عدلیہ کی طرف سے لٹیروں کا بلاامتیاز محاسبہ ضروری ہے!
شیئر کریں
پاکستان مسلم لیگ ( ن) کی رہنما اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے گزشتہ روز سرگودھا میںسوشل میڈیا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر اپنے والد اور نااہل قراردیے گئے سابق وزیر اعظم نواز شرف کے خلاف عدالتی فیصلے کوتنقید کانشانا بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پوری ن لیگ کو بطور جماعت سینیٹ الیکشن سے باہر پھینک دیا گیاہے۔ عوام کی رائے پر اپنی رائے مسلط کرنا آمریت ہے۔انھوں نے کہا کہ آپ کی بیٹی اور بہن نواز شریف کا مقدمہ نہیں بلکہ پاکستان کا مقدمہ لے کر آئی ہے ،ہم آمریت کے اندھیروں کو مٹانے کی کوشش کررہے ہیں اور گزشتہ دنوں جو ہوا وہ آمریت کے دور میں بھی نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پوری کی پوری جماعت کو سینیٹ انتخابات سے باہر کردیا ہو اور وہ جماعت جو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اسے نہ صرف انتخابات سے باہر کیا بلکہ شیر کا نشان بھی چھین لیا گیا، یہ مذاق جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوا ہے یہ اصل میں عوام کے ووٹ کی پرچی پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عوام کی رائے پر اپنی رائے مسلط کرنے کا نام آمریت ہے اور نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے والوں نے پہلے ان کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا اور بعد میں مسلم لیگ (ن) کی صدارت بھی چھین لی۔انہوں نے کہا کہ جس طرح خیبر سے کراچی تک عوام نے نواز شریف کا مقدمہ لڑا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور ہمارے خلاف 2 سال سے بدعنوانی کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن 5 روپے کی بھی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ احتساب کرو، مگر استحصال نہیں کرو۔ منصف بنو لیکن مدعی نہیں بنو اور پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے کہ اللہ کے بعد عوام اور عوام کے نمائندے حاکم ہیں اور آئین پاکستان یہ نہیں کہتا کہ منصف حاکم ہیں۔مریم نواز نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں ووٹ صرف اسے دینا جس کے کندھے پر نواز شریف کا ہاتھ ہو اور نواز شریف (ن) لیگ کے صدر بھی رہیں گے اور اگلے وزیر اعظم بھی بنیں گے۔ مریم نواز کے اس بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ عدلیہ اور حکمران مسلم لیگ میں محاذ آرائی بڑھتی جارہی ہے۔ نا اہل وزیراعظم نواز شریف قبل ازیں یہ الزام لگاچکے ہیںکہ پاکستان میں کوئی قانون نہیں، فیصلے بغض میں دیے جارہے ہیںاور اب مجھے زندگی بھر کے لیے نا اہل کرنے پر غور ہورہاہے۔ جبکہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثاربار بار یہ واضح کرچکے ہیں کہ ہم محاذ آرائی نہیں، قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وکلا میرا ساتھ دیں۔وہ یہ بھی واضح کرچکے ہیںکہ وہ منافق نہیں ہم نے معاشرے سے نا انصافی کے خاتمے کا آغاز کردیا ہے۔ یہ فرائض میں شامل ہے، کسی پر احسان نہیں، اپنی ذمے داری پوری کررہاہوں، میں سماجی برائیوں سے نبرد آزما ہوں۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ایک عرصے سے مفقود ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی شعبے میں قانون کی حکمرانی نظر نہیں آتی۔ روزانہ ہی ایسی خبریں آتی ہیں کہ فلاں محکمے، فلاں شعبے میں اربوں روپے کا کرپشن کیا گیا۔ لوٹ مار کرنے والے ملک سے فرار بھی ہوجاتے ہیں اور قانون کہیں کسی کونے میں پڑا اونگھتا رہتا ہے۔ قانون کی حکمرانی ہوتی تو بد عنوانی اور لوٹ مار پر آغاز ہی میں ہاتھ ڈالاجاتا۔ برسوں بعد جب لٹیرے اور خائن خوب عیاشی کرلیتے ہیں تو قانون کی آنکھ کھلتی
ہے لیکن خود سے نہیں، کسی کے دھکا دینے سے۔ کبھی کوئی درخواست دے کر متوجہ کرتا ہے اور کبھی قانون نافذ کرنے والے ناراض ہوکر ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ اب چیئرمین نیب نے وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ کے خلاف تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے۔ ان پر پاکستان اسپورٹس بورڈ میں بد عنوانی اور قواعد و ضوبط کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ نئے منصوبوں میں قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ بورڈ میں اندھا دھند بھرتیاں کی گئیں۔ وافر فنڈز ملنے کے باوجود اسٹیڈیمزکی حالت ناگفتہ بہ ہے اور فنڈز میں خورد برد کی گئی ہے۔کھلاڑیوں کی تربیت کے نام پر کاغذی کیمپ لگائے گئے ہیں۔ ان الزامات کی زد میں ڈی جی اسپورٹس بورڈ بھی آئے ہیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ سارے گھپلے اور بدعنوانیاں ایک دن، ہفتے یا مہینے کی بات تو نہیں ہوگی، اس میں کئی برس لگے ہوں گے۔ اگر آغاز ہی میں گرفت کرلی جاتی تو قومی خزانے کی بچت ہوسکتی تھی۔ وجہ یہی ہے کہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے یا ہے تو نہ ہونے کے برابر۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اپنا حصہ بھی وصول کرتے ہیں اور دونوں کا کام چلتا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں نیب نے گریڈ 20 کے ایک افسر احد خان چیمہ کو گرفتار کیا ہے۔ ان پر بھی کرپشن کا الزام ہے۔ فی الوقت وہ قائد اعظم تھرمل پاؤر کمپنی کے سی ای او کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ یہ کمپنی حکومت پنجاب کی ملکیت ہے اور احد چیمہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے پسندیدہ افسر ہیں۔ ان پر زمینوں پر قبضے کا الزام ہے۔ وہ لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ ان کی گرفتاری میاں شہباز شریف کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھی جارہی ہے چنانچہ پنجاب کی کابینہ میں اس پر احتجاج کیا جارہا ہے اور ہڑتال کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ احد چیمہ بے قصور ہیں یا خطا کار، اس کا فیصلہ عدالتوں پر چھوڑدینا چاہیے تھا۔ نیب کے پاس لازما ً ا ن کے خلاف ٹھوس ثبوت ہوں گے۔ اگر ایل ڈی اے کی زمینوں پر قبضے کا مسئلہ ہے تو وزیراعلیٰ خود اس کی وضاحت کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ ہم کسی سے محاذ آرائی نہیں چاہتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود حکومتیں عدلیہ سے محاذ آرائی پر اُتر آئی ہیں؟ اگر قانون کی گرفت مضبوط ہو تو پاکستان میں بد عنوانی ختم نہ سہی، بہت کم ہوسکتی ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بد عنوانی، لوٹ مار اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کی اکثریت ان کی ہے جن کے پیٹ پہلے ہی بھرے ہوئے ہیں مگر ہوس بڑھتی جاتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف بہتری آئی ہے مگر اس کی رفتار سست ہے۔ کرپشن سے پاک ملکوں کی فہرست میں پاکستان میں5 درجے بہتری آئی ہے حکومتیں اور عدالتیں باہم محاذ آرائی ترک کرکے قانون کی بالادستی اور بروقت استعمال پر توجہ دیں تو مزید بہتری آسکتی ہے اگر پاکستان میں عدلیہ اسی طرح چوراچکوں اورلٹیروں کابلاامتیاز محاسبہ کرتی رہیں تو پاکستان کو بھی کرپشن سے پاک ممالک کی صف میں شامل ہونے کااعزاز حاصل ہوسکتاہے۔ عوام کوبلاشبہ عدلیہ سے بہت توقعات وابستہ ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ اس دفعہ ہماری عدلیہ عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔