ڈونلڈ ٹرمپ کی للکار کا جواب خودانحصاری سے دیا جاسکتا ہے،زبیر طفیل
شیئر کریں
ٹیکسوں میں کمی اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کرکے غیر ملکی امداد اور قرضوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے
2017ءگیس اور بجلی کے بحران کے خاتمے کا آخری سال ہوگا ، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کا جال بچھا کر بے روزگاری کا خاتمہ کیا جاسکتاہے
یونائیٹڈ بزنس گروپ کا منشور فیڈریشن ہاو¿س کو مفاد پرستوں سے بچانا ہے ، ہم جو کماتے ہیں وہ ملک میں لگاتے ہیں،فیڈریشن کے صدارتی امیدوار زبیر طفیل کی جرا¿ت سے خصوصی گفتگو
خالد شکیل
عقل مندوں سے بھرتی اور درد مندوں سے خالی ہوتی اس دنیا میں زبیر طفیل کا دم غنیمت ہے کہ جن کے طفیل مبشر اور سلمان طفیل جیسے سینکڑوں نوجوان اپنا مستقبل بنا اور روزگار پا رہے ہیں گویا دوسری نسل پاکستان کی تیسری نسل کو وراثت منتقل کررہی ہے۔ زبیر طفیل نے 1951 میں پاکستان کی پہلی نسل کے فرد محمد طفیل کے گھرانے میں آنکھ کھولی تو پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے چوتھا برس تھا ملک کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان ”قائدِ ملت سے شہیدِ ملت“ ہوچکے تھے ،نوزائیدہ مملکت کا دارلاحکومت اور پاکستان کا شہرِ تجارت کراچی روز بنتی اور ٹوٹتی حکومتوں اور اہلِ سیاست کے ہاتھوں سخت افراتفری اور انتشار کا شکار تھا ۔ اس غیر یقینی صورتحال میں محمد طفیل مرحوم نے طفیل برادرز کے نام سے تجارتی کمپنی قائم کرکے یورپ سے کمیکل اور دھاتی اشیاءکی درآمد اس یقین کے ساتھ شروع کی کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں یہ ملک قائم رہنے کے لیے بنا ہے اللہ پر بھروسہ اور ملک کو عروج و ترقی کی دعا کے عزم و یقین سے قائم ہونے والی درآمدی فرم کی تجارت فروغ پا رہی تھی تو دوسری جانب زبیر طفیل کی صورت میں کمپنی کا مستقبل بھی پروان چڑھ رہا تھا۔ والد کی دوررس نگاہ نے بیٹے کی بصیرت بھانپتے ہوئے ابتدائی تعلیم کے لیے لارنس روڈ پر واقع اس چرچ مشن ہائی اسکول کا انتخاب کیا جو بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی پہلی درس گاہ تھی ، اعلیٰ ثانوی تعلیم کے بعد علمِ تجارت کے لیے ایس ایم کامرس کالج میں داخل ہوئے اور 1972 میں فارغ التحصیل ہوکر والد کے کاروبار میں شریک ہوئے ، ۱۲ سالہ زبیر کے ساتھ یہ عجیب معاملہ تھا کہ آنکھ کھولی تو لیاقت علی خان کی شہادت کا سانحہ ہوچکا تھا عملی زندگی کا آغاز کیا تو ملک دو لخت ہونے کا سانحہ عظیم پیش آگیا ۔والد کی طرح زبیر طفیل بھی مایوس ہوئے نہ ہمت ہاری بلکہ نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ خاندانی کاروبار کو وسعت دینا شروع کی ۔
وجاہت ، ذہانت اور متانت سے بھرپور نوجوان زبیر طفیل نے کاروبار کے آغاز سے ہی طے کرلیا تھا کہ محض درآمدی تجارت سے شکستہ ملک کی خدمت نہیں ہوسکتی ، ایسی صنعت لگانا ہوگی جس سے خود انحصاری بڑھے اور لوگوں کو روزگار ملے چنانچہ آپ نے کیمیکل انڈسٹری کا ڈول ڈالا اور پنجاب میں رائیونڈ اور کراچی میں پورٹ قاسم کے مقام پر زبیر طفیل کیمیکل انڈسٹری قائم کرکے ایسے صنعتی کیمیکلز تیار کرنے شروع کیے جو ملبوسات کی رنگائی سے لیکر موٹر سازی، فولاد، دھات اور پلاسٹک سازی کے علاوہ صابن ، ڈیٹرجنٹ اور زیبائشی اشیاءکی تیاری میں بنیادی عنصر کا درجہ رکھتے ہیں۔ ملکی و غیر ملکی اور کثیر القومی صنعتوں کے درمیان مسابقتی ماحول میں جہاں ایک جانب آئی سی آئی ، بی اے ایس ایف،سینڈوز پاکستان لیمٹڈ جیسی مشہور ِ زمانہ اور کثیرالقومی کمپنیاں سامنے ہوں زبیر طفیل کیمیکل انڈسٹری نے وہ معیار قائم کیا کہ یورپ، امریکہ ، افریقہ ، مشرقِ وسطیٰ سمیت چالیس ایشیائی ممالک میں ان کے خریداروں کی طویل فہرست میں یونی لیور، پراکٹر اینڈ گیمبلز (P&G) ، سام سنگ ،اور ہونڈائی جیسے گاہگوں کے نام نمایاں ہیں جو ناصرف زبیر طفیل بلکہ پاکستان کے لیے بھی فخرو اعزاز کی بات ہے۔لگ بھگ 105 ملین ڈالرز سالانی کی تجارت سے ملک کو قیمتی زرِ مبادلہ اور ہنر مند افراد کو روزگار فراہم کرکے زبیر طفیل کا صنعتی گروپ جو گراں قدر خدمات انجام دے رہا اس کے اعتراف میں چین اور جاپان سمیت کئی ممالک نے تعریفی اسناد اور ایوارڈس سے نوازا ہے ۔
متین، ذہین اور فطین زبیر طفیل صرف قابل تاجر اور صنعتکار ہی نہیں بلکہ تاجروں اور صنعتکاروں کے خدمت گار بھی ہیں وہ گذشتہ ایک ربع صدی (پچیس برسوں سے) فیڈریشن چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹری سے وابستہ اور اس وفاقی ادارے کی مختلف کمیٹیوں کے سربراہ رہ چکے ہیں ۔ اس حیثیت میں رہتے ہوئے وزارتِ خزانہ اور محکمہ ٹیکس سے درپیش تاجروں اور صنعتکاروں کے بے شمار مسائل حل کروائے ہیں جن میں سب سے اہم اور دیرینہ درآمد کنندگان کے ریبیٹ اور سیلز ٹیکس ری فنڈ کی 121ارب روپے کی پھنسی ہوئی وہ خطیر رقم تھی جو وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر ایک عرصہ سے واپس نہیں کررہی تھی ، زبیر طفیل کی کوششوں سے ناصرف ان کی واپسی شروع ہوگئی ہے بلکہ آئندہ ماہ تک مکمل ہوجائے گی۔ زبیر طفیل تقریباََ ہر ماہ تاجروں صنعتکاروں کے مسائل اور ملکی تجارت کے فروغ کی تجاویز کے ساتھ وزارتِ خزانہ اور وزارتِ تجارت کے اعلیٰ حکام اور حکومتی وزراءاور عہدیداروں سے المشافہ ملتے ہیں جہاں ان کی تجاویز کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ان کی پچیس سالہ خدمات کو دیکھتے ہوئے تاجروں اور صنعتکاروں کے سب سے بڑے اور بااثر یونائیٹڈ بزنس مین گروپ ( UBG) نے انہیں 2017ءکے لیے فیڈریشن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے ،UBG کے چیئر مین خالد تواب کا دعویٰ ہے کہ یہ صدارتی الیکشن محض رسم ہوگا ،تاجروں اور صنعتکاروں کی واضح اکثریت زبیر طفیل پر پہلے ہی اعتماد اور ان کی حمایت کا اظہار کرچکی ہے۔بحیثیت صدارتی امیدوار روزنامہ جرات کو دیے گئے تفصیلی انٹرویو میں زبیر طفیل نے جو بے لاگ جوابات دیے وہ نذرِ قارئین ہیں ۔
جرا¿ت : حالیہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو پاکستان کے معاشی اور اقتصادی حالات کے تناظر میں آپ کیسا دیکھتے ہیں ؟
زبیر طفیل : ہمیں امریکہ یا کسی بھی ملک کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے ناہی بہت ذیادہ توقعات اور امید رکھنی چاہیے ، آزادی کے سترّ برس گذر چکے ہم کب تک امداد اور قرضہ مانگتے رہیں گے، امریکہ اور ٹرمپ کے لیے بھارت پاکستان سے ذیادہ اہمیت کا حامل ملک ہے، آبادی اور تجارت میں بھی بھارت ہم سے بڑا ملک ہے۔پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امریکہ ہمیں ہمیں دیتا ہی کیا ہے ؟ محض ایک ڈیڑھ ارب ڈالرز کی امداد کے بدلے اس کے مطالبات ذیادہ ہین وہ بھارت کی زبان بولتا اور اس کے مطالبات ہم پر تھو پتا ہے۔ چنانچہ ہمیں خود انحصاری کی راہ اپنانی ہوگی حکومت اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے ، جاگیرداروں اور زمین داروں سے بھی پورا ٹیکس وصول کرے تو ہمیں امریکہ یا کسی کی بھی ضرورت نہیں ہوگی ۔
جرا¿ت : آپ کے خیال میں ٹیکسز ذیادہ نہیں ؟
زبیر طفیل :© یقینا بہت ذیادہ ہیں بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹیکسون کا سارا بوجھ پہلے سے ٹیکس دینے والے تنخواہ دار طبقے اور تاجروں اور صنعت کاروں پر ڈال دیا گیا ہے جبکہ زمیں دارون اور جاگیردارون کو کھلی چھوٹ ہے ، ان سے براہِ راست کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا حالانکہ ان کی آمدنی کسی تاجر یا صنعت کار سے کم نہیں ۔
جرا¿ت : خود انحصاری اور معاشی ترقی کے لیے کس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے ؟
زبیر طفیل : تعلیم، صحت اور صنعت کے شعبہ پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ، چین میں سالانہ40 لاکھ اور بھارت میں 24 لاکھ گریجویٹ طلباءکی شرح ہے اپنے ملک سے باہر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں اسی طرح چین میں اب صرف چینی ہی نہیں پاکستان اور دیگر ملکوں کے ماہرین بھی خدمات انجام دے رہے ہیں ، پاکستان مین ایسی صنعتوں کا قیام بہت ضروری ہے جو روزگار کے ذیادہ سے ذیادہ مواقع فراہم کریں ، حکو مت پورے ملک میں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کا جال بچھائے تاکہ لوگوں کو اپنے علاقوں میں روزگار مہیا ہوسکے اور وہ کراچی یا بڑے شہروں کا رخ کم سے کم کریں ، اس کے لیے حکومت انفرا اسٹرکچر اور اسٹیٹ بینک صنعتوں کے لیے قرضہ فراہم کرے، بجلی اور توانائی کے بحران پہ قابو پایا جائے ، بجلی گیس کی کمیابی سے لوگ پراپرٹی میں سرمایہ لگارہے ہیں جس کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس سے مستقل روزگار فراہم نہیں ہوتا ۔
جرا¿ت : کس قسم کی صنعتون کی ضرورت ہے اور انہیں کیسی مراعات درکار ہیں ؟
زبیر طفیل : دنیا بھر میں بڑی صنعتوں کی تعداد صرف 30 فیصد ہے جب کہ چھوٹی اور درمیانی صنعتیں 70 فیصد ہیں ان کے لیے حکومت آسان شرائط پر قرضوں کے علاوہ ٹیکسز میں بھی 25 فیصد کمی کرے سیلز ٹیکس کی مد میں اس وقت جو 17فیصد وصول کیا جارہا ہے وہ بھی ذیادہ ہے یہ 15فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیے، انکم ٹیکس میں بھی پچیس فیصد کمی کی ضرورت ہے۔
جرا¿ت :ماضی کی طرح ملک میں بے روزگار افراد کو بیرونِ ملک روزگار فراہم کرنے میں حکومت کوئی مدد کیوں نہیں کرتی ؟
زبیر طفیل : ماضی کے برعکس اب صورتحال یکسر مختلف ہے ، مشرقِ وسطٰی اور تیل پیدا کرنے والے ممالک عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے باعث خود مالی بدحالی کا شکار ہورہے ہیں ان کی اپنی مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع کم ہیں امریکا اور یورپ کی ویزا پالیسی دہشت گردی کے حوالے سے اتنی سخت ہوچکی ہیں کہ وہاں بھی داخلے کے دروازے تقریباََ بند ہیں ، ایسے میں حکومت کو اپنی پالیسیاں بہتر کرنی ہوں گی جو بد قسمتی سے ذیادہ اچھی نہیں ۔ خود روزگار اسکیموں میں خواتین کو بھی ذیادہ سے ذیادہ شامل کرنا ہوگا کیونکہ خواتین آبادی کا 52فیصد ہیں انہیں بلا سود قرضہ دے کر گھریلو صنعتوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔
جرا¿ت : صنعت و تجارت کے لیے جس توانائی کی ضرورت ہے وہ مہنگی بھی ہے اور اس کا فقدان بھی ہے؟
زبیر طفیل : یہ درست ہے کہ بجلی کے نرخ بہت ذیادہ ہیں کے الیکٹرک گھریلو اور کمرشل صارفین سے بے تحاشہ کما رہی ہے یہی وجہ ہے کہ شنگھائی الیکٹرک کمپنی سے معاہدہ کیا گیا ہے جو25 فیصد تک نرخ کم کرے گی، علاوہ ازیں پورٹ قاسم اور نیلم جہلم پراجیکٹ تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جس کے بعد ۷۱۰۲ءبجلی کے بحران پر قابو پالیا جائے گا ،ہائیڈرل پاور اور ایل این جی پلانٹس سے پیداواری اخراجات کم ہوں گے تو سستی بجلی ملنا شروع ہوجائے گی ۔
جرا¿ت : تےاجر برادی کا مثالی اتحاد اب اختلافات اور گروپنگ کا شکار کیوں ہے ؟
زبیر طفیل : ہمارا اختلاف سیاسی نہین اصلی ہے، ایوانِ تجارت ایک امانتی ادارہ ہے اور آمدنی کو ذاتی مفاد یا ذات پر خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں جب UBG کے پہلے صدر میاں ادریس تھے تو انہوں نے اخراجات میں کمی کرکے ایوان کے 80 لاکھ روپے بچائے ان کے بعد آنے والے رو¿ف عالم اور خالدتوّاب نے یہ روایت برقرار رکھتے ہوئے سات سال سے نامکمل اسلام آباد میں کیپیٹل بلڈنگ کی تعمیر مکمل کروائی جس کا حال ہی میں وزیرِ خزانہ نے افتتاح کیا ،یوبی جی کے رہنما افتخار علی ملک نے اس عمارت کی تعمیر میں 50 لاکھ روپے کا عطیہ بھی دیا ہے ۔ہمارا کہنا ہے کہ فیڈریشن ہاو¿س کے وسائل کسی بھی صورت اپنی ذات پر نہیں خرچ کیے جائیں گے اس کے برعکس مخالف گروپ کی بددیانتی اس بات سے ظاہر ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سابق صدر نے پی سی ہوٹل کراچی میں آٹھ ہزار روپے یومیہ پر پورے سال کے لیے کمرہ لیا ہوا تھا ۔جبکہ کھانے پینے اور سفری اخراجات فیڈریشن سے وصول کرتے تھے اگرچہ وہ ذاتی حیثیت میں دوہزار روپے یومیہ خرچ کرنے کے بھی روادار نہیں تھے ۔
جرا¿ت : اپنے موجودہ حریف امیدوار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
زبیر طفیل : افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اپوزیشن کے صدارتی امیدوار جو کہ اربوں پتی ہیں اخلاقی طور پر بہت کمزور ہیں ۔پراپرٹی کی صنعت میں ان کی آمدنی مجھ سے کسی بھی طرح کم نہیں مگر وہ صرف19ہزار 8سو روپے سالانہ انکم ٹیکس دیتے ہیں جبکہ میرا ذاتی انکم ٹیکس50لاکھ روپے ہے ،زبیر طفیل انڈسٹری سالانہ 40 کروڑ روپے ٹیکس صرف اس لیے ادا کرتی ہے کہ پاکستان مضبوط ہو، اس کے لوگوں کو مزید روزگار ملے ہم جو کماتے ہیں اس ملک اور اسی شہر میں لگاتے ہیں ، ہمارے نہ کوئی بے نامی اکاو¿نٹ ہیں نہ ہی ہمیں اس ملک اور اس شہر سے باہر جانا ہے، ہمارا جینا مرنا یہاں ہے ۔تاجر برادری سے کہنا چاہتا ہوں کہ خدارا ٹیکس پورا ادا کرکے ملک کا حق ادا کریں آپ کے ٹیکس سے ہی ملک کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کر سکتے ہیں ۔ ٹیکس چوری کا کلچر کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں ۔
٭٭٭