عثمان بزدار کے لیے
شیئر کریں
اپنے حالیہ دورہ لاہور کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کے جلد اُجاگر ہونے کی اُمید کا دیا روشن کیا ہے۔ وزیر اعظم کو اپنے انتخاب پر اعتماد کا اعادہ اس لیے بھی کرنا پڑا کہ عثمان بزدار کو سیاست میں حاسدین کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کی جانب سے بھی مخالفت کا سامنا ہے۔ پنجاب کی افسر شاہی نے وزیر اعلیٰ کو نا تجربہ کارہونے کی وجہ سے اپنا آسان ہدف سمجھ لیا ہے۔ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں اور ڈسٹرکٹ پولیس افسروں کے تبادلے کر دیے گئے ہیں لیکن یہ تمام افسران وہی ہیں جو گزشتہ بیس سالوں سے مختلف عہدوں پر خدمات سر انجام دیتے چلے آئے ہیں ۔۔ ظاہر ہے انہی افسران سے کاروبارِ حکومت چلانے میں معاونت لی جانی ہے۔ نئے لوگ نہیں آ سکتے ہیں ۔ ان سب کی نیت پر شک بھی نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کیا جانا چاہئے کیونکہ کہ سب ریاست کے ملازم اور تنخواہ دار ہیں ۔ کسی سیاست دان یا سیاسی خانوادے سے ان کی ذاتی وابستگی تو ہو سکتی ہے لیکن اپنی وابستگی کو وہ اپنے فرائضِ منصبی پر اثر انداز نہیں ہونے دے سکتے ۔ تاہم یہ منطق اُن حاضر سروس افسران یااُن ریٹائرڈ افسران پر لاگو نہیں ہوتی جو شریف برادران کے ساتھ ذاتی طور پر لگاؤ رکھتے ہیں ۔گزشتہ سے پیوستہ دورِحکومت میں میانوالی کے ایک ڈپٹی کمشنر کے خلاف جب اُس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کو ایک عوامی اجتماع کے دوران شکایت کی گئی تو وزیر اعلیٰ نے بڑے یقین سے ڈپٹی کمشنر کی ایمانداری کا جوازیہ پیش کیا تھا کہ وہ اُن کے ’’ اُستاد ‘‘ کے بیٹے ہیں ۔۔
پنجاب میں بہت سے افسران ایسے ہیں جو موجودہ حکومت کے احتساب کے نعرے سے خوفزدہ ہیں ۔ ان افسران کی اکثریت اپنی موجودہ پوزیشنوں سے دور ہونا اس لیے بھی نہیں چاہتی کہ ان کے گھپلے منظر عام پر نہ آجائیں ۔ ان میں وہ افسران خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو مختلف خودمختار اداروں کی سربراہی کرتے چلے آ رہے ہیں یا جنہوں نے نام کمانے کے ساتھ ساتھ مال بھی بنایا اور لکشمی سے دوری کا خوف انہیں سردار بزدار کی پُر خلوص معاونت پر مائل نہیں ہونے دیتا ۔
عثمان بزدار پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے وزیر اعظم عمران خان کا انتخاب ہیں ۔25 جولائی 2018 ء کو جس جمہوری انقلاب کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف اور اُس کے سیاسی حلیف بر سرِ اقتدار آئے ہیں اُس کا تمام تر کریڈٹ عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد کو جاتا ہے۔ گزشتہ بیس تیس سالوں میں آفتاب کی ہچکیاں سُن کر جس شفق کی آنکھوں میں آنسو آئے وہ عمران خان ہی تھے۔ اسی ’’ خان آف میانوالی ‘‘ نے شام کے خونی پنجے سے دن کی گردن کو آزادی دلائی ۔ عمران خان نے ملک اور قوم پر مسلط خوفناک مافیاؤں کے اتحاد کو شکست دینے کے لیے اپنا سب کُچھ قربان کر دیا ۔ سارے سیاستدان راحت کے جام پیتے رہے۔ تنہا عمران خان کی ذات ہی تھی جو وقت کے بضد تیوروں کے مقابل رہی ۔
استقامت نے اُسے فتح سے ہمکنار کیا تو اُس کے فیصلوں میں کیڑے نکالنے کی کوشش کی گئی ۔ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے سردار عثمان بزدار کا انتخاب دھوپ میں دیپک لے کر نکلنے کے مترادف ہے۔ چلچلاتی اور جلا دینے والی دھوپ میں ایسا رسک وہی لیا کرتے ہیں جو نُور کا کاروبار کرتے ہیں ۔اندھیری رات میں رہبروں کے ہاتھوں لُٹنے والے پنجابی عوام کو عثمان بزدار کے انتخاب نے عمران خان کا یہ پیغام پہنچایا تھا کہ انہیں پابند اڑانوں سے عداوت ہے، وقت کو اُن کی پرواز کے ساتھ اُڑنا پڑے گا ۔ اسی عزم اور ارادے کے مقابلے میں اندھیروں کی وکالت شروع ہو گئی ۔ پاکستانی میڈیا کے وہ سرخیل جو خود کو روشنی کا محافظ کہا کرتے تھے گُم ہو گئے ہیں ۔ جو آفات کو چھیڑنے کی شہرت کے حامل تھے سب کے سب حادثوں کے مقابل آنے کے بجائے اپنے میڈیا ہاوسسز کے مالکان کی خُفیہ وابستگیاں اور نوکریاں بچانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
عمران خان اپنے عہد کی ایک منفرد شخصیت ہے ۔ اُس سے محبت کرنے والے جہاں دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں وہاں اُن سے حسد کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس بہت بڑی تعداد سے صرف یہ کہہ کر جان نہیں چھُڑائی جا سکتی کہ ’’ جلنے والے کا منہ کالا ‘‘ ۔ ابرِ آوارا کی طرح سڑکوں پر حسد کی آگ میں جلنے والوں کو کون سمجھائے کہ عمران خان پر اللہ کریم کی خاص عنایات ہیں ۔۔ اس مردِ خود آگاہ کو قدرت نے ماضی میں کبھی بے توقیر نہیں ہونے دیا ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کے انتخاب کا بھرم بھی وہی ذات رکھے گی جس کے پاس کسی کو عزت و ذلت دینے کا کُلی اختیار ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے والوں کے ناموں پر ایک نظر دوڑائی جائے تو قیام پاکستان سے پہلے یونینسٹ ( Unionist ) پارٹی کے سکندرحیات خان اور خضر حیات خان ٹوانہ اس عہدے پر فائز تھے۔ اُس کے بعد ایک طویل فہرست ان وزرائے اعلیٰ کی ہے جنہیں مسلم لیگ کی جانب سے یہ عہدہ سونپا گیا تھا ۔ اُن میں نواب افتخار حُسین خان ممڈوٹ ، میاں ممتاز دولتانہ ، سر فیروز خان نون ، عبد الحمید خان دستی نمایاں ہیں ۔ بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ملک معراج خالد، ملک غلام مصطفی کھر ، حنیف رامے ، صادق حُسین قریشی پنجاب کے راج سنگھاسن کے وارث بنے ۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے آخری سالوں میں میاں نواز شریف اس منصب پر فائز ہوئے ۔ محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ کی برطرفی کے بعد نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر بھی انہی کا انتخاب جنرل ضیاء سے وفاداری اور مسلم لیگ کے سربران محمد خان جونیجو سے بے وفائی کا انعام تھا ۔ اس کے بعد غلام حیدر وائیں ، میاں منظور احمد وٹو ، منظور الہٰی ( نگران ) ، منظور احمد وٹو ( دوسری بار) ، سردار محمد عارف نکئی ، میاں منظو راحمد وٹو ( تیسری بار ) ، میاں محمد افضل( نگران ) ، میاں محمد شہباز شریف ، چوہدری پرویز الہٰی ، شیخ اعجاز نثار ( نگران ) ، دوست محمد کھوسہ، میاں محمد شہباز شریف( دوسری بار ) ، میاں محمد شہباز شریف ( تیسری بار ) ، نجم سیٹھی ( نگران ) ، میاں محمد شہباز شریف ( چوتھی بار ) ، پروفیسر حسن عسکری ( نگران ) کے بعد اب سردار عثمان بزدار اس منصب پر فائز ہیں ۔ منظور احمد وٹو تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے ۔ پہلی مرتبہ وہ 84 دن ، دوسری مرتبہ ایک سال 328 دن م جبکہ تیسری مرتبہ 13 دن کے لیے جبکہ میاں شہباز شریف چار مرتبہ اس عہدے پر فائز ہوئے۔ پہلی مرتبہ دوسال 234 دن ، دوسری مرتبہ 262 دن ، تیسری مرتبہ 3 سال 361 دن ، چوتھی بار 4 سال 349 روز تک یہ قلمدان ان کے پاس رہا ۔ یہ ہماری سیاست کے بڑے نہیں تو معروف نام ضرور تھے ،ان سب وزرائے اعلیٰ کے ادوارکی کارکردگی اور ترقی کا عکس پنجاب خاص کر جنوبی اور شمال مغربی پنجاب کی حالت کی صورت میں سب کے سامنے ہے ۔ تاریخ کے مطالعہ کی شہادت ہے کہ جب بھی کسی انسانی معاشرے میں انقلاب کی راہ ہموار ہوئی اور قدرت نے کوئی قائد انقلاب کسی قوم کوو دیعت کیا تو تاریکیوں نے ’’اکٹھ ‘‘ کر لیا ،ہمارے معاشرے میں بھی جب بھی کوئی آفتاب بن کر اُبھرتا ہے تو بھونچال سا آجاتا ہے۔ اندھیرے کی مجلسِ شوریٰ کی بیٹھکیں اس سوچ کے حاملین سے آباد ہونے لگتی ہیں کہ نئی اور آنے والی نسلیں بصارتوں کی امین نہ ہوں۔۔ اگر ایسا ہوا تو وہ روشنی میں ان لوگوں کی اصلیت اور پست قامتی کو جان لیں گے ۔۔ عثمان بزدار، جسے عمران خان کی مکمل رہنمائی اور پُشت پناہی حاصل ہے ،کے مخالفین کو بھی کوئی ایسا ہی معاملہ درپیش ہے!!