میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈریپ یا غیرمعیاری فارما کمپنیوں کے ہاتھوں کا کھلونا ؟؟

ڈریپ یا غیرمعیاری فارما کمپنیوں کے ہاتھوں کا کھلونا ؟؟

ویب ڈیسک
پیر, ۲۵ مارچ ۲۰۱۹

شیئر کریں

(جرأت انوسٹی گیشن سیل)دنیا بھر میں کسی بھی مہذب معاشرے کی شناخت وہاں کے عوام کو حاصل صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے ہوتی ہے۔ لیکن آزادی کے بعد سے وطنِ عزیز میں ان دو شعبہ جات میں ہی سب سے زیادہ بدعنوانیاں کی گئیں، عوام سرکاری اسپتالوں میں علاج نہ ہونے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں، یہی حال سرکاری اسکولوں کا ہے جن کی اکثریت سرداروں، وڈیروں، زمینداروں کے جانوروں کو رکھنے والے اصطبل میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کرپشن کی اس بہتی گنگا میں محکمۂ تعلیم کا ایک کلرک بھی ہاتھ دھو رہا ہے تو محکمہ صحت کا ادنیٰ سے ادنیٰ ملازم بھی اس گنگا سے کچھ نہ کچھ کشید کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔


مفاد پرست ضمیر فروش افسران نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے ذریعے ادویہ سازی اور ادویہ فروشی جیسے اہم اور مقدس پیشے کو یرغمال بنا لیا


مفاد پرست ضمیر فروش افسران نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے ذریعے ادویہ سازی اور ادویہ فروشی جیسے اہم اور مقدس پیشے کو یرغمال بنا لیاہے۔ اگر آپ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا فارماسسٹ حضرات کے حقوق کے لیے قائم ہونے والی پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے اندرونی معاملات کو ٹٹولیں تو کسی ابہام کے بغیر وہ نظام متحرک نظر آتا ہے جو ان اداروں کے ذریعے ادویہ سازی اور ادویہ فروشی جیسے اہم اور انسانی زندگیوں سے جڑے اس مقدس ترین پیشے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی مافیا کا بنایا ہوا ہے۔ جس میں حکومت ، سپریم کورٹ اور پاکستان کے کسی بھی قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کا کوئی خوف کام نہیں کرتا۔ بس پیسہ اور صرف پیسہ چلتا ہے۔ عوام کو بہتر طبی سہولیات اور معیاری ادویات کی فراہمی کے لیے بنائی گئی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو عدنان رضوی ، اور عبدالرسول شیخ جیسے زرپرست ٹولے نے اپنے گھر کی باندی بنا رکھا ہے۔ عوام تک معیاری ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پاکستان کی وزارت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اور کوآرڈنیشن کے تحت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ( ڈریپ ) کے نام سے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کی بنیادی ذمہ داری ڈرگ ایکٹ 1976 پر عمل درآمد کروانا تھا، لیکن یہ مجاز اتھارٹی خود جعلی اور غیر میعاری ادویہ ساز اداروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکی ہے اور رہی سہی کسر سفارش کی بنیاد پر خلافِ ضابطہ بھرتیاں ہیں۔ ڈریپ کے فارماسیوٹیکل ایویلیوایشن اینڈ رجسٹریشن ڈویژن کی بنیادی ذمہ داری انسانوں اور جانوروں کے استعمال کے لیے بننے والی ادویات کی جانچ اور کڑا جائزہ لینے کے بعد ہی رجسٹریشن کرنا ہے، لیکن یہ ڈویژن اس کام کے علاوہ ہر کام کر رہا ہے۔


پالیسی بورڈ نے ڈرگ ایکٹ 2012کے سیکشن 5کے سب سیکشن(1) کلاز (الف)کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نجی شعبے کے فرد کو ڈریپ میں اہم عہدے پر تقرر کرتے ہوئے جواز یہ پیش کیا کہ اس عہدے پر کام کرنے کے لیے پبلک سیکٹر میں کوئی شخص دستیاب نہیں تھا، اس عہدے کے لیے بیس سالہ تجربہ رکھنے والے  45سے 56سالہ، فارمیسی اور میڈیسن میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری کی قابلیت درکار تھی، لیکن ڈریپ پالیسی بورڈ کے ’ قابل ترین‘ افسران کوملک بھر سے طبی اور فارمیسی اسکولوں اور پبلک سیکٹر کے ہزاروں صوبائی اور وفاقی ملازمین میں سے مطلوبہ قابلیت کا ایک فرد بھی میسر نہیں آسکا۔


عبدالقادرجاوید

ڈریپ ایک ہی نام پر مختلف فارمولوں والی ادویات کو رجسٹر کر رہا ہے۔ ڈریپ کے اس شعبے کے سائے تلے لی مینڈوزا، آئی سی آئی، گیٹز ، زافا، میڈی شیور، ہلٹن اور افروز جیسی کمپنیوں کی ان گنت دوائیں بغیر کسی رجسٹریشن یا جانچ کے مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہیں یا پھر ایک ہی نام پر مختلف فارمولے رکھنے والی متعدد ادویات رجسٹر ہورہی ہیں۔لیکن کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔
جب ایک ادارے کا سربراہ ہی بدعنوانی اور کرپشن کی غلاظت میں لتھڑا ہوا ہو تو پھر اس کے ماتحت افراد سے ایمان داری کی امید رکھنا ایک معجزے سے کم نہیں( ڈریپ کے چیئر مین ڈاکٹر شیخ اختر حسین کی کرپشن کہانی آئندہ شماروں میں شائع کی جائے گی )۔ عوام کو بہتر خدمات فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے اس اداروں کے اہم عہدوں پر تعینات افسران میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ان عہدوں پر فائز ہوئے ہیں۔ پالیسی بورڈ کسی بھی ادارے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ادویہ ساز اداروں کے غیر قانونی کاموں کو قانونی چھتری فراہم کرنے والے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا پالیسی بورڈ خود ہی اپنے ادارے کی پالیسوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔


ڈاکٹر راجا مصطفی حیدر کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے اہم عہدے ڈائریکٹر ایڈ منسٹریشن ، ہیومن ریسورس پر تعینات کیا گیا۔ موصوف ڈاکٹر مصطفی حیدربی ڈی ایس کی ڈگر ی رکھنے والے دانتوں کے ڈاکٹر ہیں اور کسی بھی طرح مذکورہ عہدے کے اہل نہیں۔ باہر کے ان افسران کو اہم عہدوں پر تعیناتی کے لیے وزارت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اور کوآرڈینیشن کے وضع کردہ طریقہ کار کو مکمل کیے بغیر ڈیپوٹیشن پر لایا گیا۔ یاد رہے کہ ان اہم عہدوں پر کسی بھی فرد کی تعیناتی وزارت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اور کوآرڈینیشن کے ریاستی وزیر کے خصوصی احکامات پر کی جاتی ہے۔


چیئر مین ڈریپ ڈاکٹر شیخ اختر حسین

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی دستاویزات کے مطابق پالیسی بورڈ نے ڈرگ ایکٹ 2012کے سیکشن 5کے سب سیکشن(1) کلاز (الف)کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نجی شعبے کے فرد کو ڈریپ میں اہم عہدے پر تقرر کرلیا اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس عہدے پر کام کرنے کے لیے پبلک سیکٹر میں کوئی بندہ ہی دستیاب نہیں تھا، اس عہدے کے لیے بیس سالہ تجربہ رکھنے والے 45سے 56سالہ، فارمیسی اور میڈیسن میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری کی قابلیت درکار تھی، لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پالیسی بورڈ کے ’ قابل ترین‘ افسران کوملک بھر کے طول و عرض میں پھیلے طبی اور فارمیسی اسکولوں اور پبلک سیکٹر کے ہزاروں صوبائی اور وفاقی ملازمین میں سے ایک بھی فرد ایسا نہیں مل سکا جو مطلوبہ قابلیت پر پورا اُترتا ہو۔ پالیسی بورڈ نے ڈریپ ایکٹ 2012کی بدترین خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرپ بنانے والی ایک ادویہ ساز کمپنی میسرز Otsukaپاکستان کے متعلقہ شعبے میں بہت ہی محدود تجربہ رکھنے والے ایک ملازم کو منتخب کیا، حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ مینو فیکچرنگ کے عمل کی نگرانی کرنے والا یہ فرد جی ایم پی ( گڈز مینو فیکچرنگ پریکٹس) کی خلاف ورزی، غیر محفوظ ماحول میں ادویات بنانے اور ان کی سپلائی کا مرتکب بھی تھا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سینٹرل لائسنسنگ بورڈ ( سی ایل بی) کے مجاز حکام نے مذکورہ فرد کی وجہ سے اس کمپنی کے ڈرگ مینو فیکچرنگ لائسنس میں توسیع سے انکار کردیا تھا۔ ڈریپ پالیسی بورڈ کے کالے کرتوتوں کا سلسلہ صرف ایک فرد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس بورڈ نے تو سپریم کورٹ کے احکامات تک کو ہوا میں اڑا دیا۔ پالیسی بورڈ نے گریڈ بیس پر ڈیپوٹیشن کے لیے گریڈ اٹھارہ اور انیس کے افسران عبدالقادر جاوید اقبال اور ڈاکٹر راجا مصطفی حیدر کے تقرر کی توثیق کی۔ ڈاکٹر راجا مصطفی حیدر کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے اہم عہدے ڈائریکٹر ایڈ منسٹریشن ، ہیومن ریسورس پر تعینات کیا گیا۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر مصطفی حیدربی ڈی ایس کی ڈگر ی رکھنے والے دانتوں کے ڈاکٹر ہیں اور کسی بھی طرح مذکورہ عہدے کے اہل نہیں۔ باہر کے ان دونوں افسران کو اہم عہدوں پر تعیناتی کے لیے وزارت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اور کوآرڈینیشن کے وضع کردہ طریقہ کار کو مکمل کیے بغیر ڈیپوٹیشن پر لایا گیا۔ یاد رہے کہ ان اہم عہدوں پر کسی فرد کی تعیناتی وزارت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اور کوآرڈینیشن کے ریاستی وزیر کے خصوصی احکامات پر کی جاتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پالیسی بورڈ کے علم میں یہ بات تھی کہ مطلوبہ قابلیت اور تجربہ نہ رکھنے والے مذکورہ امیدواروں کی تعیناتی سپریم کورٹ کے فیصلے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی گائیڈ لائن اور میرٹ کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے وفاقی ڈرگ انسپکٹرز کی بھرتیوں میں کس طرح میرٹ کو پامال کیا ، اس کی مزید تفصیلات آئندہ شمارے میں شائع کی جائیں گی۔( جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں