرا ہ¿ ترقی اور بھارت کے تحفظات ( قسط ۔ 2)

منتظم
جمعه, ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

iqbal-dewan-copy

محمد اقبال دیوان
نومبر1978ءمیں چین کے سربراہ Deng Xiaoping کی ملاقات سنگاپور کے صدر لی کوان یو سے ہوئی تو اُنہوں نے چینی سربراہ کو تین اہم مشورے دیے تھے کہ چین جیسے ملک میں مغربی ممالک کے طرز کی جمہوریت سے پرہیز کریں اور ایک پارٹی کی حکومت کو فروغ دیں۔ دوسرے وہ براہ راست کسی جنگ میں ملوث نہ ہوں اور تیسرے یہ کہ مغرب اور تمام عالم میں روز مرہ کے استعمال کی سستی اشیا کی بہت بڑی منڈی ہے ،اس کو Capture کرو۔
اس حوالے سے کچھ مضحکہ (Meme )بھی سوشل میڈیا پر مسلسل گردش میں رہتی ہیں مگر چین کا مال بک رہا ہے ۔
چینی قیادت نے ان تمام ہدایات کو اپنے طرز حکمرانی کا منتر بنالیا اور اس پر بہت تندہی سے اب تک عمل پیرا ہے۔ہانگ کانگ جس کے معنی چینی زبان میں ایک خوشبو دار بندرگاہ کے ہیں۔چین کے قصبے گوانگ ڈنگ سے ملحق 427 کلومیٹر کا یہ علاقہ انیسویں صدی کی جنگ افیم کے بعد برطانیہ کی نوآبادیاتی کالونی بن گیا تھا۔ چین اپنی طاقت کے زور پر اسے برطانیہ سے بزور طاقت چھین سکتا تھا۔لی کوان یو نے انہیں جو کچھ سمجھایا اس پر انہوں نے سندھی محاورے گھر جا کُکڑ ( گھر کی مرغیاں جو مہمان کے آنے پر کسی وقت بھی ذبح کرسکتے ہیں) کے مطابق لیا۔
برطانیہ کے ساتھ ان کا جو 99 سالہ معاہدہ تھا اس کا احترام کرتے ہوئے 1984میں ایک معاہدہ ¿ طریق کار Sino-British Joint Declaration کیا اور ایک دوہرے انتظامی بندوبست میں ” ایک ملک دو نظام “ کے تحت بغیر کسی دقت کے چلا رہے ہیں۔چین سوائے خارجہ تعلقات اور دفاع کے ہانگ کانگ کے دیگر معاملات میں باقی چین سے جداگانہ پالیسی پر عمل پیرا رہتا ہے۔
بھارتی الفا گروپ جس میں پاکستان میں ہندوستان کے سابق سفیر ٹی سی راگھون،ڈاکٹر سدھا رامچندرن اور ان کے ایک بہت ذہین اور سنجیدہ ڈپلومیٹ ملکو لنگارا بہادر کمار جیسے افراد شامل ہیں۔موخر الذکر تو بھارت کو بھی اس منصوبے میں شامل ہوجانے کا کہتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس سے بھارت کے مفادات پر نہ صرف گہری نگاہ رکھی جاسکے گی بلکہ چین جس کا اس وقت واحد مطمح نظر دولت کا حصول ہے وہ پاکستان کی نسبت بھارت کے تعاون کو زیادہ برابری کی سطح پر برتے گا۔ اس گروپ کا یہ خیال ہے کہ چینی مفادات کی پاکستان میں اس غیر معمولی موجودگی کے انہیں یعنی بھارت کو درج ذیل فوائد ہوں گے:
۱۔پائیدار امن اور مشرقی سرحدوں پر مکمل سکون۔یہ ان کے دفاعی اخراجات میں نمایاں کمی کردے گا اور یوں انہیں سائنس اور دیگر علوم کی ترقی اور غربت کے خاتمے میں بہت مدد ملے گی۔دنیا بھر میں بھارتی Diaspora(تارکین وطن) فنی انتظامی اور طبی ماہرین کی صورت میں اپنا ایک مقام اور حلقہ¿ اثر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔اس وقت بھی دنیا کی تین بہت بڑی کمپنیوں گوگل، کوکا کولا اور مائیکرو سوفٹ کے اعلی ترین عہدے دار بھارتی نژاد ہیں۔دفاعی اخراجات میں کمی ہوگی تو وہ اس قابل ہوجائیں گے کہ بھارت کی افرادی قوت کو بنیادی یعنیPrimary and Cottage انڈسٹری سے Intermediate and Advance وسطی اور اعلی سطح کی انڈسٹری کی جانب منتقل کرسکیں۔ان کے سامنے جاپان اور امریکاکا ماڈل ہے۔امریکامیں تو چینی مال اتنا فروخت ہوتاہے کہ ایک امریکی تقریر کررہا تھا کہ” وہ دن دور نہیں کہ امریکاکی فیکٹریوں پر تالے پڑ جائیں گے۔حاضرین میں سے کسی منچلے نے جملہ کسا کہ تسلی رکھیں یہ تالے بھی چین ہی کے بنے ہوں گے“۔
۲۔ پاکستان میں روز افزوں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی سے چین خود ہی نمٹ لیا کرے گا۔چین کی یہ سرمایہ کاری ایک طرح کا Double- Buffer ثابت ہوگی۔ افغانستان اور پاکستان سے باڑھ پار کرکے آنے والے دہشت گرد چین کے مفادات کی پاسداری کریں گے۔ان کے نوجوانوں کے لیے جب روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے تو ان کا مذہبی شدت پسندی سے دھیان ہٹ جائے گا۔
۳۔خام مال کی کمی کے باعث یہ بعید از قیاس نہیں کہ چین بھارت سے جغرافیائی قربت کے تناظر میں مال کی خریداری کرے۔ وسطی ایشیا، چین پاکستان کی نسبت مال کی ترسیل درآمد و برآمد کے معاملے میں بھارت پاکستان کے بجائے براہ راست چین سے بیجنگ میں معاہدے کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔چین اس معاملے میں ایک ذمہ دار تجارتی حلیف کا کردار کرے گا۔
۴۔ مارکیٹ کا کوئی دین دھرم نہیں ہوتا اور طاقتور کرنسی نوٹ کی پیار کی طرح کوئی زبان نہیں ہوتی۔ان دنوں شدید عسکری تحفظات کے باوجود اگر بھارتی ماہرین مختلف حیلے بہانوں سے پنجاب اور سندھ کی فیکٹریوں میں ، بھینس کالونیوں اور سبزی منڈیوں میںملازم ہیں تو بعید نہیں کہ چین کی یہ فیکٹریاں بھی بھارتی ماہرین کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کریں۔
۵۔بعید نہیں کہ ایران کے پاکستان میں ہمدرد عناصر اور خود پختون اور مقامی آبادی چینیوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے الجھن محسوس کرے۔ ان کی دین سے بے گانگی، ہر شے میں اپنے مفاد کو مقامی مفادات پر فوقیت دینا۔ ایک گروپ پاکستان میں اب یہ اعتراضات بھی بہت شد و مد سے اٹھا رہا ہے کہ سی پیک کے سیٹلائیٹ پروجیکٹس میں چینی امداد کی بجائے پاکستانی سرمایہ کیوں لگایا جارہا ہے۔ یہ Booster Projects وہ ہیں جو سی پیک کی معاونت کرتے ہیں۔ وہ سر دست سی پیک کے لیے تو لازم ہیں ،پاکستان کے لیے ان کی فوری افادیت کوئی نہیں۔ ان منصوبوں کو اس وقت شروع کیے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔
یہ عوامل پاکستان اور چین کے تعلقات میں تناﺅ کا باعث بنیں گے۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی کا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقیات کے چیئرمین کے طور پرکل کا بیان سامنے رکھا جائے تو ان تمام عوامل کی مشترکہ جھلک دکھائی دیتی ہے۔ایک انگریزی اخبار نے( جس نے پچھلے دنوں سرکار میں بڑی لڑائی کرادی ہے) اس منصوبے کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد نو سے تشبیہ دی ہے۔
ان تمام افکار کے اقلیتی دعوے دار وں کے عین مخالف ایک گروپ اور ہے جس کے سب سے بڑے سرخیل تو خود ہمارے اپنے مودی جی ہیں۔ (جب سے وہ جاتی امرا میںVisa on Arrival پروگرام کے تحت اپنے کثیر التعداد وفد کے ساتھ ہمارے ہر دل عزیز وزیر اعظم سے پگڑی بدل کر گئے ہیں کوئی کم بخت پاکستانی ان کو غیر سمجھنے پر تیار ہی نہیں) ان کے موجودہ اور سابق عسکری ماہرین کی رائے شامل ہے۔ ہم اسے یہاں ورودھی دَّل (عسکریت پسندگروپ ) کہیں گے۔ یہ گروپ وہاں اکثریت میں ہے۔ان کے تحفظات کی فہرست ذرا طویل اور غور طلب ہے:
۱۔وہ یہ کہتے ہیں کہ چین میں ہر اس شے کو (سوائے ٹیبل کے )جس کی پشت آسمان کی جانب ہو چینی کھاجاتے ہیں لہذا بھارتی ماہرین کے لیے ان فیکٹریوں میں جگہ پانا ایسا ہی ناممکن ہے جیسے اب امیتابھ کا ریکھا سے شادی کرنا۔ایسی سوچ رکھنے والوں کو وہ ذہنی مرگی کا شکار سمجھ کر حقیقت کا جوتا سنگھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔چینیوں سے کوئی کم طاقت والا دیش لابھ نہیں اٹھا سکتا۔انہیں سمجھنا اور ان سے فائدے اٹھانا تقریباً ناممکن ہے۔
۲۔ بھارت تجارت میں تو چین کی برتری کو تسلیم کرتا ہے مگر سن1963 کی جنگ میں ہزیمت کے باوجود دفاعی طور پر اسے اپنا ہم پلہ جانتا ہے۔اس کے تحفظات اس منصوبے کے حوالے سے دفاعی زیادہ ہیں۔ جس طرح آزاد کشمیر کو وہ Pakistan Occupied Kashmirکہتا ہے ۔اسی طرح وہ گلگت بلتستان کو بھی اکھنڈ بھارت کا حصہ مانتا ہے وہ دن دور نہیں کہ مودی جی کسی دن پاکستان کو وہی پگڑی جو عالی جناب وزیر اعظم نواز شریف نے پہنائی ہے سر پر باندھ کر Pakistan Occupied Pakistan کہنے لگیں کیونکہ 1947 سے پہلے تو ہم مملکت ہند کا ایک حصہ ہی تھے۔بھارت کو اعتراض ہے کہ یہ شاہراہ اس کے علاقے گلگت سے کیوں گزرتی ہے۔
۳۔ بھارت کا 70 فی صد تیل آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔ ہم اس سمندری حصے کو بحیرہ عرب کہتے ہیں اور وہ بحیرہ ہند۔ناموں کے اس ہیر پھیر میں وہ اپنی نیوی کے ذریعے ایران کی شراکت سے افریقا تک حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔گوادر میں چینی نیوی کی موجودگی اس کی تیل کی سپلائی کی لائن کاٹ سکتی ہے۔ یہ ایک طرح کا Strangle Hold (گردن میںبازو ڈال کر بے قابو کرنے کا داﺅ) ہوگا جس کا وقت پڑنے پر پاکستان زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ (جاری ہے )


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں