میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فارما کمپنیاں عوام کی جانی دشمن، خام مال کی درآمد میں ملنے والے ریلیف کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی مرتکب

فارما کمپنیاں عوام کی جانی دشمن، خام مال کی درآمد میں ملنے والے ریلیف کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی مرتکب

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۶ اپریل ۲۰۱۹

شیئر کریں

(جرأت انوسٹی گیشن سیل)دنیا بھر میں عوام کے جان و مال کا تحفظ اور طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے قائم ادارے اپنے فرائض مکمل ذمہ داری اور ایمان داری کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں، لیکن پاکستان میں یہ معاملہ یکسر اُلٹ ہے۔ یہاں عوام کے جان و مال کے محافظ ادارے ہی شہریوں کی جان لیتے ہیں، غریب عوام کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے والے سرکاری اور نجی اسپتال زندگی بچانے کے بجائے لمحوں میں جیتے جاگتے انسان کو لاش میں تبدیل کردیتے ہیں۔ پاکستان میں عوام تک ارزاں اور معیاری ادویات کی فراہمی، طبی سہولیات، سرکاری اسپتال میں قابل ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ہمہ وقت موجودگی، سرکاری سطح پر مفت ادویہ کی فراہمی اور طبی ٹیسٹ کی سہولیات محض ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان سب سے اگر کوئی مریض زندہ بچ جائے تو پھر فارما سیوٹیکل مافیا اسے موت کے شکنجے میں دبوچنے کے لیے تیار رہتی ہے۔


جعلی وغیر معیاری ادویات،ادویات کی مصنوعی قلت او ر بلیک مارکیٹنگ،خام مال کی آڑ میں منی لانڈرنگ، ادویات کی قیمتوں میں من مانا اضافہ اور ناجائز منافع خوری جیسے سارے کالے دھندے اسی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی سر پرستی شامل


دنیا بھر میں ادویہ سازی کے عمل کو شفاف رکھنے کے لیے قائم ریگولیٹری اتھارٹیز فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے جی ایم پی (گڈ مینوفیکچرنگ پریکٹس) کے معیارات، اورخام مال کی بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھتی ہیں، کمپنیوں کے جانب سے ڈاکٹر حضرات کو مراعات کے نام پر دیے جانے والے کک بیکس اور ناجائز منافع خوری کی روک تھام بھی ان ریگولیٹری اتھارٹیز کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں، لیکن پاکستان میں اس کام کے لیے بنائی گئی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستانی عوام کے بجائے فارما سیوٹیکلز کمپنیوں کے گھر کی باندی بن چکی ہے۔ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے دو نمبر دھندوں کو روکنے کے بجائے ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی خود ادویہ ساز اداروں کی شریک جُرم بن چکی ہے۔ ملک بھر میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کی بھرمار، ادویات کی مصنوعی قلت او ر بلیک مارکیٹنگ،خام مال کی آڑ میں منی لانڈرنگ، ادویات کی قیمتوں میں من مانا اضافہ اور ناجائز منافع خوری جیسے سارے کالے دھندے اسی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی سر پرستی میں ہو رہے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ادویہ ساز اداروں نے قیمتوں میں من مانہ اضافہ کر کے غریب عوام کی جیب سے اربوں روپے نکال لیے اور ڈریپ اپنا ’حصہ‘ وصول کرکے خاموش تماشائی بنی رہی، وزیر اعظم کے احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیا اور بالاخر وفاقی کابینہ اور نیب کو اس معاملے میں کودنا پڑا۔


وفاقی کابینہ کا فارما کمپنیوں کے خلاف درست اقدام، مگر مسئلہ وقتی احکامات یا عارضی کارروائی کا نہیں اس کے مستقل حل کا ہے، فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو لگام دینے کے لیے قانون سازی، اصلاحات اور ان پر عمل درآمد مستقل طور پر ضروری ہے


مسئلہ وقتی طور پر احکامات دینے یا عارضی کارروائی کا نہیں اس کے مستقل حل کا ہے، فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو لگام دینے کے لیے قانون سازی، اصلاحات اور ان پر عمل درآمد کا ہے جب تک اصلاحات کو، احکامات کو عملی طور پر لاگو نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک عوام سستی اور معیاری دواؤں کے لیے سسکتے بلکتے رہیں گے۔ اس وقت تک جعلی اور غیر معیاری ادویات ہزاروں ماؤں کی گودیں اجاڑ چکی ہوں گی، کتنے ہی لوگ دوا نہ ملنے پر سسک سسک کر موت سے ہم کنار ہوچکے ہوں گے۔
حکومت عوام تک سستی ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو خام مال کی درآمد میں ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں بہت زیادہ ریلیف دیتی ہے، لیکن اس حکومتی نرمی کا فائدہ عام صارف کو پہنچانے کے بجائے خام مال کی اوپن مارکیٹ میں فروخت کی شکل میں سامنے آتا ہے(خام مال کی ہیر پھیر میں ملوث ڈاکٹر قیصر وحید اور ان کے اہل خانہ کی مجرمانہ سرگرمیوں پر تفصیلی رپورٹ انہی صفحات پر قسط وار شایع ہوچکی ہے)۔ کچھ فارما سیوٹیکل کمپنیاں سبسڈی پر خام مال درآمد کروا کر مہنگے داموں مارکیٹ میں فروخت کرتی ہیں، اور پھر اس ’کالے دھن‘ کو بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے درآمدی بلوں پر خام مال کی زیادہ قیمت ظاہر کرکے منی لانڈرنگ جیسے سنگین جرم کی مرتکب بھی ہو رہی ہیں۔


ڈریپ کی ملی بھگت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایک ہی کمپنی کی ایک ہی انوائس میں قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق بھی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور پاکستان کسٹم کے حکام کو خواب غفلت سے جگانے میں ناکام رہا


جس کی واضح مثال گیٹز اور ہلٹن فارما کی جانب سے کی گئی منی لانڈرنگ کے ثبوت ہیں۔ ہلٹن فارما نے سنگا پور میں واقع کمپنی Kenematsu کارپوریشن سے اپنی اینٹی بیکٹریل دواCravit کے موثر جُز Levofloxacin کی درآمد پر تو اوور پرائسنگ کی ہر حد پار کرلی۔ پچاس ڈالر فی کلو کی اوسط درآمدی قیمت پر ملنے والے اس خام مال کی قیمت 14سو گنا زیادہ ظاہر کی گئی۔ ہلٹن نے22 مئی کو 50کلو،5جون2012کو ساڑھے سات سو ڈالر فی کلو کے حساب سے 50کلو، 26جولائی کو50کلو، یکم اکتوبر کوپچاس کلو،27 نومبر کو50کلو اور 10دسمبرکو670کلو Levofloxacin درآمدکیا۔ سال2012میں ہلٹن کی جانب سے مجموعی طور پر 870کلو Levofloxacin درآمد کیا گیا، جس کے لیے ہلٹن نے چھ لاکھ52ہزار5سو ڈالر کا زرمبادلہ باہر بھیجا۔ جبکہ اس خام مال کی ادائیگی50ڈالر فی کلو کی حقیقی قیمت کے لحاظ سے صرف43ہزار 5 سو ڈالر کی جانی چاہیے تھی، لیکن صرف اس ایک خام مال کی درآمد پر ہی ہلٹن فارما نے چھ لاکھ9ہزار ڈالر اوور پرائسنگ کر کے بیرون ملک منتقل کردیے۔ ہلٹن نے سنگا پور میں قائم اسی کمپنی سے Levofloxacin انجکشن کے نام پرتین ہزار 600 ڈالر فی کلو کے حساب سے 22 /مئی اور یکم اکتوبر کو بالترتیب پانچ پانچ کلو Levofloxacin درآمد کروایا جبکہ اس خام مال کی اوسط درآمدی قیمت 64 ڈالر فی کلو تھی۔ انجکشن کے نام پر منگوائے گئے صرف دس کلو خام مال کی مد میں ہلٹن فارما نے 36ہزار ڈالر کا زرمبادلہ باہر بھیجا، جبکہ اس خام مال کی حقیقی ادائیگی صرف640ڈالر کی جانی چاہیے تھی لیکن ہلٹن نے اس خام مال کی درآمد کی آڑ میں 35 ہزار360ڈالر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کیے۔ ایک ہی کمپنی کی ایک ہی انوائس میں قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق بھی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور پاکستان کسٹم کے حکام کو خواب غفلت سے جگانے میں ناکام رہا۔ متعلقہ اداروں کی لاپرواہی اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے کالے دھندوں سے چشم پوشی کا واضح ثبوت تو ان دو کمپنیوں کے خام مال کی درآمدات کا ریکارڈ ہے۔ گیٹز فارما نے اسی سال، اسی خام مال Levofloxacin کی زیادہ درآمدی قیمت ظاہر کرکے قومی خزانے کو 47 لاکھ 94 ہزار 5 سو ڈالر کا چونا لگایا۔ گیٹز فارما نے مارس فائن کیمکلز سے 13فروری کو2900کلو، 14مارچ کو 1400 کلو، 25مارچ کو3600 کلو، 21جون کو1500کلو، 12جولائی کو1100کلو، 19جولائی کو2400کلو، 27اگست کو 1600 کلو، 10 /ستمبر کو 1600کلو، 23،27ستمبر کو1900کلو،اکتوبر کو1900کلو، 28نومبر کو1000کلواور 20دسمبرکو1400 کلو Levofloxacin درآمد کیا۔ گیٹز نے مجموعی طور پر درآمد ہونے والے 22ہزار3سو کلو Levofloxacinکو اوسط درآمدی قیمت 50ڈالر فی کلوسے پانچ سوگنا زائد قیمت265 ڈالر فی کلو پر درآمد کروایا۔ گیٹزنے اس خام مال کے لیے 59 لاکھ9ہزار5سو ڈالر کی بیرون ملک ادائیگی کی، جبکہ حقیقی قیمت کے حساب سے صرف 11/لاکھ15ڈالر ادا کیے جانے چاہیے تھے۔ اس خام مال کی آڑمیں بھی گیٹز فارما نے 47لاکھ 94 ہزار 5سو ڈالر کا اضافی زر مبادلہ سنگا پور بھیج کر قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اگر ڈریپ اور کسٹم حکام گیٹز اور ہلٹن فارما کی جانب سے درآمد کیے گئے اس خام مال کی قیمتوں کے فرق کو ہی دیکھ لیتے تو دود ھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجاتا۔ ہلٹن فارما کی یہ دو نمبری یہی تک محدود نہیں، اس خام مال سے بننے والی ہلٹن فارما کی دواCravit کی قیمت پاکستان میں دستیاب کثیر القومی کمپنیوں کی اسی فارمولے پر بننے والی ادویات سے بھی کئی گنا زائد ہے۔ ہلٹن فارما کی دوا Cravit کی 250ملی گرام کے دس گولیوں کے پیکٹ کی خوردہ قیمت 560 روپے اور500ملی گرام کے دس گولیوں کے پیکٹ کی قیمت1110روپے ہے، جبکہ کثیر القومی کمپنی نووارٹس فارما کی Levofin کے نام سے بننے والی 250ملی گرام کے دس گولیوں کے پیکٹ کی قیمت 150روپے اور 500ملی گرام کے دس گولیوں کی قیمت 260روپے ہے۔ صرف ایک دوا کی قیمت میں ہی سینکڑوں روپے کا واضح فرق ہلٹن فارما کا دوغلا پن اور ناجائز منافع خوری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہلٹن فارما کی خام مال کی زائد قیمت ظاہر کرکے منی لانڈرنگ کرنے کا سلسلہ صرف ایک، دو کیمیکل تک ہی محدود نہیں رہا، اس کمپنی نے دس، بیس کلو کی معمولی مقدار میں درآمد ہونے والے خام مال کی درآمدات میں منی لانڈرنگ کی۔ 11 /جولائی 2012کو ہلٹن نے متحدہ عرب امارات میں واقع کمپنی ART انٹر نیشنل سے دافع درد دواXika Rapid کے موثر جُزLornoxicamکو تین ہزار225 ڈالر فی کلو کی قیمت پر درآمد کیا، جبکہ اس کی اوسط درآمدی قیمت ایک ہزار ڈالر فی کلو تھی۔ بیس کلو کی معمولی مقدار میں درآمد ہونے والے اس خام مال کی بھی زیادہ قیمت ظاہر کرکے قومی خزانے کو44ہزار 5سو ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس خام مال کی حقیقی درآمدی قیمت بیس ہزارڈالر کے بجائے64ہزار5سو ڈالر کی گئی، اس معاملے میں بھی ہلٹن نے منی لانڈرنگ کے بے تاج بادشاہ گیٹز فارما کو پیچھے چھوڑ دیا۔ گیٹز فارما نے اس خام مال Lornoxicamکو صرف فی کلو ڈھائی سو ڈالرزائد قیمت ظاہر کر کے درآمد کیا تھا۔ اس دوا کی خوردہ قیمت بھی پاکستان میں اس فارمولے پر بننے والی تمام ادویات سے زیادہ ہے۔ ہلٹن فارما Xika Rapidکے8 ملی گرام کے دس گولیوں کے پیکٹ کو 149روپے 50 پیسے کی خوردہ قیمت پر فروخت کر رہی ہے، جب کہ بیرٹ ہڈسن فارما، سامی فارما، فارم ایوو، ایٹکو فارما جیسی کمپنیوں کی اسی فارمولے پر بننے والی دوائیں ہلٹن کے مقابلے میں تیس سے پچاس فیصد کم قیمت پر مارکیٹ میں دستیاب ہیں، جو کہ منی لانڈرنگ اور خام مال کی درآمد میں ہیر پھیر کرنے والی ہلٹن فارما کی ناجائز منافع خوری کی زندہ مثال ہے۔ (جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں