میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سی پیک ،معدنی معاہدے اور بلوچستان

سی پیک ،معدنی معاہدے اور بلوچستان

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۱ اکتوبر ۲۰۱۸

شیئر کریں

لوچستان اپنی طویل ساحلی پٹی، زیر زمین بیش بہا معدنی دولت اور جغرافیہ کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے ۔ اس کی تزویراتی ہیت ماضی اور قریب کی تاریخ میں دنیا کی نظروں میں رہی ہے ۔ اس انفرادیت کی بناء پر یہ خطہ آج بھی مرکز نگاہ ہے ۔ زار شاہی اور کمیونسٹ روس کاگرم پانیوں تک رسائی کا خواب پورا نہ ہوسکا۔جن کا راستہ پہلے سے قابض انگریزوں نے روکے رکھا تھا۔روسی بھی استعماری ارادوں کے ساتھ بڑھنا چاہتے تھے خاص کر کمیونسٹ روس اپنی اشتراکی، الحادی نظریات اور فوجی و استبدادی قوت کے ساتھ حرکت پذیر تھا ۔جس کی ڈوریں بالآخر افغانستان میں اُلجھ گئیں، اور اپنے استعماری و سامراجی ارادوں و نظریات کے ساتھ فنا کے گھاٹ اُتر گیا۔قرعہ عوامی جمہوریہ چین کے حق میں نکلا جسے گوادر تک رسائی مل گئی ۔ یہی نہیں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک تک اپنی تجارتی و معاشی سرگرمیاں پھیلانے میں ہمہ تن مصروف ہے ۔
پاکستان کے اندر سالوں سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا غلغلہ بلند ہے ۔ یہاں پنجاب کی فوقیت، مغربی اور مشرقی روٹ کا تنازع بھی کھڑا ہوا ۔ہنوز صوبے کی سیاسی جماعتوں کی نوک پر سی پیک سے متعلق امور ہیں کہ اس تناظرمیں بلوچستان کے مفادات کو بہر طور مقدم رکھا جائے ۔ چوں کہ ماضی کے معاہدوں جن میں سیندک اور ریکوڈک کے ذخائر پر چین اور ٹھیتیان کمپنی کے ساتھ معاہدے شامل ہیں کا فائدہ وفاق پاکستان، چین یا ٹھیتیان کمپنی کو تو ملا ہوگا مگر بلوچستان اللہ کی دی ہوئی اپنی ان نعمتوں سے محروم ر ہا ہے ۔ نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ تھے ، انہوں نے ٹھیتیان کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم کردیا۔ نیت یہ تھی کہ ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے ذخائر کو خود بروئے کار لائیں گے ۔تاہم اس کے برعکس اللوں تللوں کا دور دورا ہوا۔کام ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ کمپنی نے عالمی عدالت میں دعویٰ داخل کرادیا۔ عالمی عدالت میں کیس لڑنے پر تین ارب روپے سے زائد خرچ ہو چکے ہیں۔ حکومت بلوچستان کو بھاری جرمانے کا خوف لاحق ہے ۔ایک ستم یہ دیکھنے کو ملاکہ صوبے کے حکمرانوں نے اس کیس کی پیروی کو بھی سیر سپاٹوں کا ذریعہ بنایا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اٹھارہویں آئینی ترمیم لائی گئی جس کے تحت صوبے کئی امور میں با اختیار ہوگئے مگر مسئلہ آئین پر عملدرآمد اور اہلیت کا پیش آیا۔ چنا نچہ صوبے کے اندر اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عمل در آمد کرانے کی صدائیں ایوانوں، سڑکوں اور چوراہوں پر سنائی دے رہی ہیں۔جب چین کے ساتھ سیندک معاہدے کی تجدید ہوئی تب بھی صوبے کی بجائے مرکز میں فیصلے ہوئے ۔ اسی طرح سی پیک کا تو شاید آج تک پوری طرح معلوم بھی نہ ہو کہ آخر اس اقتصادی راہداری کے ضمن میں یہاں کی بیوروکریسی اور حکومت کا فرض و کردار کیا ہوگا؟
وفاق نے سعودی عرب کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی۔ چھ رکنی سعودی وفد سعودی مشیر برائے توانائی اور معدنیات احمد حامد الغامدی کی قیادت میں پاکستان آیا۔ گوادر کا دورہ کیا جہاں انہیں بریفنگ دی گئی۔ سعودی عرب کے تعاون سے گوادر میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی آئل ریفائنری لگانے پر اتفاق ہوا۔ اس آئل ریفائنری کے ذریعے پاکستان، چین اور وسط ایشیائی ممالک کی تیل کی ضروریات کو پورا کیا جائیگا اور سعودی کمپنیوں بلوچستان میں موٹرویز اور ریلوے نیٹ ورک کی نئی تعمیرات کیلئے بھی کام کریں گی۔ یہ اصطلاح بھی سننے اور پڑھنے کو ملی کہ سعودی عرب سی پیک میں تیسرا ‘‘اسٹریٹیجک’’ پارٹنر ہوگا۔ لہٰذا اس کی وضاحت ضروری ہے کہ آیا اس اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کے خدوخال اور تفصیلات کیا ہیں ۔ اچھا یہ بھی ہوا کہ چین و ایران نے سی پیک میں سعودی شراکت داری کو خوش آئند قرار دیا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹرمپ انتظامیہ سعودی حکومت کے اس اقدام پر خوش ہوگی ۔جبکہ ٹرمپ قرار دے چکے ہیں کہ سعودی شاہی حکومت ان کے بغیر دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن معاہدہ ہوا ۔ ایران نے معاہدے کے تحت اپنی سرزمین پر پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کرلیا مگر پاکستان کے اندر صفر کام بھی نہ ہوا۔ شاید ہم ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو دیکھ رہے ہیں ۔ حالانکہ اس کی اشد ضرورت پاکستان ہی کو ہے ۔ ایران پاکستان کو بجلی کی فراہمی کی بھی بار ہادعوت دے چکا ہے ، مگر حکمرانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ ہونا یہ چاہیے کہ کسی کی ناراضگی و دباؤ خاطر میں لانے کی بجائے اپنے ملک کی ضروریات ترقی و بہبود کو مقدم ر کھا جائے ۔ہمیں دنیا کی بدلتی ہوئی سیاست میں کامل خومختاری کے ساتھ نئے رخ کا تعین کرنا چاہیے ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خُوب کہا کہ پاکستان کی سیاسی جہتیں مشرق کی جانب بڑھ رہی ہیں اور پاکستان اب مغرب کا محبوب نہیں رہا ۔
چین کی آزادی کے علمبردار ایک معروف قوم پرست و جمہوریت پسند رہنماء ‘‘سن یت سین ’’نے 1923 ء میں کہا تھا کہ ’’ایشیائی اقوام یکجا ہوکر ہی اپنی آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہیں‘‘۔ الغرض بلوچستان میں صوبائی خود مختاری یا اٹھارہویں آئینی ترمیم کی اصل روح پر عملدرآمد کی آوازیں بلند ہوئی یہ کہ سعودی حکومت کے ساتھ شراکت کے موضوع پر صوبے کو اعتماد میں نہ لیا گیا۔ یقینی طور پر اس طرز عمل پر وفاق مخالف سیاست کو فروغ ملے گی۔ حالت یہ ہے کہ صوبے کے پاس ترقیاتی اخراجات کی مد میں محض 88کروڑ روپے رہ گئے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کے ساتھ رقبے کی بنیاد پر حصہ دینے کا مطالبہ ہوا۔ خود وزیراعلیٰ جام کمال کہتے ہیں کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معدنی وسائل صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور بلوچستان کے وسائل کے بارے میں فیصلے کرنا بھی صوبے کے منتخب نمائندوں اور عوام کا حق ہے ۔ بلوچستان اسمبلی کے 4 اکتوبر کے اجلاس میں سیندک منصوبے سے متعلق قرارداد منظور کی گئی ،کہ سیندک معاہدوں سے متعلق شواہد کو اسمبلی میں پیش کیا جائے اور بتایا جائے کہ اس معاہدے کے حقائق کیا ہیں ۔ صوبہ اب اس منصوبے کو اسکینڈل کہہ کر پکارتا ہے ۔ گویا اسمبلی اس منصوبے کے انتظامی امور کا کنٹرول چاہتی ہے اور حکومت ارادہ رکھتی ہے کہ سیندک اور ریکوڈک معاہدوں کا از سرنو جائزہ لے ۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کوئٹہ آکر صوبے کو جائز حق دینے کا وعدہ کیا۔ سی پیک منصوبے کا از سرنو جائزہ لینے اوربلوچستان کے سی پیک منصوبوں سے متعلق تحفظات دور کرنے کی بات بھی کی اور یہ کہ وفاق بلوچستان کے ساتھ بطور پارٹنر کام کرے گا۔ یقیناًایسا نہیں ہونا چاہیے کہ صوبے میں گیس اور تیل کی تلاش کا کام شروع ہو اور صوبے کو اس کی کان پڑی خبر نہ ہو۔ وزیر اعظم عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے سونے ، تانبے ، کوئلہ اور کرومائٹ کے ذخائر موجود ہیں ۔ تیل اور گیس کے ذخائر اس کے علاوہ ہیں۔ لہٰذا اگر صوبہ اپنی اس دولت سے محروم رہے گا تو بد یہی طور پر مرکز گریز سیاست و رجحانات ذہنوں میں راسخ ہوں گے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں