میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے خلاف یہود وہنود کے خطرناک منصوبے

پاکستان کے خلاف یہود وہنود کے خطرناک منصوبے

منتظم
هفته, ۲۴ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

نریندرامودی پہلے بھارتی وزیراعظم ہیں جنہوں نے جولائی 2017 میں صہیونی ریاست اسرائیل کی یاتراکرکے عالم اسلام کوپیغام دیاکہ اسلام اورمسلمان دشمن بھارت اسرائیل کامشترکہ ایجنڈاہے۔ مودی کے دورے کے جواب میں نیتن یاہونے بھی جنوری میںبھارت کادورہ کیا،،نیتن یاہوجونہی دہلی پہنچے تو مودی گرمجوشی اورفرط محبت میں گلے لگاکردیرتک ان سے لپٹے رہے۔ مودی کاکہنا تھا کہ نیتن یاہوکادورہ دونوں ملکوں کی دوستی کومضبوط ومستحکم کرے گاجبکہ نیتن یاہونے ایک ہی سانس میںمودی کوعالمی اور انقلابی لیڈرقراردیاکہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں انقلاب برپاکردیا ہے ، اب اسرائیلی کمپنیاںجنگی شعبے میں بھارتی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے اختیارکرنے کوتیارہیں۔اس اشتراک عمل سے ریاستی دہشتگردمودی اورنیتن یاہوکے انقلابی مزاج کی صراحت ہوجاتی ہے۔نیتن یاہونے اپنے دورہ بھارت کو اسرائیل کے عالمی معاشی،سیکورٹی،فنی اورسیاحتی تعلقات کومزیدمستحکم کرنے کاموجب قراردیتے ہوئے مودی کواپنا”پکایار” بھی قرار دیا۔بھارتی کارپوریٹ میڈیا نے نیتن یاہو کے دورہ بھارت کاتاریخی قراردیاہے۔ تاہم یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہودوہنودکے گٹھ جوڑ میں اس اضافے سے یہ پوراخطہ مزیدسنگین خطرات میں گھرگیاہے،اسی لیے ہرامن پسندشخص پیچ وتاب کھارہاہے۔ ان خطرات میں نیتن یاہوکے دورہ بھارت کے دوران دونوں مسلم دشمنوں کابغل گیرہوناجہاں امت مسلمہ کے لیے آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے وہاںمسلم امہ کے لیے کھلاچیلنج بھی ہے۔اسی لیے ہرامن پسندشخص پیچ وتاب کھارہاہے۔ نیتن یاہوکے بھارت پہنچتے ہی قابض بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیرکے ضلع بارہ مولاکے اوڑی علاقے میں 6 نوجوان کشمیریوں کوایک فرضی جھڑپ میں یہ کہتے ہوئے بے رحمی سے شہیدکردیاکہ یہ آزادکشمیرسے اوڑی علاقے میں دراندازی کے مرتکب ہوئے تھے اوران کاتعلق جیشِ محمدسے تھا۔نیزبھارتی فوج نے پاکستان کی چوکیوں پرحملہ کرکے افواج پاکستان کے 4نوجوانوں کوبھی شہیدکردیا۔ بھارت اسرائیل اسٹرٹیجک تعلقات کاباقاعدہ آغاز1962 میں ہواجب بھارت چین جنگ کے دوران اس وقت کے وزیراعظم جواہرلال نہرونے باضابطہ طورپراسرائیل سے ہتھیاربھیجنے کی درخواست کی۔ نہرونے اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان کوپیغام بھیجاکہ جس بحری جہازمیں ہتھیاربھیجے جائیں ان پراسرائیل کاجھنڈانہ لہرایاجائے کیونکہ اس سے مشرقِ وسطیٰ اورخلیجی ممالک سے بھارتی تعلقات متاثرہونے کا خدشہ تھا۔بھارت کے لیے خلیجی ممالک سے تعلقات وہاں آبادبھارتی شہریوں کی طرف سے ترسیلات زرکے باعث بہت اہمیت رکھتے تھے تاہم بن گوریان نے اس بات سے انکارکردیااوراصرارکیاکہ ہتھیاروں سے لدے جہازپراسرائیل کاجھنڈاضرورلہرایاجائے گا۔بھارت نے جب بن گوریان کی اسرائیلی جھنڈے کی شرط قبول کی توپھراسرائیلی اسلحے سے سے لداہواجہازبھارت روانہ کیاگیا۔ پاک بھارت جنگ میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزیدمستحکم ہوئے۔سری ناتھ راگھون نے اپنی کتاب میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کے مشیر پی این اسکرکے حوالے سے لکھا تھاکہ اگرچہ اسرائیل بھارت کوبراہِ راست ہتھیارفراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھامگرپاکستان کے خلاف وہ بھارت کی درخواست پرکچھ بھی کرنے کے لیے تیارتھا۔اسرائیلی وزیراعظم گولڈامیئرنے ہتھیاروں سے لدے جہازکوبھارت کی جانب موڑدیا۔
اس جنگ کے دوران اسرائیل نے جاسوسی کے شعبے میں بھی بھارت کو بھرپورتعاون فراہم کیا،اس کے جواب میں گولڈامیئرنے بھارت کواسرائیل سے مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کامطالبہ کیاتاہم اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں بھارت کومزیدکئی برس کاعرصہ لگا،بالآخربھارت نے فلسطینی رہنما یاسرعرفات کواعتمادمیں لیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کااعلان کردیا۔یاسرعرفات اس وقت بھارت کے دورے پرتھے اوراس وقت بھارتی وزیراعظم نرسمہاراؤ سے ملاقات کے بعدانھوں نے بیان دیاتھاکہ اسرائیل میں سفارت خانہ قائم کرنااور سفارتی تعلقات قائم کرنابھارت کااپنااستحقاق ہے اوروہ اس کااحترام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے بھی بھارت پردباؤڈالاکہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعاون بڑھائے۔بھارت کوہتھیارفراہم کرنے والا سب سے بڑاملک سوویت یونین تھا،سوویت یونین کے خاتمے کے بعدبھارت نے بڑی تیزی سے اپنے پرانے حلیف سے آنکھیں پھیرلیں اورہتھیاروں کے حصول کی خاطرنئی منڈیوں کی تلاش میں امریکا ی جھولی میں گرگیا تاہم امریکا نے ہتھیارفراہم کرنے کے لیے یہ شرط عائدکی کہ بھارت اپنی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کومناسب اہمیت دے۔بھارت اوراسرائیل کی سوچ اورطریقہ واردات یکساں ہے جبکہ دونوں کاپولیٹیکل آؤٹ ملتاجلتاہے۔اسرائیل نے سفارت،سیاسی اوردفاعی لحاظ سے بھارت کویہ بتایاہے کہ جس طرح اسرائیل کے آس پاس کئی اسلامی ممالک ہیں،اسی طرح ابھارت کے سامنے بھی اسلامی خطرہ موجودہے اوربھارت کے اندرسے کئی اورپاکستان بننے کے امکان ہیں۔اسرائیل گزشتہ بیس سال سے بھارت کو جنگی سازوسامان فراہم کرنے والا چوتھاسب سے بڑاملک ہے۔جبکہ امریکا ،روس اور فرانس بھی بھارت کی جنگی بھوک مٹانے میں ہلاکت خیزاسلحہ بھارت کوفروخت کرتے رہتے ہیں۔اسرائیل نے بھارت کوکئی طرح کے میزائل سسٹم ریڈاراوردوسرے کافی حساس ہتھیارفراہم کیے ہیں۔اسرائیل بذاتِ خودبڑے پیمانے پربعض بڑے ہلاکت آفریں اورجہازنہیں بناتالیکن وہ میزائل راڈارسسٹم بناتاہے۔گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں اسرائیل پربھارت کے انحصارمیں اضافہ ہواہے۔گزشتہ سال جولائی میں مودی کے دورہ اسرائیل کے دوران جوجنگی معاہدے ہوئے ان پرکئی برس سے بات چیت چل رہی تھی۔یادر ہے کہ دونوں اپنے تعلقات مستحکم بنانے اورسامان جنگ کی خریدوفروخت کے لیے بات چیت خفیہ طورپرکرتے ہیں۔

پاکستان کے خلاف امریکا، بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑکی سازشیں ایک عرصے سے جاری ہیں جس کا سد باب پاکستان اپنی سفارتی اور سیاسی حکمت عملی سے کرتا رہا ہے، مثلاً 1990میں یہی گٹھ جوڑ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا جس کے لیے فضائی حملے کر کے ہماری تنصیبات کو تباہ کرنا مقصود تھا۔ ہماری انٹیلی جنس نے جب اس سازش کی تصدیق کر دی تو اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ایک مضبوط اور مدبرانہ فیصلہ کر کے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے اپنے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو دہلی بھیجا اور پیغام دیا کہ پاکستان اس سازش کے خلاف انتہائی حد تک جانے پر تیار ہے اور ساتھ ہی پاکستان ایئر فورس کو حکم دیا کہ ایف سولہ طیاروں کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر کے بھارت کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کرنے کے لیے تیار رکھا جائے۔ امریکا نے جب یہ نقل و حرکت دیکھی تو فوراً اپنے سفارت کار رابرٹ گیٹس کو پاکستان بھیجا جنہیں ہماری حکومت نے واضح طریقے سے سمجھا دیا کہ: ’’خواہ اس سازش میں کوئی بھی شامل ہو، ہمارا ہدف بھارت کی ایٹمی تنصیبات ہیں۔‘‘ اس طرح یہ سازش ناکام ہو گئی لیکن آج جو سازشیں ہو رہی ہیں وہ 1990کی سازش سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے دشمنوں کا ہدف ہماری نظریاتی اساس ہے جسے ایک حد تک وہ کمزور کر چکا ہے اور کشمیر اور افغانستان میں آزادی کی تحریکوں کو طاقت کے بل بوتے پر ختم کرکے ہماری ملکی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل بھارت کو Hightech ہتھیار اور جنگی سازوسامان مہیا کر رہا ہے تاکہ بھارت جنوبی ایشیا کے علاقے میں اسی طرح بالادستی قائم کر لے جس طرح اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں اپنی بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی عسکری ٹیکنالوجی دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جس کے جواب میں ہمیں نئی تدبیریں اختیار کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

یہ گٹھ جوڑ افغانستان میں امریکا کی شرمناک شکست کی باز گشت ہے۔ اس کے رد عمل میں اب ضروری ہو گیا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان، امریکا کو افغانستان سے نکل جانے کا راستہ دکھائے، اس لیے کہ افغانستان امریکا کی کالونی نہیں ہے۔ افغانوں کو آزادی کا حق ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا کہ افغانستان کے عوام اپنی مرضی سے نظام حکومت قائم کریں اور ملک میں امن قائم ہو۔ افغان طالبان نے انہیں

شرائط پر بات کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اب پاکستان کو افغانستان کی آزادی کے حق میں آواز اٹھانا اور ہر ممکن مدد کرنا فرض بنتا ہے۔ ہماری افرادی قوت، ہمارے قبائلی اور ہماری پیادہ فوج، بھارت کے خلاف اور افغانستان میں قابض فوجوں کے خلاف ایک موثر قوت ثابت ہوئی ہیں جو دنیا کی ہر ٹیکنالوجی کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ درحقیقت ہمیں ایران جیسا حوصلہ اور ہمت اپنانے کی ضرورت ہے کہ جس طرح پچھلے 38 سال میں ایران پر ہر طرح کا ظلم، زیادتی اور دباو قائم رکھا گیا لیکن ایران نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور آج اس کی تذویراتی قوت ایران سے شام، عراق، بحرین، لبنان اور یمن سے آگے پاکستان کی سرزمین تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس خوف سے امریکا نے اسرائیل کو ایران کے پیچھے لگا دیا ہے جس طرح بھارت کو پاکستان کے خلاف شہ دی ہوئی ہے۔

کشمیر کی جنگ آزادی اب ایک مضبوط انقلابی قوت بن چکی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے پڑوس میں افغانستان کی جہادی قوت ہے، جس نے ہر بڑی طاقت کو شکست دی ہے۔ ایران ایک انقلابی قوت ہے۔ اس طرح ہمارے تینوں اطراف میں بڑی مضبوط قوتیں برسرپیکار ہیں اور درمیان میں ایٹمی پاکستان ہے، جسے ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایشیا کے قلب ہارٹ آف ایشیا کا نام دیا تھا، اس مرکزی قوت کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ سیکولر اور لبرل ازم کا پرچار ہو رہا ہے۔ اس صورت حال کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور تدبر کے ساتھ سنبھالنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس خطرناک صورت حال سے بچ سکیں جو 1965۔66 میں انڈونیشیا میں خانہ جنگی کی صورت میں رونما ہوئی تھی۔

اب انتخابات میں چند ماہ رہ گئے ہیںلیکن ہمارے رہنمائوں کو آپس میں لڑنے سے فرصت نہیں ہے، کسی کو یہ شکوہ ہے کہ قومی دولت لوٹنے پر ان کااحتساب کیوں کیاجارہاہے؟ ورپارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر غلط بیانی کرنے کے باوجود انھیں صادق اور امین تسلیم کیوں نہیں کیاجاتا۔جبکہ بعض ہر طرح کی پابندیاں پھلانگ کر براہ است وزارت عظمیٰ کی کرسی پر چھلانگ لگانے کو تیار نظر آرہے ہیں ایسے میں کسی کو بھی اس بات کاخیال نہیں ہے کہ ہمارا آئین یہ تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان کا نظام حکومت جمہوری ہوگا اور اس کی بنیادیں قرآن و سنت کی رہنمائی اور اصولوں کے تحت طے کی جانا لازم ہے۔ لیکن اس کے برعکس ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جن کے نتیجے میں ہمارے بچوں کو ان کے اسکولوں میں دین کی تعلیم دی ہی نہیں جاتی۔ہماری دینی جماعتوں کے انتشار کے سبب ہماری نظریاتی بنیادیں کمزور ہو رہی ہیں۔ نظریہ پاکستان کی نفی ہو رہی ہے اور قوم کا مقصد حیات تحلیل ہو رہا ہے جو اچھا شگون نہیں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں