نواز شریف کی پارٹی صدارت سے بھی نااہلی
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف کو پارٹی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی نااہلی کے بعد پارٹی سربراہ کی حیثیت سے ان کی جانب سے کیے گئے تمام فیصلے بھی کالعدم ہوگئے ہیں،اس کا سب سے پہلا اثر سینیٹ کے لیے ن لیگ کے نامزد امیدواروںپر پڑنے کاامکان ہے کیونکہ نواز شریف کے کیے ہوئے فیصلے کالعدم ہونے کی صورت میں ان کی نامزدگی بھی منسوخ تصور کی جاسکتی ہے اور اس طرح وہ الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہیں گے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تے کہ دوسرے ملکوں میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں مختلف صورتحال ہے، پارٹی سربراہ کے گرد ساری چیزیں گھوم رہی ہوتی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ہماری جان بھی اپنے لیڈر کے لیے حاضر ہے، یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور پارٹی سربراہ اہم ہوتا ہے اور اسی کے گرد ساری چیزیں گھومتی ہیں۔اس موقع پر وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کے خلاف عدالت کا فیصلہ موجود ہے، کیا میں غلط کام کرنے کے لیے اپنا بنیادی حق استعمال کرسکتا ہوں اور مفروضے پر پوچھ رہا ہوں کیا ڈرگ ڈیلر یا چور پارٹی لیڈر بن سکتا ہے۔فروغ نسیم نے کہا کہ قانون میں اخلاقی اقدار بنیادی نکتہ ہے، سیاسی جماعت ڈی ریگولیٹ نہیں رہ سکتی ۔2 اکتوبر 2017 کو سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات بل 2017 منظوری کے بعد نواز شریف کے لیے پارٹی صدر بننے کے لیے راہ ہموار ہوئی۔پاناما کیس کے فیصلے کے بعد نواز شریف پارٹی صدر کے لیے نااہل ہوگئے تھے اور پارلیمنٹ سے نئے بل کی منظوری کے بعد 3 اکتوبر کو وہ ایک مرتبہ پھر بلا مقابلہ پارٹی صدر منتخب ہوئے۔سابق وزیراعظم نواز شریف کے پارٹی صدر بننے اور پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری کے بعد تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں۔یکم جنوری 2018 کو عدالت نے درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس پر سماعت کی جب کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت کے دوران عوامی مسلم لیگ کی جانب سے فروغ نسیم، تحریک انصاف کی جانب سے بابر اعوان اور پیپلز پارٹی کی جانب سے لطیف کھوسہ بطور وکیل پیش ہوئے۔ قبل ازیںسپریم کورٹ نے نیب ریفرنس یکجا کرنے کی سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپیل مسترد کردی تھی۔
سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلوں نے مسلم لیگ ن کو ایک بڑی مشکل سے دوچار کردیاہے،اگرچہ ابھی تک مسلم لیگ ن کی جانب سے اس فیصلے کے حوالے سے کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دئے جانے کے بعد نواز شریف ،ان کی صاحبزادی اوروزیراعظم سمیت ان کے دیگر ساتھیوں نے عدالتی فیصلوں کی تذلیل وتضحیک کا جو وطیرہ اختیار کیا ہے اس کے پیش نظر یہ واضح نظر آتاہے کہ مسلم لیگ ن اس فیصلے کے خلاف بھی یقینی طورپر سخت رویہ اختیار کرے گی،جس کااشارہ وزیر مملکت طلال چوہدری اورمریم اورنگزیب نے اپنے ابتدائی بیان میں دیدیا ہے۔
ہمارے اس خیال کو مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف اوران کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جو لہجہ اختیار کیاتھا سے بھی تقویت ملتی ہے ،اس جلسہ عام میں نواز شریف اور ان کی چہیتی صاحبزادی نے ایک دفعہ پھر عدلیہ کے فیصلوں کوتضحیک کانشانہ بناتے ہوئے عدلیہ کو ووٹ کااحترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو بالادست قرار دیا ہ تھا ،جبکہ اطلاع کے مطابق نئے منظور کردہ الیکشن ایکٹ 2017 سے وہ 19اعلانات حذف کردئے گئے ہیں اورکسی بھی امیدوار کو اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے ان اعلانا ت کی ضرورت نہیں رہی اس طرح اب ٹیکس چور،قرض لے کر واپس نہ کرنے والے، مجرمانہ الزامات میں ملوث،غیر قانی طریقوں سے اثاثے بنانے اوراثاثے چھپانے کے لیے دروغ گوئی سے کام لینے والے اوردہری شہریت کے حامل افراد بھی نہ صرف کاغذات نامزدگی داخل کرسکیں گے اور کوئی انھیں چیلنج نہیں کرسکے گا بلکہ وہ منتخب ہوکر اس پارلیمنٹ کارکن اور اس طرح وزیر،مشیر اوروزیر اعظم بھی بن سکیں گے جس کی بالادستی کی بات ان دنوں نواز شریف بہت زور شور سے کررہے ہیں ،نواز شریف کاکہنا ہے کہا کہ ووٹ کا احترام سب کو کرنا ہوگا،اس کے ساتھ ہی نواز شریف نے یہ بھی اعلان کیا کہ عوام مجھے نااہل کرنے والوں سے بدلہ لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ منظور نہیں کہ 22 کروڑ عوام منتخب کریں اور چند لوگ گھر بھیج دیں۔
نواز شریف کی جانب سے مسلسل عدلیہ کودھمکیاں دینے اور اس کے فیصلوںکو بے وقعت کرنے کی کوششیںکوئی نئی بات نہیں وہ اپنی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد سے یہ کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں یا انھیں لودھراں جیسے ضمنی انتخابات کے نتائج کاحوالے دے کر یہ سمجھایا جارہا ہے کہ پانامہ لیکس کیس کے فیصلہ پر ان کا یہ بیانیہ عوام میں ان کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کررہا ہے۔ جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ اب منظر نامہ بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک طرف عدالت کا فیصلہ ہے جس سے اختلاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں، دوسری طرف نوازشریف عوام میںاپنے بیانیئے کی پذیرائی کے طلسم میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اب آئندہ کیا ہو گا یہ آنیوالے انتخابات کے نتائج ہی بتا سکیں گے۔ لیکن یہ حقیقت بڑی واضح ہے کہ انہیں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے نا اہل کیا ہے اس لیے وہ محض عوامی سپورٹ سے نہیں عدلیہ سے سرخرو ہو کر ہی انتخابی سیاست کے لیے دوبارہ اہل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ہوشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے انہیں بڑی محتاط زبان استعمال کرنی چاہئے۔ اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ اگرچہ عوام کے سامنے اپنا موقف بیان کرنے اور انہیں ہم نوا بنانے اور قائل کرنے کی کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن عوام میں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو فاضل جج صاحبان کی طرح آئین و قانون اور انصاف کے تقاضوں کی باریکیاں سمجھنے والے ہوں۔
اس امرمیں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین میں تمام ریاستی اداروں کے اختیارات اور حدودوقیود متعین کردی گئی ہیں اس لیے اگر ہر ادارہ اپنی آئینی حدودوقیود میں رہے اور آئین کے ودیعت کردہ اپنے اختیارات بروئے کار لائے تو اداروں کے مابین اختیارات کا جھگڑا پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ ہماری ماضی کی عدالتی اور سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جھگڑا اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی ریاستی ادارہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرکے دوسرے ریاستی ادارے کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ کو دوسرے ریاستی اداروں پر اس لیے فوقیت حاصل ہے کہ وہ آئین اور قانون سازی کا مجاز فورم ہے جبکہ تمام ریاستی اداروں نے پارلیمنٹ کے وضع کیے گئے قوانین کے تابع ہی اپنے فرائض ادا کرنا ہوتے ہیں البتہ عدلیہ کو آئین کی تشریح کرنیوالے ادارے کی حیثیت سے دوسرے ریاستی اداروں پر اس حوالے سے فوقیت حاصل ہے کہ کسی قانون یا آئینی شق پر اس کی روح کے مطابق متعلقہ اداروں سے عملدرآمد کرانے کی اسکی ذمہ داری ہے۔
چونکہ آئین میں اس امر کا تعین کردیا گیا ہے کہ آئین کی کسی شق سے متصادم کوئی قانون وضع نہیں کیا جا سکتا اس لیے کسی قانون کے بارے میں یہ تعین کرنا بھی عدلیہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ وہ آئین کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ عدلیہ کے روبرو اسی تناظر میں کئی قوانین ماضی میں بھی چیلنج ہوتے اور آئین سے متصادم ہونے کی صورت میں کالعدم قرار پاتے رہے ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ 58(2)B کے تحت اس وقت کے صدر غلام اسحاق کی جانب سے 90 کی اسمبلی اور میاں نوازشریف کی حکومت توڑنے کا اقدام اس بنیاد پر کالعدم قرار دے کر متعلقہ اسمبلی اور حکومت بحال کردی تھی کہ صدر نے آئین کی متعلقہ دفعہ کے تحت حاصل کردہ صوابدیدی اختیارات بدنیتی کے تحت استعمال کیے ہیں۔آج بدقسمتی سے آئین و قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ریاستی آئینی اداروں کے مابین تال میل کی مثالی صورتحال موجود نہیں ہے اور اسکے برعکس اداروں کے مابین اختیارات کی رسہ کشی جاری ہے،یہ صورت حال بلاشبہ نااہل قرار دئے گئے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد عدلیہ کے ساتھ محاذآرائی کی پالیسی اختیار کرنے کے باعث ہموار ہوئی ہے۔
موجودہ صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام آئینی اداروں کے مابین ایک گرینڈ ڈائیلاگ کے تحت آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے اختیارات اور حدودوقیود کے معاملہ میں بہترین قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مفاہمت کرلی جائے۔ اس کے لیے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی پہلے ہی اپنے فورم پر تجویز پیش کرچکے ہیں جس کی میاں نوازشریف نے بھی تائید کی ہے تو بے شک پارلیمنٹ ہی کے فورم پر گرینڈ ڈائیلاگ کا اہتمام کرلیا جائے مگر اداروں سے محاذآرائی کا راستہ اختیار کرنے سے بہرصورت گریز کیا جائے۔ اختیارات کی رسہ کشی یقیناً ایسی فضا کو ہی تقویت پہنچائے گی جو منتخب جمہوری نظام پر شب خون مارنے کی سوچ رکھنے والوں کے لیے سازگار ہوا کرتی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے اور عدلیہ پر تنقید کی موجودہ روش ترک کرکے عدالتی فیصلوںپر سر تسلیم خم کرکے اس ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔