میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
طویل مدتی نگران حکومت کی سازشی تھیوری

طویل مدتی نگران حکومت کی سازشی تھیوری

منتظم
جمعه, ۹ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

اس سال ہونیوالے عام انتخابات کے التواء اور طویل عرصہ کے لیے نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے مختلف سازشی تھیوریاں سامنے آتی رہی ہیں۔ان دنوں اعلیٰ مقتدر اور سیاسی حلقوں میں ایسا سازشی نظریہ گردش میں ہے جو درست ثابت ہوتا ہے تو اس کے نتائج جمہوریت ،خاص طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے بہت خطرناک ہوں گے۔اس سازشی نظریہ سے قطع نظر ایک دوسرا معاملہ بھی ہمارے تجزیہ کا حصہ ہوگا جو سینیٹ الیکشن میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ پر الیکشن کمیشن کی کارروائی سے متعلق ہے۔2018ء کے عام انتخابات کے التواء کے حوالہ سے جو سازشی تھیوری پیش کی جارہی ہے ،اس کے تحت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے کردار کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگران حکومتوں کے قیام میں مرکزی کردار ہوگا ،وہ نگران وزیراعظم کے تقرر کے حوالے سے بھی موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔آئین کے تحت نگران وزراء اعلیٰ کا تقرر متعلقہ وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مل کرکرتے ہیں ،اگر دونوں کے درمیان کسی ایک نام پر اتفاق رائے نہ ہوسکے تو دونوں کی طرف سے 3،3نام الیکشن کمیشن کو بھیجے جاتے ہیں اور الیکشن کمیشن ان میں سے موزوں ترین شخص کا بطور نگران وزیراعلیٰ تعین کرتے ہیں۔

اسی طرح نگران وزیراعظم کا تقرر موجودہ وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مل کر کریں گے۔ماضی میں اسے معاملات پراپوزیشن لیڈر حزب اختلاف کے دیگر راہنماؤں سے بھی مشاورت کرتے آئے ہیں ،کے پی کے میں تحریک انصاف کا وزیراعلیٰ ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے میاں محمود الرشید اپوزیشن لیڈر ہیں۔خیال کیا جارہا ہے کہ ان دونوں صوبوں میں کسی ایک نام پر اتفاق نہیں ہوگا۔وفاق میں بھی کوشش کی جائے گی کہ نگران وزیراعظم کے لیے کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہو اور معاملہ الیکشن کمیشن میں چلا جائے ،جس کے بعدایسے افراد کو نگران وزیراعظم اور صوبوں کے نگران وزراء اعلیٰ کے طور پر نامزد کروایا جائے جو "مقتدر حلقوں "کی مرضی سے اپنی کابینہ کا چناؤ کریں ،اس کے بعد نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں کے معاملہ کو متنازع بنانے کی کوشش کی جائے گی اور بال عدالت عظمیٰ کی کورٹ میں ہوگی۔یہ حلقہ بندیاں مردم شماری کے عبوری نتائج کی روشنی میں کی جارہی ہیں جبکہ آئین میں مردم شماری کے عبوری نتائج کے تحت حلقہ بندیوں کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔اسی طرح کے دیگر معاملات سپریم کورٹ میں اٹھائے جاسکتے ہیں ۔

اگر سپریم کورٹ سے اس بابت حکم امتناعی آجاتا ہے اور مردم شماری کے حتمی نتائج کے اجراء کے ساتھ ساتھ حتمی نوٹیفکیشن کے مطابق حلقہ بندیاں کرکے الیکشن کروانے کی ہدایت کی جاتی ہے تو عام انتخابات موخر ہوسکتے ہیں ،جس کے نتیجے میں نگران حکومتوں کو طویل عرصہ تک اقتدار میں رہ سکتی ہیں۔اس سلسلے میں آئین کے آرٹیکل 254سے مدد لی جائے گی جس میں کہا گیا ہے کہ جب کسی فعل یا کام کی تکمیل کے لیے دستور میں کسی مخصوص مدت کا تعین کیا گیا ہو اور وہ کام مذکورہ مدت کے اندر مکمل نہ ہوسکے تو اسے ناجائزاورغیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔اسی دوران احتساب کا عمل تیز تر ہوجائے گا۔تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں بشمول عمران خان کو نیب کی کارروائیوں کے وسیع تر عمل کے دائرہ میں لایا جائے گا۔

یہ ایک سازشی تھیوری ہے جس کی کسی منصوبہ کے طور پر تصدیق نہیں ہورہی۔چیف جسٹس پاکستان متعدد بار قسم کھا کر یہ کہہ چکے ہیں کہ عدلیہ کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں اور نہ ہی عدلیہ کسی پلان کا حصہ ہے۔سپریم کورٹ الیکشن اورسیاست سے متعلق تمام معاملات نگران حکومتوں کے قیام سے قبل نمٹا دیتی ہے تو یہ سازشی تھیوری اپنی موت آپ مرجائے گی اور بلا جواز تنقید کا راستہ بند ہوجائے گا۔عدلیہ کو چاہیے کہ نگران حکومت کے قیام کے بعد تمام سیاسی مقدمات کی سماعت عام انتخابات اور اس کے نتیجہ میں بننے والی حکومت کے قیام تک موخر کردے۔علاوہ ازیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمران خان نگران حکومتوں کے قیام کے حوالے سے اگر ضد پکڑ لیتے ہیں تو اس سے مذکورہ سازشی تھیوری کو تقویت ملے گی۔اس سازشی تھیوری کو ناکام بنانے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ہوش مندی سے کام لینا ہوگا۔اب سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ کے معاملہ پر الیکشن کمیشن کے نوٹس کے معاملہ کی طرف آتے ہیں۔الیکشن کمیشن نے 4کے سوا تمام کامیاب امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔جن چار افراد کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے ان کی بابت سپریم کورٹ نے دوہری شہریت کے الزامات کے تحت عبوری حکم امتناعی جاری کررکھا ہے۔

سینیٹ کے ارکان 12مارچ کو اپنے عہدوں کا حلف اٹھا رہے ہیں ،اسی روز سینیٹ کے نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہوگا۔دوہری شہریت کیس کی سماعت 8مارچ کو ہوگی ،امکان ہے کہ اس کیس کا فیصلہ 12مارچ سے قبل کردیا جائے گا۔آئین کے تحت شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ،آئین کے آرٹیکل 222(ڈی )کے تحت انتخابات ،انتخابی عذرداریوں کا انصرام اور انتخابات کے ضمن میں پیدا ہونے والے شکوک اور تنازعات کا فیصلہ کرنے کا الیکشن کمیشن کو اختیار حاصل ہے۔تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے موجود ہ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات سامنے آئے ہیں ،جس کا نوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگانے والے تمام سیاسی قائدین کو ثبوتوں کے ہمراہ 14مارچ کو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔الیکشن کمیشن نے اس معاملے کی شنوائی کے لیے جو تاریخ مقرر کی ہے ،اس سے قبل یہ ارکان نہ صرف اپنے عہدوں کا حلف اٹھا چکے ہوں گے بلکہ سینیٹ کے نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی ہوچکا ہوگا۔ہارس ٹریڈنگ کے شواہد پیش کرنا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو یہ الزام لگا رہے ہیں۔ہارس ٹریڈنگ کو ٹھوس شواہد کے ساتھ ثابت کرنا ممکن نظر نہیں آتا تاہم اگر ثبوت سامنے آجائیں تو الیکشن کمیشن ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کی رکنیت منسوخ کرسکتا ہے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ رضوان گل کیس میں قرار دے چکی ہے کہ جعلی سازی اور انتخابات میں کرپشن سامنے آنے پر الیکشن کمیشن کو متعلقہ رکن پارلیمنٹ کو نااہل قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔

اگر ہارس ٹریڈنگ ثابت ہو جاتی ہے تو متعلقہ افراد صادق اور امین نہیں رہیں گے اور وہ تاحیات نااہل بھی ہوسکتے ہیں تاہم آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ ہارس ٹریڈنگ ثابت کرنا آسان نہیں ہوگا جبکہ آئین میں ایسی کوئی پابندی بھی عائد نہیں ہے کہ صوبائی اسمبلی کے ارکان سینیٹ کے الیکشن میں اپنی پارٹی پالیسی کی مخالفت نہیں کرسکتے۔صورتحال جو بھی ہو یہ تو طے ہے کہ 12مارچ کو یہ لوگ حلف بھی اٹھائیں گے اور نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی کریں گے۔الیکشن کمیشن کے نوٹس سے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن متاثر نہیں ہوں گے۔علاوہ ازیں آئین میں انتخابی نتائج کو جو تحفظ دیا گیا ہے اسے پیش نظر رکھا جائے تو صرف ہارس ٹریڈنگ میں ملوث (ثابت ہونے پر)افراد کے خلاف ہی کارروائی ہوسکتی ہے ،پورا سینیٹ الیکشن کالعدم نہیں کیا جاسکتا۔ (تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں