سپریم کورٹ نے نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست خارج کر دی
شیئر کریں
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست خارج کر دی ہے ۔جمعہ کو سپریم کورٹ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت سے متعلق نظر ثانی درخواست کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سجاد علی شاہ بنچ کا حصہ تھے ۔سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے سے کہاکہ آپ کے مؤکل کے پاس کئی آپشنز ہیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ آپ کی نظر ثانی اپیل سنی جا سکتی ہے یا نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کیا چاہتے ہیں چھ ہفتوں سے پہلے ہی نواز شریف کو ریلیف ملے۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے چھ ہفتوں کا واضح فیصلہ دیا اس سے قبل کیسے کوئی ریلیف دے سکتا۔ خواجہ حارث نے کہاکہ فیصلہ خود کہتا ہے کہ گرفتاری دیے بغیر ضمانت میں توسیع کی درخواست نہیں دی جاسکتی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہی فیصلہ تھا ۔خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے جو فیصلہ زبانی سنایا اس میں تبدیلی فریقین کو سنے بغیر نہیں ہو سکتی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نہیں قانون اس کے بر عکس ہے، دستخط سے قبل عدالت تحریری فیصلے کو بھی بدل سکتی ہے لیکن آپ کیلئے تمام راستے کھلے ہے ۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ فیصلے سے قبل جو کچھ کہا گیا وہ فیصلہ نہیں عدالتی آبزرویشن تھی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ 6 ہفتوں کے بعد آپ کیلئے تمام آپشن موجود ہیں ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ آپ کے فیصلے کے مطابق نواز شریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ رجوع کرنے سے پہلے گرفتاری دینا لازمی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ یہ فیصلہ درست نہیں کہ 6 ہفتوں کے بعد جو بھی طبی صورتحال ہو گرفتاری دینا ضرور ی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ وہ پورا پیکج ہے جو آپ کو ملا ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ آپ کے ریمارکس اخبارمیں چھپے ہوئے ہیں کہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے موکل کے پاس حل موجود ہے،فائدہ لے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے بیرون ملک جانے کیلئے اجازت مانگی ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ توسیع کی درخواست اس لیے دی کہ ضمانت کی مدت ختم ہورہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ اجازت دی جائے کہ گرفتاری کے بغیرہائی کورٹ سے رجوع کرسکیں۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے مزید 8 ہفتوں کیلئے ضمانت میں توسیع کی استدعا کر تے ہوئے کہاکہ 8 ہفتوں کے بعد نواز شریف کی طبی صورتحال دیکھ کر عدالت فیصلہ کرے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالتی آبزرویشن کو مختلف اخبارات نے بھی رپورٹ کیا۔ انہوںنے کہاکہ 7 مئی کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی مدت ضمانت ختم ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کوئی بھی حکم اس وقت نہیں دیا گیا تھا،فیصلے محفوظ کرنے کے بعد کچھ دیر بعد فیصلہ سنایا گیا۔ خواجہ حارث نے کہاکہ زبانی فیصلے میں ردوبدل فریق کو سننے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ انہوںنے کہاکہ عدالت نے ایک فیصلے میں آبزرویشن پر نظر ثانی کی تھی۔خواجہ حارث نے کہاکہ میرے موکل کی طبیعت خراب ہے ضمانت میں توسیع دی جائے۔خواجہ حارث نے کہاکہ میں بھی جانتا ہو کہ دستخط کے بغیر زبانی حکم کی کوئی حیثیت نہیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ میرے موکل کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔خواجہ حارث نے کہاکہ میڈیکل رپورٹس کے مطابق انجیو گرافی کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ انجیوگرافی کیلئے ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے ہم نے چھ ہفتے دیے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ عدالت نے ایک فیصلے میں آبزرویشن پر نظر ثانی کی تھی۔ خواجہ حارث نے کہاکہ میڈیکل رپورٹس کے مطابق نواز شریف متعدد بیماریوںمیں مبتلا ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا انھوں نے کوئی علاج کرایا ہے اور کیا علاج کرایا۔ خواجہ حارث نے کہاکہ جی علاج کرایا ہے اور رپورٹس کے مطابق ان کی صحت مزید بگڑی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ یعنی ضمانت ملنے سے نواز شریف کا نقصان ہو گیا۔چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے بلندہوئے ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ عدالت کے فیصلے نے درخواست گزار کو ملک سے باہر جانے سے روکا۔خواجہ حارث نے کہاکہ درخواست گزار کو رضا کارانہ طور پر 6 ہفتوں کے بعد گرفتاری دینے کا عدالت نے کہا۔ خواجہ حارث نے کہاکہ آپ نے ہائیکورٹ کو بھی ہمیں 6 ہفتوں سے قبل سننے پر پابندی عائد کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا انھوں نے ماہرین قلب سے رہائی کے بعد کوئی رائے لی ہے ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جی ان کی رہائی کے بعد کی میڈیکل رپورٹس عدالت میں جمع کرادی ہے۔خواجہ حارث نے رپورٹ پڑھ کر سنائی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ضمانت پر جانے سے تو آپ کے موکل کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ نوازشریف کے والد بھی دل کے عارضے کی وجہ سے وفات پاگئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وہ طبی مشورے بتائیں جوڈاکٹرز نے رہائی کے بعد دیے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ یہ صرف اینجوگرافی کامعاملہ نہیں،درخواست گزار کواوربھی بیماریاں لاحق ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے پاس اچھے ڈاکٹرز اور مشینیں موجود ہیں ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ یہاں ان کا علاج ممکن نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے درخواست ضمانت میں میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پیش کی تھی،میڈیکل بورڈ نے انجیوگرافی کو لازمی قرار دیا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اسی وجہ سے ہم نے آپ کو ضمانت دی ،اب آپ کہتے ہے کہ ملک میں علاج ممکن نہیں آپ اپنی ہی پہلی درخواست سے باہر چلے گئے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف کوکلوٹیٹ آٹری 50 فیصد بڑھ چکی ہے یہ بہت ہی خطرناک ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جن ڈاکٹرز کی رائے آپ بتا رہے ہیں انھوں نے حتمی بات نہیں کی ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ دنیا میں انجیوگرافی کے متبادل کارڈیک ایم آر آئی کی جاتی ہے ، پاکستان میں کارڈیک کی ایم آر آئی ممکن نہیں ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ کارڈیک ایم آر آئی سے متعلق ہمیں کسی ہسپتال نے جواب نہیں دیا سوائے آغا خان کے ۔ انہوںنے کہاکہ آغا خان نے بھی یہی کہا کہ کارڈیک ایم آر آئی پاکستان میں دستیاب نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تمام بورڈز نے کہا تھا انہیں فوری علاج کی ضرورت ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے اس لیے نواز شریف کو ضمانت دی ، کہا جا رہا تھا نواز شریف کی زندگی کو خطرہ ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف کی زندگی کو اب پہلے سے بھی زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ 6 ہفتے صرف ٹیسٹ پر صرف کیے ہیں، ہم نے تو ضمانت ان کے علاج کے لیے دی تھی ۔ عدالت نے بیرون ملک ڈاکٹر عدنان کی نواز شریف سے خط و کتابت پر سوال اٹھا دیا چیف جسٹس نے کہاکہ کیا سزا کی معطلی اور ضمانت پر رہائی کوئی انہونی بات ہے ،ایسی نظیریں بھی موجود ہے جہاں سزائے موت والے قیدیوںکو بھی عدالت نے طبی بنیادوں پر سزا معطل کی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پتہ نہیں ہر چیز کو سیاسی رنگ کیوں دیا جاتا ہے،ہر بات پر عدالت کی تضحیک کی کوشش کی جاتی ہے ۔دلائل کے دور ان خواجہ حارث عدالت کو مطمئن نہ کر سکے جس کے بعد سپریم کورٹ نے نوازشریف کو بیرون ملک علاج کیلئے جانے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے ضمانت میں توسیع کی درخواست خارج کر دی ۔چیف جسٹس نے کہاکہ ڈاکٹرز نے یہ کہیں نہیں لکھا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ قانون میں میڈیکل بورڈ کی رائے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایک انفرادی ڈاکٹر کی رائے کو تسلیم کرکے ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتیں میڈیکل بورڈ کی رائے پر فیصلے کرتی ہیں۔